”مجھے میرے چاچو کے واٹس اپ نمبر سے پیغام ملا کہ انہیں فوری کچھ رقم درکار ہے، تحریری پیغام کے فوری بعد ان کا وائس نوٹ بھی ان کی ہی آواز میں آیا، جس میں انہوں نے ایک دوسرے نمبر پر فوری پیسے بھیجنے کا کہا، میں نے ان کی ہدایت کے مطابق مطلوبہ رقم اکاوٹ میں بھیج دی، مگر کچھ ہی وقت بعد پتہ چلا کہ نہ تو وہ میسیج ان کا تھا اور نہ ہی وائس نوٹ انہوں نے بھیجا، بلکہ یہ ایک فراڈ تھا جو ”سائبر ٹولز’ ‘کے ذریعے نمبر ہیک کر کے کیا گیا”

یہ کہانی ہے اسلام آباد کے جی سیون سیکٹر کے رہائشی زین احمد کی، جو ہارڈ ویئرکے کاروبار سے منسلک ہیں، ایک ہی وقت میں نہ صرف انہیں بلکہ ان کے خاندان کے دیگر 3 افراد کو بھی اسی طریقے کے ذریعے اے آئی کی مدد سے کیے گئے فراڈ کا نشانہ بنایا گیا۔

نمبر ہیک کرنے کے بعد آرٹیفیشل اینٹیلی جنس کی مدد سے متعلقہ شخص کی ہی آواز کو استعمال کر کے رقم منگوانے کا یہ فراڈ دیگر کئی افراد کے ساتھ بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔

زین احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ جب اُنہیں اِن کے چاچو کی طرف سے پیسے بھیجوانے کا پیغام موصول ہوا تو وہ حیران رہ گئے، کیوں کہ وہ عموما اِن سے رقم نہیں منگواتے، مگر واٹس ایپ نمبر اِن کے چاچو کا تھا، جس کی ڈی پی پر اُن کی تصویر لگی ہوئی تھی اور وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی اِیسے بھی فراڈ کر سکتا ہے۔

زین کے مطابق جیسے ہی انہیں ٹیکسٹ پیغام ملا تھوڑی دیر بعد چاچو کی آواز میں رقم بھیجوانے کیلئے وائس نوٹ بھی موصول ہو گیا جس پر انہوں نے عمل کیا۔

تقریبا 10 منٹ بعد اِن کے بھائی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور ان کے خاندان کے ایک اور فرد سے بھی فراڈ کے ذریعے رقم منگوا لی گئی۔

انہوں نے بعد ازاں جب تصدیق کی تو پتہ چلا کہ کوئی ایسا اے آئی ٹول دستیاب ہے جس کو استعمال کر کے فراڈ کا یہ نیا راستہ کھل گیا ہے۔

نمبر ہیک کر کے اے آئی کے ذریعے متعلقہ شخص کی آواز کاپی کی جاتی ہے اور یوں متاثرہ شخص کسی تصدیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔

حالیہ عرصے میں جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس نئے اے آئی ٹول نے انسانوں کیلئے خد مات اور علم کا ایک نیا جہاں کھول دیا ہے، وہیں اس سے فراڈ، سائبر کرائم اور ڈیپ فیک ویڈیو کا ایک نیا سیلاب آیا ہے۔ بالخصوص پاکستان جیسی سوسائٹی جہاں قوانین پر نفاذ کے حالات پہلے ہی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔

سائبر کی دنیا میں کرائم کے نت نئے ٹولز اور بالخصوص اے آئی کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اس طوفان سے کیسے نمٹا جائے۔ فیڈرل انیویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ سے منسلک آفیسر نے وی نیوز کو بتایا کہ جیسے جیسے کرائم کی دنیا میں جدت آ رہی ہے ایسے ہی متعلقہ حکومتی ایجنسی کی استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی کے حوالے سے مخصوص کورسز اس کا حصہ ہیں، ہماری کوشش ہے کہ انویسٹی گیشن آفیسر کرمنل کے ذہن سے ایک قدم آگے سوچے، انہوں نے تسلیم کیا کہ حالیہ عرصے میں لوگوں سے پیسے بٹورنے کے اس گھناونے کاروبار میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔

عام شہری اس نادیدہ فراڈ سے کیسے بچے؟

ایف آئی اے آفیسر کے مطابق اس طرح کے سائبر حملے جن میں تصدیقی عمل مشکل ہوتا ہے۔ اِس سے بچنے کیلئے شہریوں کو انتہائی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ مالی فراڈ سے بچنے کے لیے پیغامات کو واٹس ایپ گروپس یا  فیس بک کے ذریعے خاندان اور دوستوں تک پہنچایا جائے۔ اگر کوئی ایسا شخص آپ سے رقم کا مطالبہ کرے جس کے ساتھ بالعموم لین دین نہیں ہوتا تو یہ ایک مشکوک معاملہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے یقینی بنائیں کہ وہ رقم کی منتقلی کی تصدیق کے لیے فزیکل کال کریں اس صورت میں سائبر کرائم کا خدشہ انتہائی کم رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کال کرے اور نمبر سے موصول ہونے والے کوڈ (OTP) کو شیئر کرنے کے لیے کہے تو اسے کبھی شیئر نہ کیا جائے۔ وٹس ایپ کی بحالی کے لیے سم پر او ٹی پی طلب کیا جائے تو اس صورت میں واٹس ایپ  12-14 گھنٹے کے اندر بحال کر دیا جاتا ہے۔

آرٹیفیشل اینٹیلی جنس کا جہاں سروسز، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر، ریسرچ، صحت سمیت ہرشعبے میں بے پناہ استعمال ہے تو دوسری جانب اس کے ذریعے فراڈ ”ڈس انفارمیشن” اور جعل سازی کا بھی ایک طوفان آ گیا ہے۔

فراڈ کی اس جدید شکل سے کیسے بچا جائے اور اے آئی کو کیسے جعل سازی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے؟

اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹوٹ فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈاکٹر یاسر ایاز نے وی نیو ز کو بتایا کہ اے آئی کسی بھی آواز کو کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایسے فراڈ میں ملوث افراڈ سائبر کرائم کے ذریعے نمبر ہیک کرتے ہیں پھر اے آئی کو استعمال کر کے ڈیٹا پر موجود متعلقہ شخص کا آڈیو یا ویڈیو مواد استعمال کرتے ہیں، یہ ڈیپ فیک کی ایک شکل ہے۔

انہون نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور اے آئی جس ایڈوانس لیول پر پہنچ گئے ہیں، جعلسازی بھی اسی طریقے سے نئی شکلیں اختیار کرتی ہے۔ بہت سارے سافٹ ویئر آن لائن دستیاب ہیں جن میں بعض تو مفت میں مل جاتے ہیں جو ایسے فراڈ اور جعل سازی میں معاون ہیں۔

ڈاکٹر یاسر ایاز کے مطابق آن لائن کئی ایسے سافٹ ویئر بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے آسانی سے جعلی مواد کو پکڑا جا سکتا ہے۔ اے آئی کے ذریعے ”جرنیٹ” کیا گیا ڈیٹا ایسے سافٹ ویئر الگ کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر یاسر ایاز کے مطابق نیشنل سینٹر فار آٹیفیشل انٹیلی جنس کے تحت بھی ایسے سافٹ ویئر تیار کیے گئے ہیں، جو اے آئی کے ذریعے تیار کی گئی آڈیو یا ویڈیو میں تفریق کر سکتے ہیں، ایف آئی اے سمیت دیگرادارے جو ایسی شکایات کے ازالے یا کرائم کی روک تھام کیلئے موجود ہیں، ان کی صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ افسران کی ٹریننگ، جدید ٹولز اور سافٹ ویئرز سے آگاہی ناگزیر ہے، اس حوالے سے تمام تر سہولیات مقامی اور عالمی سطح پر دستیاب ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اویس لطیف

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: استعمال کر کے نمبر ہیک کر سافٹ ویئر اے آئی کے واٹس ایپ کے مطابق انہوں نے کے ذریعے سے کیسے کے ساتھ کے لیے سے بھی

پڑھیں:

کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی

لاہورہائیکورٹ میں کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کے لیے درخواست پر سماعت  ہوئی، جس میں عدالت نے پی ٹی اے سمیت دیگر  کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے شہری اعظم بٹ کی درخواست پر سماعت کی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بچے فیس بک اور ٹک ٹاک پر نامناسب مواد دیکھتے ہیں، جس سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر سسٹم موجود ہے کہ بچوں کی رسائی کو محدود کر سکتے ہیں۔  والدین بچوں کے سوشل میڈیا تک رسائی کو چیک کر سکتے ہیں ۔  انہوں نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ  بیرون ملک بھی والدین ایسی ہی رسائی  رکھتے ہیں ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  آپ اس پر کیا کہیں گے؟، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے پٹیشن میں فریق ہی  غلط بنایا ہے۔ حکومت پاکستان کو فریق بنانا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ  اگر انہوں نے پی ٹی  اے کو درخواست دی ہے تو ان سے پتا کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔  کمیشن کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کر سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • سوشل میڈیا اسٹار عمر شاہ کے آخری لمحات کیسے تھے؟ چچا کا ویڈیو بیان وائرل
  • ماتلی میں آئس کے بڑھتے نشے کیخلاف آگاہی سیمینار
  • ایکس اکاؤنٹ کی ہینڈلنگ کا معاملہ، عمران خان نے تفتیشی ٹیم سے تحریری سوالنامہ مانگ لیا
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • عمرہ زائرین کو جعل سازی سے بچانے کے لیے 113 مصدقہ عمرہ کمپنیوں کی فہرست جاری
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • بانی کے مطابق آپریشن حل نہیں ،مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے،علی امین گنڈاپور
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی
  • پاکستانی تارکین وطن کے بچوں کے لیے مفت پیشہ ورانہ تربیتی کورسز، رجسٹریشن کیسے کروائی جائے؟