ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے، جس کیطرف سفر ہو رہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کر رہا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جنگ افغانستان کیلئے مفید ہے نہ پاکستان کیلئے، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیئے، جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیئے۔ نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے ریاست کی غلطیوں کا بڑا عمل دخل ہے، افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے، ایران نے افغان مہاجرین کو تو جگہ دی، لیکن جنگ کے لیے بیس کیمپ نہیں بنایا، ہم نے پاکستان میں جنگ کے لیے بیس کیمپ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب لفظ جہاد استعمال ہوگا تو مذہبی لوگ ہی اس طرف جائیں گے، ریاست لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکی کہ روس افغانستان آیا تو جہاد اور امریکا آیا تو جہاد نہیں۔ تضاد تب آیا جب پرویز مشرف نے امریکا کو سپورٹ کیا۔

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں افغان علماء نے فتویٰ جاری کیا کہ جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا، افغان علماء کا فتویٰ ہے کہ اب کوئی جنگ کرے گا تو وہ جنگ ہوگی، جہاد نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 25 ہزار علماء پشاور اور 10 ہزار علماء بلوچستان میں جمع ہوئے، 35 ہزار علماء نے قرارداد پاس کی کہ ہم آئین پاکستان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر نے لاہور میں اے پی سی کی اور اتفاق کیا کہ اکابرین کے متفقات کو دوبارہ زیر بحث نہیں لایا جائے گا، اتفاق کیا گیا کہ نظام کے اصلاح کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وفاق المدارس عربیہ نے ڈیڑھ سو علماء کو بلایا، جنہوں نے ملک میں اسلحہ اٹھا کر لڑنے کو غیر شرعی قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت مسلکی تنازعات اور جنگیں نہیں ہیں، ہمارے علماء کرام شہید ہوئے، ان کو بھی شہید کہتا رہوں اور قاتلوں کو بھی تو ایسا نہیں ہوسکتا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں، داعش ہو یا کوئی اور تنظیم ان کے ساتھ اتفاق ہوتا تو کیا میں پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا۔؟ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے دعوت دی تو حکومت اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لیا۔ افغانستان میں ایک ہفتہ گزار اور تمام معاملات پر بات کی اور نتائج حاصل کیے، ان نتائج کو یہاں آکر رپورٹ کیا اس رپورٹ کو تسلیم کیا گیا اور خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مجھے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کو تسلیم کرنے والی جماعتوں سے اختلاف ہوا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں صلاحیت کیوں نہیں، جو کامیابیاں حاصل کیں، ان کو فالو کرسکیں۔؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکیوں کو اڈے دیئے اور دوسری طرف افغانستان سے آنے والوں کو یہاں کور دے رہے تھے، ہمارے تیس چالیس ہزار لوگ وہاں گئے اور ان کے ہمراہ بیس سال تک لڑے۔ اب کیا ان سے بندوقیں لے کر آپ کے حوالے کر دیں؟ ظاہر ہے کہ ان کیلئے بھی مشکلات ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کچھ چیزوں پر اتفاق رائے حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا موقف ایک ہی ہے، افغانستان نے کہا کہ آپ عجلت اور ہم مہلت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان چیزوں کے لیے وقت چاہیئے۔ اتفاق رائے ہوا تھا، مجھے علم نہیں کہ ہم نے آج معاملہ کیوں بگاڑ دیا۔؟ انکا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی جنگ کو نہ روئیں تو اچھا ہے، گوادر سے لیکر چترال باجوڑ تک مسئلہ ہے، افغانستان سے متعلق امید رکھتا ہوں کہ اس پر مزید سوچنے کی گنجائش ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جنگ نہ افغانستان اور نہ پاکستان کے لیے مفید سمجھتا ہوں، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیئے، جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیئے۔ حکمرانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ تھوڑا سا ان معاملات پر سوچیں تمام جماعتوں کو بلالیں۔

ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم مسلم لیگ نون کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں، سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو سینیئر تسلیم کیا جاتا ہے، توقع رکھی جاتی ہے کہ بڑے ہونے کے ناطے وہ ایسا کردار ادا کریں کہ مسائل حل ہوں۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کا ہمیشہ احترام کیا ہے، وہ بالکل ہی سین سے غائب ہوگئے ہیں، سین میں بظاہر نواز شریف کا کوئی بڑا کردار سامنے نظر نہیں آرہا ہے۔ معاملات بگڑے ہوئے ہیں، الیکشن خراب ہوگئے، حکومت پر اعتماد نہیں۔ جمہوریت شکست کھائے گی تو انتہاء پسندی اور شدت پسندی کامیاب ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے، جس کی طرف سفر ہو رہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کر رہا ہوں۔

انکا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہ محدود وقت کے لیے دوستی کروں اور آگے جا کر کہوں کہ مطلب پورا ہوگیا، اب ضرورت نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا کردار سیاست میں کیا ہوگا، یہ انہوں نے خود طے کرنا ہے۔ سیاست میں گنجائش رکھنی چاہیئے کہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ عید کے بعد جے یو آئی نے جنرل کونسل کا اجلاس بلایا ہے، جنرل کونسل اجلاس میں مستقبل کی پالیسیاں طے ہوں گی۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی لوگ آپس میں ویسے ہی لڑتے ہیں، جن کو اقتدار ملتا ہے، ان کو بھی مینیج کیا جاتا ہے، وفاق کے ساتھ صوبوں میں بھی الیکشن کو مینیج کیا گیا ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی مینڈیٹ عوامی نہیں، یہ بھی بنایا گیا مینڈیٹ ہے۔ ہم دونوں اب اپوزیشن میں ہیں، پی ٹی آئی کا بھی الیکشن کا عدم اعتماد ہے، جب ہم الیکشن پر اعتراض کر رہے تھے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ہمارے ساتھ اتحاد میں بھی تھی، اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ ہم جنگ کے لیے پی ٹی ا ئی جے یو آئی ان کیلئے رہے ہیں کیا گیا کی طرف رہا ہے بات کر یہ بھی

پڑھیں:

چین اور یورپی یونین کو ایک مستحکم دنیا کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے ، سی ایم جی کا تبصرہ

بیجنگ :اس سال چین اور یورپی یونین کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی پچاسویں سالگرہ ہے، اور عنقریب چین-یورپی یونین سربراہ اجلاس کا انعقاد ہو گا ۔حال ہی میں بیلجیم کے شہر برسلز میں چین یورپی یونین ہائی لیول اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا تیرہواں دور منعقد ہوا۔ سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور وزیر خارجہ وانگ ای نے یورپی یونین کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کی اور جرمنی اور فرانس کا دورہ کیا۔ چینی فریق نے زور دے کر کہا کہ چین اور یورپی یونین کے تعلقات کی ترقی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات ایک مخالف کے بجائے شراکت دار کے ہیں ۔ چین اور یورپی یونین کو دنیا کو یقین فراہم کرنے کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے ۔ یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور دیگر نے کہا کہ یورپی فریق ایک دوسرے کا احترام کرنے اور چین کے ساتھ تفہیم کو بڑھانے، نئے سربراہی اجلاس کے لئے بہتر تیاری کرنے، یورپی یونین اور چین کے درمیان مزید تعمیری تعلقات کو فروغ دینے اور دنیا میں استحکام، اعتماد اور مثبت توقعات پیدا کرنے کا خواہاں ہے۔گزشتہ نصف صدی کے دوران ، چین اور یورپی یونین کے تعلقات میں عمومی طور پر مستحکم ترقی دیکھی گئی ہے ۔ جامع اسٹریٹجک شراکت داروں کی حیثیت سے فریقین نے حکمت عملی، معیشت اور تجارت، ڈیجیٹلائزیشن ، ماحولیات و آب و ہوا اور افرادی تبادلے اور ثقافت سمیت پانچ پہلوؤں پر اعلیٰ سطحی مکالمے اور 70 سے زائد بات چیت کے میکانزم قائم کیے ہیں۔

 

اقتصادی اور تجارتی شعبے میں فریقین کے درمیان سالانہ تجارتی حجم سفارتی تعلقات کے قیام کے آغاز کے حجم 2.4 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں 785.8 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔ باہمی سرمایہ کاری تقریباً صفر سے بڑھ کر 260 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور 1 لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں چین-یورپ مال بردا ر ٹرین کے ٹرپس ہو چکے ہیں ۔ یہ سب چین اور یورپی یونین کے درمیان باہمی فائدے اور جیت جیت پر مبنی تعاون کی ٹھوس عکاسی کرتے ہیں۔لیکن حالیہ برسوں میں، اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے، یورپی یونین کے کچھ رہنماؤں نے چین کو ” حریف ” کے طور پر سمجھا ہے، “چین کے خطرے کے نظریہ” کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، تائیوان، ہانگ کانگ اور دیگر اندرونی چینی امور میں مداخلت کی گئی ہے اور انسانی حقوق اور سلامتی کے معاملات پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے . یہ عمل جاری رہا تو چین اور یورپی یونین کے درمیان باہمی اعتماد کی بنیاد کو نقصان پہنچے گا۔ اپنے دورہ یورپ کے دوران چینی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ “یورپ کو اس وقت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے،لیکن یہ چیلنجز ماضی، حال اور مستقبل میں چین کی طرف سے نہیں ملے . امید ہے کہ یورپی فریق واقعی چین کے بارے میں ایک معروضی اور منطقی تفہیم قائم کرے گا اور چین کے ساتھ زیادہ فعال اور عملی پالیسی پر عمل کرے گا۔ صرف اسی طرح چین اور یورپی یونین کے تعاون کی مجموعی صورتحال میں سیاسی مداخلت اور مزاحمت کو ختم کیا جا سکے گا ۔ ایک صحت مند اور مستحکم چین یورپی یونین تعلقات نہ صرف ایک دوسرے کے لئے بہتر ہیں بلکہ دنیا کے لئے بھی یہ روشنی کا ضامن ہیں ۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • آئی ایس او کراچی کے تحت 9 محرم کے مرکزی جلوس میں مولانا صادق جعفری کی زیر اقتداء نماز باجماعت کا اہتمام
  • چین اور یورپی یونین کو ایک مستحکم دنیا کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے ، سی ایم جی کا تبصرہ
  • علی امین گنڈاپور کا سوات سانحہ کی متاثرہ ڈسکہ فیملی کیلئے بڑا اعلان
  • فضل الرحمن سے مولانا اجمل قادری کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر گفتگو 
  • ایران کی زبردست فتح
  • بھارت جنوبی ایشیاء میں نیا نارمل قائم کرنا چاہتا ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • محکمے روڈ میپ پر عملدرآمد کیلئے عملی اقدامات کریں، منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر نہ کی جائے: علی امین گنڈاپور
  • جے یوآئی پختونخوا میں عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنے گی، فضل الرحمن کا عمران خان کیلئے پیغام
  • پاکستان کی کرپٹو سفارتکاری اور امریکی صدر کیلئے نوبل انعام کی حمایت ٹیرف سے بچنے کی حکمت عملی کا حصہ  ، فنانشل ٹائمز کا دعویٰ
  • محرم الحرام کے جلوسوں کیلئے سٹی ٹریفک پولیس لاہور کا جامع ٹریفک پلان جاری