نمائندہ جیو نیوز اور سینئر صحافی مشتاق پراچہ انتقال کر گئے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
مشتاق پراچہ— فائل فوٹو
جیو نیوز کے نمائندے اور سینئر صحافی مشتاق پراچہ انتقال کر گئے۔
اہل خانہ کے مطابق مشتاق پراچہ طویل عرصے سے شوگر کے مرض میں مبتلا تھے، ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، وہ نوشہرہ پریس کلب کےصدر بھی تھے۔
مرحوم کے بیٹے کے مطابق مشتاق پراچہ کی نمازِ جنازہ آج دوپہر 3 بجے نوشہرہ کلاں میں ادا کی جائے گی۔ 
مشتاق پراچہ جیو نیوز کے ساتھ 22 سال سے زائد عرصے سے وابستہ تھے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سینئر صحافی مشتاق پراچہ کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوگوار خاندان کے غم میں برابر کا شریک ہوں، مشتاق پراچہ کی صحافت کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-03-3
صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں صحافی سچائی کی تلاش میں بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں زبانی بدسلوکی، قانونی دھمکیاں، جسمانی حملے، قید، اور تشدد شامل ہیں، یہاں تک کہ کچھ صحافی تو اپنی جان تک گنوا بیٹھے ہیں، غزہ صحافیوں کے لیے کسی بھی تنازعے میں سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔ میں ایک بار پھر آزاد اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تقریباً دس میں سے نو صحافیوں کے قتل کے واقعات تاحال حل طلب ہیں۔ صحافیوں پر حملے انہیں تشدد کا نشانہ بنانا صرف ناانصافی نہیں بلکہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہے تمام حکومتوں کو ہر کیس کی تحقیقات کرنی چاہئیں، ہر مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافی ہر جگہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ ادھر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ آزادی صحافت اور صحافیوں کو تحفظ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں صحافت ریاست کا چوتھا ستون کہلاتی ہے، یہ عوام اور حکومت کے مابین رابطے کا موثر ذریعہ ہے، صحافت سے وابستہ افراد ہی پیش آمدہ حالات و اقعات سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں جس سے نہ صرف جمہوری اقدار و روایات فروغ پاتی ہیں، جمہوریت کو استحکام ملتا ہے بلکہ عوامی شعور میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور حکومت بھی جواب دہی پر مجبور ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ریاست کا یہ چوتھا ستون سخت مشکلات سے دوچار ہے، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور آزادی اظہار کا عمل مشکل بنادیا گیا ہے۔ 2 نومبر کو ہر سال صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد صحافیوں پر تشدد، اغوا، قتل اور دھمکیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، صحافیوں کو آزادانہ رپورٹنگ کا ماحول فراہم کرنا، ان کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا اور صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث ذمے داروں کو سزا دلانا ہے۔ یہ دن ان دو فرانسیسی صحافیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہیں 2013 میں قتل کردیا گیا تھا، جس کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے اس دن کو منانے کا اعلان کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2024 تک دنیا بھر میں کل 409 صحافی ہلاک ہوئے، جب کہ گزشتہ دو سال میں صرف غزہ میں اسرائیل افواج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 237 صحافی شہید ہوئے جن میں سے تقریباً 197 صحافیوں کا تعلق فلسطین سے تھا۔ المناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے جہاں صحافیوں کو اکثر دھمکیوں، جسمانی حملوں اور ملزمان کو سزا سے بچ جانے کی روایت کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان 180 ممالک میں سے 158 ویں نمبر پر ہے۔ یہ المیہ رہا ہے کہ فوجی طالع آزما ہوں یا سول حکمران ہر دور میں آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں، صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں دھمکیاں دی گئیں، الیکٹرونکس اور پرنٹ میڈیا پر پابندیاں عاید گئیں اور یہ منظر نامہ صرف مقامی نہیں عالمی سطح پر بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے جہاں صحافی آزادانہ رپورٹنگ کے چیلنجز سے دوچار ہیں، اس کی واضح مثال امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک ہیں جہاں حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والے صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں آزادی اظہار رائے پر بے جا پابندیاں عاید کی جائیں اور غیرجانبدارانہ اطلاعات کی فراہمی کی راہ مسدود کردی جائیں وہ معاشرہ انارکی اور افراتفری کا شکار ہوجاتا ہے۔ عوام تک حقائق کی رسائی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، صحافیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا اور انہیں دھمکیاں دینا غیر جمہوری طرزعمل ہے، صحافت کا گلا گھونٹ کر جمہوری معاشرے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کی موثر تفتیش، انصاف کی فراہمی اور ان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کو یقینی بنایا جائے اور صحافیوں کو ایسا آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے جہاں و ہ بلا خوف و خطر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں۔