Express News:
2025-09-18@20:56:14 GMT

ہشیار رہئے!!

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

’’ باجی… ‘‘ لمبی سی سر کے ساتھ کسی نے مجھے مخاطب کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر سوالیہ نظر سے دیکھا۔ سر تا پا برقعہ نما لباس میں ملبوس، آواز سے نوجوان لڑکی محسوس ہوئی تھی مگر دل میں خیال آیا کہ وہ اس بھیس میں لڑکا بھی ہو سکتا تھا۔ باجی!!! کہنے کا انداز بھی بھکاریوں جیسا مخصوص انداز تھا۔ ’’ باجی مجھ سے کنگھی خرید لیں، دو دن سے میرے ہاں چولہا نہیں جلا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ چولہا جلانے والی گھر میں نہ ہو گی تو چولہا کیونکر جلے گا۔

’’ پہلے مجھے یہ بتائیں بیٹا کہ آپ یہاں داخل کیسے ہوئیں؟‘‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس قسم کی gated اور walled سوسائٹی میں وہ اندر آئی کس طرح تھی جہاں پر بغیر پاس کے یا شناختی کارڈ جمع کروائے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔

’’ میں چیک کرتی ہوں کہ آپ کس طرح اندر آ گئی ہیں۔ میں نے اپنے پرس میں سے جتنی دیر میں فون نکالا، اتنی دیر میں وہ یوں غائب ہوئی جیسے کہ وہ تھی ہی نہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ مجھے شاید کوئی خواب آیا تھا، یوں جاگتے ہوئے اور دن دیہاڑے۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی، میں دکان سے کچھ خرید کر نکلی تو اسی نوعیت کی ایک اور خاتون قریب آئی، میں اس وقت گاڑی میں سامان رکھ کر پلٹی تھی۔ میںنے غور سے دیکھا، وہ فرق خاتون تھی۔ ’’ میڈم جی… ‘‘ اسی مخصوص انداز میں اس نے آغاز لیا، ’’ کچن کی صفائی والے کپڑے لے لو جی!!‘‘

’’ اچھا کتنے کا ہے؟ ‘‘ میںنے گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر پلٹ کر سوال کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے درشتی سے سوال کروں کہ وہ یہاں کیسے داخل ہوئی تھی اور وہ غائب ہو جائے ۔ میرے سوال نے اسے کچھ امید دلائی تھی، یہی میں نے چاہا تھا۔

ساٹھ روپے کا ایک ہے جی اور اگر آپ چار لیں تو میں دو سو میں دے دوں گی۔‘‘ اس نےbuy four and get 70% off    جیسی پیش کش کی۔ پرس میں سے کچھ تلاش کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ہزار روپے کا چھٹا تھا کہ نہیں۔

اسی دوران میں نے پرس میں رکھے فون سے صاحب کو پیغام بھیجا اور اپنا حدود اربعہ بتاتے ہوئے مختصراً مسئلہ بھی بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھٹا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ اتنا چھٹا ساتھ لے کر آئی تھی یا صبح سے اس نے صفائی والے اتنے کپڑے بیچ لیے تھے۔ ’’ چلو پانچ سو بھی شاید مل جائیں۔‘‘

میں نے اسی طرح پرس میں کچھ تلاشنے کی اداکاری کی ۔ ’’ کہاں سے آتی ہوں بیٹا؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے ایک قریبی قصبے کا بتایا، ’’ اچھا اندر کیسے آتے ہیں آپ لوگ، پہلے بھی ایک لڑکی مجھے ملی ہے وہ کنگھیاں بیچ رہی تھی؟‘‘ میںنے کہا تو اس نے خوشی سے بتایا کہ وہ بھی اسی کے ساتھ آتی تھی، ’’ یہاں اس کالونی میں اندرکیسے آجاتے ہو آپ لوگ؟‘‘

’’ اجی ہم پہلے یہاں کام کرتے تھے لوگوں کے گھروں میں تو ہمارے پاس بنے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے خوشی خوشی بتایا۔

’’ تو اب کیوں کام کے بجائے آپ لوگ بھکاری بن گئے ہو؟‘‘ میںنے سوال کیا۔

’’ بھکاری تو نہیں جی، ہم تو کام ہی کرتے ہیں ، یہ بھی تو کام ہی ہے نا۔‘‘ اس نے مجھے سمجھانا چاہا۔

’’ میرا واسطہ اس سے پہلے بھی ایسی خواتین سے پڑ چکا ہے جو پہلے کچھ بیچنا چاہتی ہیں مگر جب اس سے کچھ خریدا نہ جائے تو وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔

 مجھے اتنی ہی دیر میں نظر آ گیا تھاکہ ہماری کالونی کی سیکیورٹی کا نمایندہ وہاں پہنچ چکا تھا، جب تک میں اس سے بات چیت کر رہی تھی، اسے یہی امید تھی کہ میں اس سے چار رومال لے لوں گی۔ سیکیورٹی کے نمایندے نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی بائیک کھڑی کی اور اس سے اس کا پاس مانگا۔

اس نے پاس نکال کر دکھایا اور اس پر معمول کی کارروائی شروع ہوئی، اس کا پاس ضبط کر لیا گیا، تھوڑی دیر میں ہی وہاں گاڑی بھی پہنچ گئی ، اسے اس گاڑی میں ڈال کر گیٹ سے باہر بھجوانے کی کارروائی ہوئی اور اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ اسی علاقے میں گھومنے لگا تا کہ اس کی باقی ساتھیوں کو تلاش کر سکے۔

آپ کو پڑھ کر لگا ہو گا کہ میں نے اس خاتون پر خواہ مخواہ ظلم کیا مگر اس کا کوئی مقصد ہے۔ اصل میں کچھ عرصے سے ایسی کئی کارروائیاں سننے کو مل رہی تھیں اور اکثر گھروں کے سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی ایسے گروہوں یا انفرادی کام کرنے والیوں کی وڈیو ریکارڈ ہوئیں جو کہ گھروں پر آ کر لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے سے لوٹ کر چلے جاتے ہیں مگر ان کیمروں میں ریکارڈ ہونے کے باوجود بھی انھیں پکڑا نہیں جا سکتا کیونکہ اس سب کے حلیے ایسے ہی ہوتے ہیں، برقع پوش خواتین اور سروں پر صافے اوڑھے ہوئے مرد۔

ان کا طریقہء واردات یہی ہے کہ وہ قریبی دیہات میں آباد ہیں، پہلے وہ ان سوسائٹیوں میں ملازمت کی غرض سے آتے ہیں، کسی نہ کسی گھر میں سستے داموں کام پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور گھروں اور مکینوں کی ’’چھان بین ‘‘ کا عمل کرتے رہتے ہیں، گھروں کی اندرونی صورت حال جاننے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں، اپنا اعتماد قائم کرتے اور سوسائٹیوں کے سیکیورٹی پاس بنوا لیتے ہیں اور اس کے بعد چھٹی پر جائیں تو لوٹتے نہیں یا پھر کچھ ایسا غلط کرتے ہیں کہ انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اب اس گھر کے مکینوں کو چاہیے کہ اگر اسے خود فارغ کریں یا اسے چھٹی پر بھجوائیں تو اس سے اس کا پاس واپس لے لیں اور اگر وہ چھٹی پر جا کر واپس نہ آئے تو اپنے علاقے کی سیکیورٹی کو اس کی تفصیلات اور اس کے پاس کا نمبر وغیرہ بتایا جائے تا کہ وہ جب بھی وہاں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس کا پاس چیک ہونے پر کینسل کیا جا سکے۔

پہلی غلطی تو ہم لوگ خود ہی کرتے ہیں کہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ان لوگوں کے گینگ اتنے مضبوط بن گئے ہیں کہ یہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں، انھیں اندر کی معلومات ہوتی ہیں اور یہ ایسا نشانے پر تیر لگاتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے نئے ملازم اس کا شکار ہو جاتے اور انھیں گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

اس گھر کے مالک کا نام لیں گے یا ان کی بیگم کا تو اس کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ کبھی ان کے کسی رشتہ دار کا نام لیں گے کہ انھوں نے بھیجا ہے وغیرہ۔ انھیں یوں سہولت سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر کوئی راہ چلتا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کوئی وارداتیے ہیں۔

کبھی وہ کوئی مظلوم بن جاتے ہیں کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے اور انھیں مدد کی ضرورت ہے، کبھی وہ تاک میں ہوتے ہیں کہ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے معمولات کے مطابق نکل جائیں تو اس کے بعد وہ اس گھر میں داخل ہوں اور صفایا کر کے نکل جائیں ۔ کبھی وہ گھنٹی بجاتے اور گھروں کے ملازمین یا دیگر افراد کو ٹرانس میں لے آتے ہیں اورانھیں بے بس کر کے ان کے سارے مال اسباب اور نقد رقوم کا صفایا کر دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کا پاس اس کے بعد اس کے پاس جاتے ہیں ہیں اور اور اس ہیں کہ سے کچھ

پڑھیں:

فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر

اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) ایف بی آر کی سینئر قیادت نے کہا ہے کہ ادارے کا کسٹمز فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔  فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کا آغاز ریونیو کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد بد عنوانی کا خاتمہ تھا۔ اس نظام  پر عمل کرنے کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہی اس کا رول بیک جاتے ہیں۔ ایف بی آر ہی کے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آٖ ف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی  رپورٹ  کے بعض مندرجات کی تردید کے لئے پریس کانفرنس میں  کہا گیا کہ  اس ابتدائی نوعیت کی  رپورٹ  کو میڈیا کو لیک  کیا گیا۔ ہمیں  یہ بعد میں ملی اور میڈیا پر اس کے مندرجات کی غلط  تشریح کی گئی۔ اس  لیکج  میں وہ افسر ملوث ہیں جن  کی ذاتی نوعیت کی شکایات ہیں۔ رپورٹ میں ایسی چیزیں لائی گئی تھیں جو غلط تھیں۔ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اس  کو رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹمز آپریشن سید شکیل شاہ اور دیگر اعلی افسروں نے میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ کسٹم کے فیس لیس اسیسمنٹ نظام کو ریونیو کے مقصد کے لیے شروع نہیں کیا تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسٹم کلیئرنس میں رشوت کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔ گاڑیوں کی کلیئرنس کا سکینڈل سامنے آیا۔ اس میں دو افسروں کو گرفتار کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں تاجروں کی ہڑتال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کسٹم کلیئرنس کا پرانا نظام  واپس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ادارے میں وہ آٹھ اگست 2024 کو تعینات ہوئے تھے، انہوں نے اب تک کبھی کسی افسر کی تعیناتی سفارش پر نہیں کی ہے۔ ممبر کسٹم آپریشن شکیل شاہ نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے  پلان پر عمل ہو رہا ہے۔ انہی میں سے ایک فیس  لیس کسٹم اسیسمنٹ ہے، کیونکہ زیادہ تر امپورٹس کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہیں، اس لیے وہاں یہ سسٹم شروع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بیرون ملک سے آنے والی درآمدات کے لیے مختلف مختلف اشیاء  کو کلیئر کرنے کے لیے گروپس بنا دیے جاتے تھے جس میں درآمد کرنے والے کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اس کی چیز کلیئرنس  کس نے کرنی ہے اور اس سے  ساز باز کرنا ممکن ہوتا تھا۔ اب  ایک ہال میں 40 افسر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی افسر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ  جس جی ڈی پر کام کر رہا ہے وہ کس کی  ہے اور سارا کام ایک ہی ہال کے اندر ہوتا ہے اور اس کی سخت نگرانی ہوتی ہے اور ہال میں ٹیلی فون یا ای میل کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ درآمدی اشیاء کی  کلیئرنس میں ٹائم بڑھنے کا تاثر بھی درست نہیں ہے۔ معمولی تاخیر ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے کچھ بیرونی  عوامل بھی ہیں جن میں بندرگاہ پر بہت زیادہ رش اور پروسیجرل رکاوٹیں موجود ہیں اور اس کی وجہ ایف سی اے نہیں ہے۔ انہوں نے بعض آڈٹ آبزرویشن کے لیک ہونے کے حوالے سے کہا کہ ان میں چیزوں کو غلط طور پر بیان کیا گیا اور بعض باتیں تو کلی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس غیر قانونی لیک کے ذمہ دار ہیںیا جان بوجھ کر مس رپورٹنگ کر رہے ہیں ان کا احتساب کیا جائے گا۔ ہم اس سسٹم کو مزید بہتر بنائیں گے اور اصلاحات کو ڈی ریل کرنے والوں کے خلاف تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب؛ کچے کا وسیع علاقہ ڈوب گیا، فصلیں تباہ
  • پنجاب میں زلزلے کے جھٹکے، شہری خوفزدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے
  • لازوال عشق
  • کراچی، مختلف علاقے کے گھروں سے 2 افراد کی گلے میں پھندا لگی لاشیں برآمد
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • سیلابی ریلہ سندھ میں داخل ، گھر دریا کی بے رحم موجوں میں بہہ گئے
  • وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور شہدا کے لیے 5 منٹ نہیں نکال سکے، بیرسٹر عقیل ملک
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage