نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے کیونکہ اسرائیل مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔

نجی نیوز ایجنسی انڈیپینڈنٹ نیوز کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے کیونکہ اسرا

ئی

ل مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے ایکس اکاو¿نٹ پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جاری نسل کشی کو مغربی کنارے تک پھیلا دیا ہے، اور اگر اس وحشیانہ جنگ کو روکا نہ گیا تو طاقتور اور جارح ریاستوں کی بدترین فطرت بے نقاب ہو جائے گی، اقوام متحدہ کے چارٹر کے وہ اصول جنہیں جارحیت اور جنگ سے بچاو¿ کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، چکنا چور ہو جائیں گے اور دنیا ایک ہوبزیائی جہنم‘ (Hobbesian hell) میں تبدیل ہو جائے گی جہاں صرف تصادم اور تباہی کا راج ہوگا۔‘
بیان کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اسرائیل کی اس جاری نسل کشی کو دیکھتے نہ رہیں، کیونکہ اسرائیل اپنے اقدامات میں مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔‘
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورت حال پر پاکستان کا قومی بیان دیتے ہوئے اسرائیل کی حالیہ جارحیت، بشمول غزہ پر دوبارہ بمباری اور انسانی امداد کی منظم ناکہ بندی کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے 90 فیصد سے زائد غزہ کی آبادی بھوک کا شکار ہے۔ ’نوزائیدہ بچے مر رہے ہیں۔ سویلین عمارتوں جن میں ہسپتال، سکول اور مساجد شامل ہیں، جنگجوو¿ں کو نشانہ بنانے کے بہانے تباہ کی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی قانون، بشمول انسانی حقوق کے قوانین کے ہر اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘منیر اکرم نے زور دیا کہ اسرائیل نے واضح طور پر اعلان کر رکھا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں پر ہونے والے اثرات کی پروا کئے بغیر اپنی جارحیت جاری رکھے گا۔انہوں نے اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے فوجی چھاپے، آباد کاروں کے حملے اور غیر قانونی زمینوں کا انضمام فلسطینی عوام کو مغربی کنارے سے بے دخل کرنے کے ایک منظم منصوبے کا حصہ ہیں۔انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سات اکتوبر 2023 سے چار مارچ 2025 کے درمیان 896 فلسطینی، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے، بشمول مشرقی بیت المقدس میں قتل کئے گئے، ۔
سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے منتخب اراکین سے اپیل کی کہ وہ اس بربریت کو ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ ان منتخب اراکین کو جنرل اسمبلی کی جانب سے امن و سلامتی کے قیام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے دفاع کا براہ راست مینڈیٹ حاصل ہے۔انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں فوجی کارروائیاں روکنی چاہئیں اور ایک مستقل فائر بندی قائم کی جانی چاہئے۔ غزہ پر انسانی امداد کی ناکہ بندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کو مکمل رسائی دی جائے تاکہ شہریوں کو فاقہ کشی سے بچایا جا سکے۔ 15 جنوری کے معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے، جس میں مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا شامل ہے جبکہ قطر، مصر اور امریکا جیسے ثالثوں کو اس عمل میں معاونت کرنی چاہئے۔ غزہ کی بحالی اور گورننس کے لئے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تاکہ دیرپا استحکام یقینی بنایا جا سکے۔ ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل شروع کیا جائے جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے، جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت کو روکنے، فائر بندی کو برقرار رکھنے اور انسانی بحران کے خاتمے میں کردار ادا کر سکے تو یہ اگلے جون میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں ہونے والی کانفرنس میں دو ریاستی حل کے لئے سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔

نشئی کے ہاتھ میں دستی بم پھٹنے سے تین افراد جاں بحق 

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: اسرائیلی جارحیت سلامتی کونسل اس نے اقوام متحدہ منیر اکرم نے کہ اسرائیل پاکستان نے کیا جائے انہوں نے کے مطابق کے خلاف

پڑھیں:

گہرے عالمی سمندروں کا تحفظ: فرانس میں اقوام متحدہ کی تیسری سمٹ شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) اس موضوع پر اقوام متحدہ کی اپنی نوعیت کی تیسری سربراہی کانفرنس پیر نو جون کو فرانس کے شہر نیس میں شروع ہوئی۔

اس کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ کرہ ارض کے گہرے پانیوں والے سمندروں کے ماحولیاتی نظاموں کو بنی نوع انسان کی سرگرمیوں کے سبب کئی طرح کے شدید خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان خطرات کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے لازمی ہے کہ اقوام عالم اس عالمگیر معاہدے کی توثیق کریں، جو ہائی سیز ٹریٹی (High Seas Treaty) کہلاتا ہے۔

یہ معاہدہ اب تک نافذ العمل کیوں نہ ہوا؟

ہائی سیز ٹریٹی کہلانے والا یہ بین الاقوامی معاہدہ اب تک نافذ العمل اس لیے نہیں ہوا کہ اس کی اب تک اتنی بڑی تعداد میں ملکوں نے توثیق نہیں کی، جتنی کہ اس کے نفاذ کے لیے ضروری ہے۔

(جاری ہے)

کرہ ارض کے گہرے سمندروں کی حفاظت کا یہ عالمی معاہدہ اس وقت مؤثر ہو سکے گا، جب کم از کم 60 ممالک اس کی توثیق کر دیں گے۔

اس بارے میں تیسری ہائی سیز سمٹ کے میزبان ملک فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اس سربراہی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی کہ رواں برس کے اختتام تک مجموعی طور پر 60 ممالک اس عالمی معاہدے کی توثیق کر چکے ہوں گے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ نے اب تک اس ٹریٹی کی توثیق نہیں کی اور نہ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

گہرے عالمی سمندروں کو لاحق خطرات کون کون سے؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے نیس میں اس سمٹ سے اپنے افتتاحی خطاب میں عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد ہائی سیز ٹریٹی کی توثیق کر دیں۔

گوٹیرش کے بقول اس معاہدے کے نافذ العمل ہونے سے گہرے عالمی سمندروں کے بین الاقوامی پانیوں میں نہ صرف محفوظ سمندری خطے قائم کیے جا سکیں گے بلکہ ساتھ ہی ایسی انسانی سرگرمیوں کو بھی محدود کیا جا سکے گا، جو سمندری ماحولیاتی نظاموں کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔

انٹونیو گوٹیرش نے اپنے خطاب میں کہا، ''عالمی سمندر انسانیت کے لیے وسائل کا حتمی مشترکہ وسیلہ ہیں۔

لیکن ہم ان کے تحفظ میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس وقت عالمی سمندروں کو جن شدید خطرات کا سامنا ہے، ان میں مچھلیوں کے کم ہوتے ہوئے ذخیرے، سطح سمندر کا مسلسل بڑھتا جانا، گہرے سمندروں میں کی جانے والی کان کنی اور سمندری پانیوں میں تیزابیت میں اضافہ نمایاں مسائل ہیں۔‘‘

ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ناگزیر بفر زون

عالمی سمندروں کو کرہ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک ناگزیر بفر زون کے ضامن بھی قرار دیا جاتا ہے۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عالمی سطح پر انسانوں کی صنعتی، پیداواری اور کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی جتنی بھی ضرر رساں کاربن گیسیں فضا میں خارج ہوتی ہیں، ان کے تقریباﹰ 30 فیصد حصے کو یہی سمندر اپنے پانیوں میں جذب کر لیتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے عالمی سمندر اور ان کے پانی گرم ہوتے جا رہے ہیں، ان پانیوں میں قدرتی طور پر موجود سمندری ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کا براہ راست نتیجہ یہ کہ اب ان سمندروں کی زہریلی کاربن گیسوں کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی خطرے میں پڑتی جا رہی ہے۔

انٹونیو گوٹیرش کے بقول، ''یہ علامات ایک بحران زدہ عالمی سمندری نظام کا پتہ دیتی ہیں۔ اس منفی پیش رفت کا ہر حصہ دوسرے حصے پر پڑنے والے اثرات کو شدید تر بناتا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ گلوبل فوڈ چین مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے، انسانوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں اور عدم تحفظ کا احساس شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

‘‘ 2023ء میں منظور کیا جانے والا ہائی سیز ٹریٹی

گہرے عالمی سمندروں کے تحفظ کے لیے ہائی سیز ٹریٹی نامی عالمی معاہدے کی دستاویز 2023ء میں منظور کیے جانے کے باوجود اب تک اس لیے نافذالعمل نہیں ہو سکی کہ تاحال اس کے نفاذ کے لیے درکار کافی توثیق نہیں ہو سکی۔

اس معاہدے کے نفاذ کے بعد مختلف ممالک بین الاقوامی پانیوں میں ایسے میرین پارک قائم کر سکیں گے، جو گہرے سمندری خطوں کے دو تہائی حصے تک کا احاطہ کر سکیں گے۔

اس طرح گہرے سمندروں کا ایسا وسیع تر حصہ بھی بین الاقوامی ضوابط کے دائرہ کار میں آ جائے گا، جس کے نظم و نسق سے متعلق اب تک کوئی ضوابط نافذ نہیں ہیں۔

اس معاہدے کا نفاذ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ اب تک بین الاقوامی سمندری پانیوں، جنہیں عرف عام میں 'ہائی سیز‘ (high seas) کہا جاتا ہے، کا صرف ایک فیصد حصہ ہی محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

اب تک پچاس ممالک معاہدے کی توثیق کر چکے

نیس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کے صدر اور اس سربراہی کانفرنس کے شریک میزبان ایمانوئل ماکروں نے شرکاء کو بتایا کہ اب تک 50 ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں جبکہ 15 ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے جلد ہی اس ٹریٹی کی توثیق کے وعدے کر رکھے ہیں۔

صدر ماکروں نے امید ظاہر کی کہ 2025ء کے آخر تک اس ٹریٹی کے توثیق کنندہ ممالک کی تعداد 60 ہو جائے گی اور اس معاہدے کے نفاذ کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

جہاں تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کا تعلق ہے، تو صدر دونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اب تک نہ تو اس ٹریٹی کی توثیق کا کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے اور نہ ہی نیس سمٹ میں اپنا کوئی اعلیٰ سطحی وفد بھیجا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 2015ء اور 2019ء کے درمیانی عرصے میں عالمی سمندروں کے تحفظ اور ان کی صحت کی بحالی کے لیے جتنی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی، وہ 175 بلین ڈالر سالانہ بنتی تھی۔ لیکن اس عرصے میں دنیا بھر میں سالانہ صرف 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

ادارت: مریم احمد

متعلقہ مضامین

  • گہرے عالمی سمندروں کا تحفظ: فرانس میں اقوام متحدہ کی تیسری سمٹ شروع
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل 
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل
  • بنوں میں اہم جرگہ، فتنہ الخوارج کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ
  • بنوں میں اہم جرگہ، فتنۃ الخوارج اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی
  • اپنا دورہ اقوامِ متحدہ سے شروع کیا اور پاکستان کا مقدمہ پیش کیا: فیصل سبزواری
  • 24کروڑ پاکستانیوں کو پانی سے روکنے کا اقدام کھلی جارحیت ہے
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
  • بھارتی جارحیت کا فوری فیصلہ کن جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، وزیر اعظم