Express News:
2025-07-26@09:30:24 GMT

ہشیار رہئے!!

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

’’ باجی… ‘‘ لمبی سی سر کے ساتھ کسی نے مجھے مخاطب کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر سوالیہ نظر سے دیکھا۔ سر تا پا برقعہ نما لباس میں ملبوس، آواز سے نوجوان لڑکی محسوس ہوئی تھی مگر دل میں خیال آیا کہ وہ اس بھیس میں لڑکا بھی ہو سکتا تھا۔ باجی!!! کہنے کا انداز بھی بھکاریوں جیسا مخصوص انداز تھا۔ ’’ باجی مجھ سے کنگھی خرید لیں، دو دن سے میرے ہاں چولہا نہیں جلا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ چولہا جلانے والی گھر میں نہ ہو گی تو چولہا کیونکر جلے گا۔

’’ پہلے مجھے یہ بتائیں بیٹا کہ آپ یہاں داخل کیسے ہوئیں؟‘‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس قسم کی gated اور walled سوسائٹی میں وہ اندر آئی کس طرح تھی جہاں پر بغیر پاس کے یا شناختی کارڈ جمع کروائے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔

’’ میں چیک کرتی ہوں کہ آپ کس طرح اندر آ گئی ہیں۔ میں نے اپنے پرس میں سے جتنی دیر میں فون نکالا، اتنی دیر میں وہ یوں غائب ہوئی جیسے کہ وہ تھی ہی نہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ مجھے شاید کوئی خواب آیا تھا، یوں جاگتے ہوئے اور دن دیہاڑے۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی، میں دکان سے کچھ خرید کر نکلی تو اسی نوعیت کی ایک اور خاتون قریب آئی، میں اس وقت گاڑی میں سامان رکھ کر پلٹی تھی۔ میںنے غور سے دیکھا، وہ فرق خاتون تھی۔ ’’ میڈم جی… ‘‘ اسی مخصوص انداز میں اس نے آغاز لیا، ’’ کچن کی صفائی والے کپڑے لے لو جی!!‘‘

’’ اچھا کتنے کا ہے؟ ‘‘ میںنے گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر پلٹ کر سوال کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے درشتی سے سوال کروں کہ وہ یہاں کیسے داخل ہوئی تھی اور وہ غائب ہو جائے ۔ میرے سوال نے اسے کچھ امید دلائی تھی، یہی میں نے چاہا تھا۔

ساٹھ روپے کا ایک ہے جی اور اگر آپ چار لیں تو میں دو سو میں دے دوں گی۔‘‘ اس نےbuy four and get 70% off    جیسی پیش کش کی۔ پرس میں سے کچھ تلاش کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ہزار روپے کا چھٹا تھا کہ نہیں۔

اسی دوران میں نے پرس میں رکھے فون سے صاحب کو پیغام بھیجا اور اپنا حدود اربعہ بتاتے ہوئے مختصراً مسئلہ بھی بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھٹا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ اتنا چھٹا ساتھ لے کر آئی تھی یا صبح سے اس نے صفائی والے اتنے کپڑے بیچ لیے تھے۔ ’’ چلو پانچ سو بھی شاید مل جائیں۔‘‘

میں نے اسی طرح پرس میں کچھ تلاشنے کی اداکاری کی ۔ ’’ کہاں سے آتی ہوں بیٹا؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے ایک قریبی قصبے کا بتایا، ’’ اچھا اندر کیسے آتے ہیں آپ لوگ، پہلے بھی ایک لڑکی مجھے ملی ہے وہ کنگھیاں بیچ رہی تھی؟‘‘ میںنے کہا تو اس نے خوشی سے بتایا کہ وہ بھی اسی کے ساتھ آتی تھی، ’’ یہاں اس کالونی میں اندرکیسے آجاتے ہو آپ لوگ؟‘‘

’’ اجی ہم پہلے یہاں کام کرتے تھے لوگوں کے گھروں میں تو ہمارے پاس بنے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے خوشی خوشی بتایا۔

’’ تو اب کیوں کام کے بجائے آپ لوگ بھکاری بن گئے ہو؟‘‘ میںنے سوال کیا۔

’’ بھکاری تو نہیں جی، ہم تو کام ہی کرتے ہیں ، یہ بھی تو کام ہی ہے نا۔‘‘ اس نے مجھے سمجھانا چاہا۔

’’ میرا واسطہ اس سے پہلے بھی ایسی خواتین سے پڑ چکا ہے جو پہلے کچھ بیچنا چاہتی ہیں مگر جب اس سے کچھ خریدا نہ جائے تو وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔

 مجھے اتنی ہی دیر میں نظر آ گیا تھاکہ ہماری کالونی کی سیکیورٹی کا نمایندہ وہاں پہنچ چکا تھا، جب تک میں اس سے بات چیت کر رہی تھی، اسے یہی امید تھی کہ میں اس سے چار رومال لے لوں گی۔ سیکیورٹی کے نمایندے نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی بائیک کھڑی کی اور اس سے اس کا پاس مانگا۔

اس نے پاس نکال کر دکھایا اور اس پر معمول کی کارروائی شروع ہوئی، اس کا پاس ضبط کر لیا گیا، تھوڑی دیر میں ہی وہاں گاڑی بھی پہنچ گئی ، اسے اس گاڑی میں ڈال کر گیٹ سے باہر بھجوانے کی کارروائی ہوئی اور اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ اسی علاقے میں گھومنے لگا تا کہ اس کی باقی ساتھیوں کو تلاش کر سکے۔

آپ کو پڑھ کر لگا ہو گا کہ میں نے اس خاتون پر خواہ مخواہ ظلم کیا مگر اس کا کوئی مقصد ہے۔ اصل میں کچھ عرصے سے ایسی کئی کارروائیاں سننے کو مل رہی تھیں اور اکثر گھروں کے سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی ایسے گروہوں یا انفرادی کام کرنے والیوں کی وڈیو ریکارڈ ہوئیں جو کہ گھروں پر آ کر لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے سے لوٹ کر چلے جاتے ہیں مگر ان کیمروں میں ریکارڈ ہونے کے باوجود بھی انھیں پکڑا نہیں جا سکتا کیونکہ اس سب کے حلیے ایسے ہی ہوتے ہیں، برقع پوش خواتین اور سروں پر صافے اوڑھے ہوئے مرد۔

ان کا طریقہء واردات یہی ہے کہ وہ قریبی دیہات میں آباد ہیں، پہلے وہ ان سوسائٹیوں میں ملازمت کی غرض سے آتے ہیں، کسی نہ کسی گھر میں سستے داموں کام پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور گھروں اور مکینوں کی ’’چھان بین ‘‘ کا عمل کرتے رہتے ہیں، گھروں کی اندرونی صورت حال جاننے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں، اپنا اعتماد قائم کرتے اور سوسائٹیوں کے سیکیورٹی پاس بنوا لیتے ہیں اور اس کے بعد چھٹی پر جائیں تو لوٹتے نہیں یا پھر کچھ ایسا غلط کرتے ہیں کہ انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اب اس گھر کے مکینوں کو چاہیے کہ اگر اسے خود فارغ کریں یا اسے چھٹی پر بھجوائیں تو اس سے اس کا پاس واپس لے لیں اور اگر وہ چھٹی پر جا کر واپس نہ آئے تو اپنے علاقے کی سیکیورٹی کو اس کی تفصیلات اور اس کے پاس کا نمبر وغیرہ بتایا جائے تا کہ وہ جب بھی وہاں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس کا پاس چیک ہونے پر کینسل کیا جا سکے۔

پہلی غلطی تو ہم لوگ خود ہی کرتے ہیں کہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ان لوگوں کے گینگ اتنے مضبوط بن گئے ہیں کہ یہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں، انھیں اندر کی معلومات ہوتی ہیں اور یہ ایسا نشانے پر تیر لگاتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے نئے ملازم اس کا شکار ہو جاتے اور انھیں گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

اس گھر کے مالک کا نام لیں گے یا ان کی بیگم کا تو اس کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ کبھی ان کے کسی رشتہ دار کا نام لیں گے کہ انھوں نے بھیجا ہے وغیرہ۔ انھیں یوں سہولت سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر کوئی راہ چلتا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کوئی وارداتیے ہیں۔

کبھی وہ کوئی مظلوم بن جاتے ہیں کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے اور انھیں مدد کی ضرورت ہے، کبھی وہ تاک میں ہوتے ہیں کہ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے معمولات کے مطابق نکل جائیں تو اس کے بعد وہ اس گھر میں داخل ہوں اور صفایا کر کے نکل جائیں ۔ کبھی وہ گھنٹی بجاتے اور گھروں کے ملازمین یا دیگر افراد کو ٹرانس میں لے آتے ہیں اورانھیں بے بس کر کے ان کے سارے مال اسباب اور نقد رقوم کا صفایا کر دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کا پاس اس کے بعد اس کے پاس جاتے ہیں ہیں اور اور اس ہیں کہ سے کچھ

پڑھیں:

رائے عامہ

جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔

وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔

مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔

ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔

دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔

’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔

مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔

رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔

تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔

یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل انعام میمن
  • ہاؤسنگ سیکٹر میں انقلاب! محمد اورنگزیب نے کم قیمت گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی
  • اسرائیلی پاور پلانٹ سے زہریلی گیس کا اخراج، شہری گھروں محصور ہونے پر مجبور
  • سستے گھروں کی تعمیر کے لیے  سکیم کی منظوری   
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • بھارتی فوج کے کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے
  • رائے عامہ
  • ای سی سی نے گرین ٹیکسانومی، سستے گھروں کی اسکیم اور صنعتی اصلاحات کی منظوری دے دی
  • اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس آج ہوگا، سستے گھروں کی اسکیم سمیت اہم فیصلے متوقع
  • کراچی میں غیر ملکی شہریوں کے گھروں میں ڈکیتیاں، اہم انکشافات