WE News:
2025-06-09@20:13:31 GMT

کراچی کے جیلوں کے 13 ہزار قیدی اعتکاف سے کیوں محروم ہو گئے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

کراچی کے جیلوں کے 13 ہزار قیدی اعتکاف سے کیوں محروم ہو گئے؟

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں  کراچی کی جیلوں میں قید 13 ہزار  قیدی اعتکاف میں بیٹھنے سے محروم ہوگئے۔ سیکورٹی خدشات کے باعث اس سال قیدیوں کو جیلوں میں قائم مساجد میں اعتکاف  کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی ہونے کی وجہ سے بیرکوں میں بھی اعتکاف کے انتظامات نہیں  ہوسکے۔

اس سے قبل اعتکاف پر بیٹھنے والے  قیدیوں کے لئے جیلوں کی مساجد میں خصوصی انتظامات کیے جاتے تھے لیکن سیکیوریٹی خدشات اور گنجائش سے زائد قیدیوں کے باعث اس رمضان المبارک میں نماز تراویح کے اجتماعات بھی نہ ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں سے ملاقات کا نیا طریقہ کار وضع

 جیل ذرائع کے مطابق  گزشتہ 5 سالوں سے جیلوں میں قیدیوں کے اعتکاف کے لیے کسی قسم کے کوئی انتظامات نہیں کرائے جارہے ہیں جبکہ  کرونا وائرس کے دوران  بھی احتیاطی تدابیر، سماجی فاصلہ اور ایس او پیز پر عملدرآمد کی وجہ سے قیدیوں کو جیلوں کی مساجد میں اعتکاف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق اس سے قبل رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سینٹرل اور ملیر جیل کے تقریباً 800 سے ایک ہزار کے قریب قیدی جو قتل، اقدام  قتل، پولیس مقابلہ، غیر قانونی اسلحہ، دہشت گردی سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات میں بند ہیں، جیل میں قائم 12 سے زائد مساجد میں اعتکاف پر بیٹھتے تھے اور جیل حکام  کی جانب سے انہیں ضروری سہولیات بھی فراہم کی جاتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغان طالبان نے گرفتار برطانوی جوڑے کو ہائی سیکیورٹی جیل میں منتقل کردیا

جیل ذرائع نے بتایا ہے کہ سینٹرل جیل میں 500 سے زائد قیدی جیل میں قائم 6 سے زائد مساجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، جیل انتظامیہ کی جانب سے اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے ان قیدیوں کو اجازت دی  جاتی تھی جو نماز پابندی سے ادا کرتے تھے جبکہ اعتکاف میں بیٹھنے والوں پر ان کے مقدمات کی نوعیت کو بھی نہیں دیکھا جاتا تھا۔

سینٹرل جیل میں مسجد بلال، مسجد عثمان، جامع مسجد سبحان، بی کلاس کی مسجد، 17 نمبر وارڈ کی مسجد سمیت دیگر مساجد میں اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لیے انتظامات کیے جاتے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ادوار میں سینٹرل جیل کی طرح ملیر جیل کے بھی 300 کے قریب قیدی اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے جنہیں جیل میں قائم 4 مساجد میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی تھی۔

اسی طرح ملیر جیل انتظامیہ بھی مقدمات کی نوعیت کو نظر انداز کرکے نماز کی پابندی سے ادائیگی کرنے والے قیدیوں کو اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت دیا کرتی تھی۔

جیل ذرائع نے بتایاکہ سینٹرل جیل میں 2400 قیدی رکھنے  کی گنجائش ہے مگر وہاں اس وقت 7 ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں جبکہ ملیر جیل میں 2200 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے مگر وہاں اس وقت 6 ہزار کے قریب  قیدی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اڈیالہ جیل کے 2 ہیڈ وارڈن برطرف، وجہ کیا بنی؟

جیل کی بیرکوں میں ضرورت سے زیادہ قیدیوں کو رکھے جانے کے سبب بیرکوں میں اتنی گنجائش نہیں کہ وہاں قیدی اعتکاف کا انتظام کرسکیں، ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل جیل کی مساجد میں نماز تراویح کے لئے اجتماع کا اہتمام کیا جاتا تھالیکن اس مرتبہ انہیں بیرکوں میں ہی نماز تراویح کی ادائیگی کی ہدایت کی گئی جس کے باعث قیدی اجتماع کرنے کے بجائے بیرکوں میں ہی نماز تراویح ادا کرتے ہیں۔

سینٹرل جیل کے سینئر سپریٹنڈنٹ عبدالکریم عباسی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سینٹرل جیل نماز عصر کے وقت بند ہوجاتی ہے اور تمام قیدیوں کو ان کی بیرکوں میں رکھا جاتا ہے جبکہ جیلوں میں قائم مساجد بیرکوں کے باہر ہیں، سیکورٹی وجوہات کی بنا پر مساجد میں قیدیوں کے اعتکاف کے انتظامات نہیں ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: چیف جسٹس پاکستان کا ڈی آئی خان جیل کا دورہ، قیدیوں کے مسائل سنے

ملیر  جیل کے  سپریٹنڈنٹ سید ارشد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے انتظامات نہیں کیے گئے ہیں جبکہ جیل میں اعتکاف کے  پہلے بھی انتظامات نہیں ہوتے تھے کیونکہ احترام کا مسئلہ بھی ہوتا ہے، 7 سال قبل جیلوں کی مساجد میں نماز تراویح کے اجتماع کیے جاتے تھے مگر اب سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

jail karachi jail Prisons اعتکاف جیل رمضان قیدی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اعتکاف جیل مساجد میں اعتکاف انتظامات نہیں کی مساجد میں نماز تراویح قیدی اعتکاف بیرکوں میں سینٹرل جیل جیلوں میں قیدیوں کو قیدیوں کے کی اجازت ملیر جیل جیل میں کے قریب جیل کے کے لیے

پڑھیں:

پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟

پاکستان میں خواتین کو وراثت میں ان کے جائز شرعی اور قانونی حق سے محروم رکھنا بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ایسے ہزاروں مقدمات ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جہاں پر خواتین وراثت میں اپنے جائز حصے کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر کھانے پر مجبور ہیں۔

2021 میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا، بینچ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر خواتین اپنی زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں “ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفیکیٹ” کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟

پنجاب حکومت نے وراثتی جائیداد میں خواتین کے حصے کی ادائیگی ہر صورت لازم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ خواتین کے وراثتی حقوق کے نفاذ کا بل 2025 مسلم لیگ ن کی خاتون ایم پی اے اسما احتشام کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم کرنا قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے۔

 بل کے متن کے مطابق کسی بھی خاتون کو شریعت کے مطابق وراثتی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا، خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو محتسب مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جہاں متاثرہ خواتین اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔

مزید پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت کا بڑا فیصلہ، خواتین کو وراثت سے محروم کرنا غیراسلامی قرار

محتسب کو بل کے تحت نہ صرف زمینوں کا ریکارڈ درست کرنے کا اختیار حاصل ہو گا بلکہ وہ قانونی کارروائی سمیت ضرورت پڑنے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کرسکےگا۔

مزید برآں، بل کے مطابق فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل قائم کیے جائیں گے، جن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرائض انجام دیں گے۔

بل میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، کسی خاتون شہری کے حقِ وراثت تلف کرنے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر یہی جرم دوبارہ کیا جائے تو سزا 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم

خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے متعلق آگاہی مہم بھی بل کا حصہ ہو گی، جس کے تحت اسکولوں، مدارس اور خطبات میں وراثت سے متعلق شریعت کے مطابق تعلیم دی جائے گی۔

بل کی منظوری کے بعد حکومت کو 90 دن کے اندر متعلقہ قانون سازی کرنا ہوگی، فی الحال بل کو قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو 2  ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی، رپورٹ کی منظوری کے بعد بل کو رائے شماری کے ذریعے ایوان سے منظور کرایا جائے گا، جس کے بعد گورنر پنجاب اس کی حتمی منظوری دیں گے۔

ماہرین کے مطابق یہ قانون خواتین کے لیے ایک مضبوط قانونی تحفظ فراہم کرے گا اور ان کے وراثتی حقوق کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسما احتشام خواتین سپریم کورٹ فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل وراثت وراثتی حقوق

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر کے جیلوں میں پانچ ہزار افراد سے زائد قید
  • وادی نیلم کا علاقہ جو جدید دور میں بھی ہرقسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے
  • پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • میر واعظ عمر فاروق کو عیدالاضحیٰ پر مسجد جانے سے روک دیا گیا
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • قیدیوں کیلئے خوشخبری، پنجاب بھر میں 90 روزہ سزا معافی کا اعلان
  • ملک بھر میں عیدالاضحیٰ کے اجتماعات، سنت ابراہیمی کی ادائیگی
  • انکار کیوں کیا؟
  • وزیراعلیٰ سندھ کا قیدیوں کو عیدالاضحیٰ کا تحفہ، سزا میں خصوصی معافی کا اعلان