’’ باجی… ‘‘ لمبی سی سر کے ساتھ کسی نے مجھے مخاطب کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر سوالیہ نظر سے دیکھا۔ سر تا پا برقعہ نما لباس میں ملبوس، آواز سے نوجوان لڑکی محسوس ہوئی تھی مگر دل میں خیال آیا کہ وہ اس بھیس میں لڑکا بھی ہو سکتا تھا۔ باجی!!! کہنے کا انداز بھی بھکاریوں جیسا مخصوص انداز تھا۔ ’’ باجی مجھ سے کنگھی خرید لیں، دو دن سے میرے ہاں چولہا نہیں جلا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ چولہا جلانے والی گھر میں نہ ہو گی تو چولہا کیونکر جلے گا۔
’’ پہلے مجھے یہ بتائیں بیٹا کہ آپ یہاں داخل کیسے ہوئیں؟‘‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس قسم کی gated اور walled سوسائٹی میں وہ اندر آئی کس طرح تھی جہاں پر بغیر پاس کے یا شناختی کارڈ جمع کروائے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
’’ میں چیک کرتی ہوں کہ آپ کس طرح اندر آ گئی ہیں۔ میں نے اپنے پرس میں سے جتنی دیر میں فون نکالا، اتنی دیر میں وہ یوں غائب ہوئی جیسے کہ وہ تھی ہی نہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ مجھے شاید کوئی خواب آیا تھا، یوں جاگتے ہوئے اور دن دیہاڑے۔
زیادہ دیر نہ گزری تھی، میں دکان سے کچھ خرید کر نکلی تو اسی نوعیت کی ایک اور خاتون قریب آئی، میں اس وقت گاڑی میں سامان رکھ کر پلٹی تھی۔ میںنے غور سے دیکھا، وہ فرق خاتون تھی۔ ’’ میڈم جی… ‘‘ اسی مخصوص انداز میں اس نے آغاز لیا، ’’ کچن کی صفائی والے کپڑے لے لو جی!!‘‘
’’ اچھا کتنے کا ہے؟ ‘‘ میںنے گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر پلٹ کر سوال کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے درشتی سے سوال کروں کہ وہ یہاں کیسے داخل ہوئی تھی اور وہ غائب ہو جائے ۔ میرے سوال نے اسے کچھ امید دلائی تھی، یہی میں نے چاہا تھا۔
ساٹھ روپے کا ایک ہے جی اور اگر آپ چار لیں تو میں دو سو میں دے دوں گی۔‘‘ اس نےbuy four and get 70% off جیسی پیش کش کی۔ پرس میں سے کچھ تلاش کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ہزار روپے کا چھٹا تھا کہ نہیں۔
اسی دوران میں نے پرس میں رکھے فون سے صاحب کو پیغام بھیجا اور اپنا حدود اربعہ بتاتے ہوئے مختصراً مسئلہ بھی بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھٹا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ اتنا چھٹا ساتھ لے کر آئی تھی یا صبح سے اس نے صفائی والے اتنے کپڑے بیچ لیے تھے۔ ’’ چلو پانچ سو بھی شاید مل جائیں۔‘‘
میں نے اسی طرح پرس میں کچھ تلاشنے کی اداکاری کی ۔ ’’ کہاں سے آتی ہوں بیٹا؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے ایک قریبی قصبے کا بتایا، ’’ اچھا اندر کیسے آتے ہیں آپ لوگ، پہلے بھی ایک لڑکی مجھے ملی ہے وہ کنگھیاں بیچ رہی تھی؟‘‘ میںنے کہا تو اس نے خوشی سے بتایا کہ وہ بھی اسی کے ساتھ آتی تھی، ’’ یہاں اس کالونی میں اندرکیسے آجاتے ہو آپ لوگ؟‘‘
’’ اجی ہم پہلے یہاں کام کرتے تھے لوگوں کے گھروں میں تو ہمارے پاس بنے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے خوشی خوشی بتایا۔
’’ تو اب کیوں کام کے بجائے آپ لوگ بھکاری بن گئے ہو؟‘‘ میںنے سوال کیا۔
’’ بھکاری تو نہیں جی، ہم تو کام ہی کرتے ہیں ، یہ بھی تو کام ہی ہے نا۔‘‘ اس نے مجھے سمجھانا چاہا۔
’’ میرا واسطہ اس سے پہلے بھی ایسی خواتین سے پڑ چکا ہے جو پہلے کچھ بیچنا چاہتی ہیں مگر جب اس سے کچھ خریدا نہ جائے تو وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔
مجھے اتنی ہی دیر میں نظر آ گیا تھاکہ ہماری کالونی کی سیکیورٹی کا نمایندہ وہاں پہنچ چکا تھا، جب تک میں اس سے بات چیت کر رہی تھی، اسے یہی امید تھی کہ میں اس سے چار رومال لے لوں گی۔ سیکیورٹی کے نمایندے نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی بائیک کھڑی کی اور اس سے اس کا پاس مانگا۔
اس نے پاس نکال کر دکھایا اور اس پر معمول کی کارروائی شروع ہوئی، اس کا پاس ضبط کر لیا گیا، تھوڑی دیر میں ہی وہاں گاڑی بھی پہنچ گئی ، اسے اس گاڑی میں ڈال کر گیٹ سے باہر بھجوانے کی کارروائی ہوئی اور اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ اسی علاقے میں گھومنے لگا تا کہ اس کی باقی ساتھیوں کو تلاش کر سکے۔
آپ کو پڑھ کر لگا ہو گا کہ میں نے اس خاتون پر خواہ مخواہ ظلم کیا مگر اس کا کوئی مقصد ہے۔ اصل میں کچھ عرصے سے ایسی کئی کارروائیاں سننے کو مل رہی تھیں اور اکثر گھروں کے سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی ایسے گروہوں یا انفرادی کام کرنے والیوں کی وڈیو ریکارڈ ہوئیں جو کہ گھروں پر آ کر لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے سے لوٹ کر چلے جاتے ہیں مگر ان کیمروں میں ریکارڈ ہونے کے باوجود بھی انھیں پکڑا نہیں جا سکتا کیونکہ اس سب کے حلیے ایسے ہی ہوتے ہیں، برقع پوش خواتین اور سروں پر صافے اوڑھے ہوئے مرد۔
ان کا طریقہء واردات یہی ہے کہ وہ قریبی دیہات میں آباد ہیں، پہلے وہ ان سوسائٹیوں میں ملازمت کی غرض سے آتے ہیں، کسی نہ کسی گھر میں سستے داموں کام پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور گھروں اور مکینوں کی ’’چھان بین ‘‘ کا عمل کرتے رہتے ہیں، گھروں کی اندرونی صورت حال جاننے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں، اپنا اعتماد قائم کرتے اور سوسائٹیوں کے سیکیورٹی پاس بنوا لیتے ہیں اور اس کے بعد چھٹی پر جائیں تو لوٹتے نہیں یا پھر کچھ ایسا غلط کرتے ہیں کہ انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔
اب اس گھر کے مکینوں کو چاہیے کہ اگر اسے خود فارغ کریں یا اسے چھٹی پر بھجوائیں تو اس سے اس کا پاس واپس لے لیں اور اگر وہ چھٹی پر جا کر واپس نہ آئے تو اپنے علاقے کی سیکیورٹی کو اس کی تفصیلات اور اس کے پاس کا نمبر وغیرہ بتایا جائے تا کہ وہ جب بھی وہاں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس کا پاس چیک ہونے پر کینسل کیا جا سکے۔
پہلی غلطی تو ہم لوگ خود ہی کرتے ہیں کہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ان لوگوں کے گینگ اتنے مضبوط بن گئے ہیں کہ یہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں، انھیں اندر کی معلومات ہوتی ہیں اور یہ ایسا نشانے پر تیر لگاتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے نئے ملازم اس کا شکار ہو جاتے اور انھیں گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
اس گھر کے مالک کا نام لیں گے یا ان کی بیگم کا تو اس کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ کبھی ان کے کسی رشتہ دار کا نام لیں گے کہ انھوں نے بھیجا ہے وغیرہ۔ انھیں یوں سہولت سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر کوئی راہ چلتا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کوئی وارداتیے ہیں۔
کبھی وہ کوئی مظلوم بن جاتے ہیں کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے اور انھیں مدد کی ضرورت ہے، کبھی وہ تاک میں ہوتے ہیں کہ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے معمولات کے مطابق نکل جائیں تو اس کے بعد وہ اس گھر میں داخل ہوں اور صفایا کر کے نکل جائیں ۔ کبھی وہ گھنٹی بجاتے اور گھروں کے ملازمین یا دیگر افراد کو ٹرانس میں لے آتے ہیں اورانھیں بے بس کر کے ان کے سارے مال اسباب اور نقد رقوم کا صفایا کر دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اس کا پاس اس کے بعد اس کے پاس جاتے ہیں ہیں اور اور اس ہیں کہ سے کچھ
پڑھیں:
کبھی کبھار…
’’ نہیں مامون… ایسا نہیں ہے، آپ سے زیادہ کون پیارا ہو سکتا ہے مجھے؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی کان پوری طرح اس طرف مرکوز ہو گئے جہاں وہ خوبصورت سی نوجوان لڑکی، اس آدمی کو اپنے پیار کا یقین دلا رہی تھی۔’’ مجھے کوئی شک نہیں ہے تمہارے پیار میں اور تم بھی جانتی ہو میری پیاری کہ میں تمہیں دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں ۔‘‘ جواب میں بھی ایسی ہی چاہت کا اظہار کیا گیا۔ اگر ایسا تھا تو پھر مسئلہ کیا تھا، دونوں کے لہجے چغلی کھا رہے تھے کہ ان کے بیچ کوئی مسئلہ ہوا ہے اور انھیں اس محبت پر شک ہو گیا ہے جس کا وہ ایک دوسرے کو یقین دلا رہے تھے۔ اپنی توجہ اپنے کھانے پر مرکوز کی، بصد کوشش۔
’’ ہر گز نہیں… ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ اس آدمی نے سختی سے کہا، ’’عینی، تم ہر گز بل نہیں دو گی۔‘‘
’’ نہیں مامون، پلیز… اس بار مجھے بل ادا کرنے دیں۔‘‘ اس نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
’’ تم سمجھتی ہو کہ تمہارے پاس ڈالر ہیں اس لیے تم مجھ سے زیادہ امیر ہو، رہنے دو اپنی دولت کا رعب۔‘‘ اس نے اس کے ہاتھ سے اس کا کارڈ لے لیا، ’’ چلو اس کے بعد کہیں سے اچھی سی آئس کریم کھاتے ہیں، اس کا بل تم دے دینا۔‘‘ اس کے کہنے پر لڑکی نے اصرار کرنا چھوڑ دیا اور بل کی ادائیگی کا انتظار کرنے لگی۔ بل ادا کر کے وہ دونوں آگے پیچھے باہر نکل گئے اور ہم پھر اپنا کھانا کھانے لگے۔’’کتنا اچھا لگتا ہے نہ کبھی کبھار میاں بیوی کا یوں آپسیں محبت کا اقرار کرنا،یہ بھی ایک ٹانک ہے‘‘ ۔ ایک سہیلی نے کہا، ’’ نہ صرف یہ بلکہ یوں اس طرح کے ماحول میں، گھر سے باہراچھی جگہ پر کھانا کھاتے ہوئے۔‘‘
’’ ذرا اوچھا سا لگا مجھے…ٹانک کے بجائے ناٹک کہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘ دوسری رائے آئی، ’’ اگر ناراض تھے تو پہلے گھر پر صلح کر کے پھر کھانا کھانے آتے نا۔‘‘
’’ بھئی ہماری اور ان کی عمروں کا فرق ہے، نیا زمانہ ہے اورنئے طور طریقے۔‘‘ ایک اور رائے۔
’’ میں تو یوں میاں سے ناراض ہوتی تو اس کے ساتھ باہر کھانا کھانے آتی ہی نا۔‘‘ پہلے والی کی دوسری رائے۔
’’ ہاں، سو تو ہے۔ پہلے گھر پر میاں منا لے تو ہی بندہ گھر سے نکلے نا کہ کہیں دوبارہ باہر لڑائی ہو جائے، بات بڑھ جائے تو سارا کھانا تو گیا بھاڑ میں۔ پبلک میں کوئی نیا سین ہو جائے… بات ادھوری ہی رہ گئی ، وہ واپس آ رہی تھی جسے مامون نے تھوڑی دیر پہلے عینی کہا تھا۔ لگا کہ وہ ہمارے پاس ہی آ رہی تھی کیونکہ وہ ہمارے ساتھ والی میزپر ہی تو بیٹھے تھے۔ لگتا ہے کہ باہر نکل کر پھر لڑائی ہوگئی ہے، میںنے دل میں سوچا تھا۔ آئس کریم بھی نہیں کھائی ہو گی۔
’’ السلام علیکم!‘‘ اس نے ہماری میز کے قریب آ کر کہا، ہم سب نے سلام کا جواب دیا تھا۔ اس میز کی طرف گئی جہاں انھوں نے کھانا کھایا تھا۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہی تھی، نہ ملا تو وہ کاؤنٹر کی طرف گئی، وہاں سے بھی مایوس ہو کر آئی اور ہماری میز کے نیچے جھانکنے لگی۔’’ کچھ ڈھونڈ رہی ہیں بیٹا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ ’’ وہ میرے ماموں کا بٹوہ کہیں گر گیا ہے… ‘‘ اس نے پریشانی سے کہا، ’’ انھوںنے بل ادا کرنے کے لیے نکالا تھا اور اسی دوران وہ گر گیا، کارڈ لے کر وہ نکل گئے اور بٹوہ یہیں رہ گیا۔’’ کس کا بٹوہ بیٹا؟‘‘ ہم نے جو سنا تھا اس کی تصدیق کے لیے ایک نے پوچھا تھا۔
’’ میں اور میرے ماموں ، ہم تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں پر کھانا کھا رہے تھے…‘‘ اس کی بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک ویٹر بھاگتا ہوا آیا اور اس کے ماموں کا بٹوہ اس کے حوالے کیا۔ بٹوہ اس ٹرے میں گر گیا تھا جو ویٹر اٹھا کر لے گیا تھا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے بٹوہ کھول کر ہزار روپے کا ایک نوٹ نکالا کہ ویٹر کو دے مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ ’’ بہت شکریہ بھائی!‘‘ اس نے مسکرا کر کہا اور ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر ہمارے منہ کھلے ہوئے چھوڑ کر چلی گئی۔ ماموں یقینا گاڑی میں اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔
’’ واؤ!!‘‘ ایک آواز نکلی تو ہمارے منہ بند ہو گئے، ’’ ماموں !!‘‘ جسے ہم مامون سمجھ رہے تھے وہ ماموں نکلے تھے۔ ہم کہاں سوچتے ہیں کہ ایک ہوٹل میں بیٹھے دو لوگ جو کھانا کھا رہے ہوں، وہ میاں بیوی کے علاوہ کوئی اور بھی ہو سکتے ہیں۔عورتیں بھی اپنے شوہروں کے علاوہ اپنے باپ، ماموں، چچا اور تایا، بھائی ، بیٹے ، داماد، بھانجے یا بھتیجے کے ساتھ باہر کھانے پر چلی جائیں ، کبھی کسی پکنک پر، کسی پارک میں، کبھی فلم دیکھنے۔ یہ کوئی ایسی معیوب بات ہے نہ مشکل کہ ممکن نہ ہو۔ اس چھوٹے سے واقعے نے ہم سب کے ذہنوں پر ایک نیا در وا کیا تھا اور ہم نے سوچا تھا کہ اپنے شوہروں کو بتائیں گی کہ ایسا ہونا کتنا مختلف اور اچھا ہے۔ صرف اس طرح کی ملاقاتوں اور تفریح میں خیال رکھیں کہ آپ کسی نامحرم کے ساتھ کہیں تنہا نہ جائیں۔