کراچی:

ڈیموں میں پانی کی غیرمعمولی کمی اور کپاس کے تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی کے باعث بیشتر کاٹن زونز میں کپاس کی کاشت ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گئی ہے، کپاس کی نئی فصل میں متوقع تاخیر کے باعث کپاس کی نئی فصل کی تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والے سودے بھی ٹھہراؤ کا شکار ہوگئے ہیں۔

کاشتکار تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے نئی زمینوں کی آبادکاری کے بجائے موجودہ آباد زمینوں کو پانی کی فراہمی ترجیح دی جائے تاکہ ملکی زرعی معیشت مستحکم رہ سکے.

 

مزید پڑھیں: قومی شاہراہ پر گاڑیوں میں آتشزدگی؛ کروڑوں مالیت کی کپاس، چینی اور تیل  خاکستر

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پاکستان کے دو بڑے ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ’’ڈیڈ لیول‘‘ تک پہنچنے کے باعث سندھ کے کئی اضلاع میں نہری پانی کی کمی یا عدم دستیابی کے باعث کپاس کی کاشت متاثر ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، جن میں سانگھڑ، میر پور خاص، عمر کوٹ، ٹنڈو اللہ یار، مٹیاری، حیدر آباد اور بدین شامل ہیں.

جس کے باعث خدشہ ہے کہ اس سے کپاس کی نئی فصل کی آمد میں قدرے تاخیر واقع ہو سکتی ہے، 20 یوم قبل سندھ میں کپاس کی نئی فصل کے ایڈوانس سودوں کا بڑی تیزی سے آغاز ہوا تھا اور 10مئی سے 10 جون ڈلیوری کی بنیاد پر 8400 روپے سے 9 ہزار روپے فی 40 کلو گرام کپاس کی تقریباً 40 گاڑیوں کے ایڈوانس سودے سامنے آئے تھے.

مزید پڑھیں: کپاس کی نئی فصل کے ایڈوانس سودوں کا تیز رفتاری سے آغاز

جن میں سے زیادہ تر ڈگری ضلع میرپور خاص میں طے پائے تھے، تاہم خدشہ ہے کہ شائد اب یہ سودے اپنی مقررہ تاریخوں میں ڈلیور نہ ہوپائیں جبکہ ان سودوں کے بعد کپاس کی آمد میں متوقع تاخیر کے باعث سندھ میں کپاس کی نئی فصل کے سودے اب تک تعطل کا شکار ہیں۔

ای ایف ایس کے تحت بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیلز ٹیکس فری روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد کے باعث ملکی ٹیکسٹائل (اسپینگ) اور کاٹن جننگ سیکٹر تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہوچکا ہے اور خدشہ ہے کاٹن ایئر 2025-26 کے دوران مزید اسپننگ ملز اور کاٹن جننگ فیکٹریاں غیر فعال ہوجائیں گی ۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کپاس کی نئی فصل پانی کی کے باعث

پڑھیں:

پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کا وہ خوبصورت قطعہ جس کا نام ہی پانی پر رکھا گیا وہ آج اپنے اسی حسن پانی کی نظر پانی پانی ہو گیا۔ ’’پنج آب‘‘ یعنی پانچ دریاؤں کی آبادی، جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں وہیں اللہ ربّ العزت نے ہمارے اس خطہ ٔ ارض کو پانچ دریاؤں سے نوازا، جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی۔ اور انہی دریاؤں کی بدولت سر زمین پنجاب سونا اُگلنے والی زمین کے نام سے مشہور ہوئی۔ انہی دریاؤں کی بدولت اس خطے نے دنیا بھر کو بہترین چاول، گندم، گنا، مکئی، باجرہ، سرسوں جیسے اجناس دیے۔ دنیا کی بہترین کاٹن یعنی کپاس جیسی فصل دی۔ آم، کینو، امرود جیسے لذت سے بھرپور پھل دیے۔ آج یہی پانی اس قطعہ زمین پر تباہی کر رہا ہے۔ آج یہ پانی اپنی اس دھرتی سے ناراض کیوں ہے؟ اتنا بپھرا ہوا کیوں ہے؟ اپنی سونی دھرتی کو یہ پانی خود ہی برباد کرنے پر کیوں مجبور ہوا؟ جب اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ہم نے اپنی نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھایا، اپنی نسلی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا، جب ان کی قدرتی گزرگاہوں پر جائز و ناجائز قبضے شروع کر دیے، جب قدرت کی اس عظیم نعمت کی قدرتی تقسیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تو یہ پانی ناراض ہو گئے اور تباہی و بربادی کرنے لگے۔ آج بھی اگر ان کی اہمیت کو قبول کر لیا جائے تو یہ اک بار پھر سونا اُگلنے لگیں گے۔

پنجاب کا حسن، پنجاب کی شان، پنجاب کی آن پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کا آپ سے تعارف کرواتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصہ سے ہر پاکستانی اپنے نام نہاد حکمرانوں کے کرتوتوں سے یہ سوچنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ جو مطالعہ پاکستان ہمیں نصابی کتب میں پڑھایا جاتا ہے وہ بظاہر کچھ اور ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پنجاب کے ان دریاؤں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے نصاب میں پنجاب کا پانچواں دریا دریائے سندھ کو پڑھایا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ: پنجاب کو جس وجہ سے پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے ان پانچ دریاؤں میں چناب، ستلج، جہلم اور روای کے ساتھ ’’دریا سندھ‘‘ شامل نہیں ہے۔ بلکہ پانچواں دریا ’’دریائے بیاس‘‘ ہے۔ یہ پانچ دریا (چناب، جہلم، ستلج، بیاس، راوی) پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ پنجاب کے اندر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے دریائے راوی ’’احمد پور سیال‘‘ کے قریب دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دریائے جہلم بھی ’’تریمو‘‘ (جھنگ) کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔

دریائے چناب اور دریائے جہلم پنجاب کے وہ دو دریا ہیں جو ہندوستانی پنجاب میں داخل نہیں ہوتے۔ جبکہ دریائے راوی اور دریائے ستلج ہندوستانی پنجاب سے پاکستانی پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ دریائے بیاس پاکستان میں انفرادی طور پر داخل نہیں ہوتا۔ ہندوستانی پنجاب میں ہی دریائے بیاس، دریائے ستلج میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ دریائے ستلج پاکستان میں آتا ہے۔ ستلج اور بیاس کے ملنے کے مقام پر انڈیا نے 1984 میں ایک بڑی سی نہر نکال کر راجستھان کو سیراب کیا تھا (اندرا گاندھی کینال) تو اب ہمارے پاس دو دریا بچتے ہیں، یعنی دریائے چناب (جس میں راوی اور جہلم کا پانی شامل ہے) اور دریائے ستلج (جس میں دریائے بیاس کا پانی شامل ہے)۔ یہ دونوں دریا ’’پنجند‘‘ کے مقام پر ملتے ہیں، جو ’’اوچ شریف‘‘ کے پاس ہے۔ یہاں پر یہ دونوں دریا (اور پانچ دریاؤں کا پانی) مل کر دریائے ’’پنجند‘‘ بناتے ہیں۔ یہ دریا بھی 71 کلومیٹر آگے جاکر پنجاب کے ہی شہر ’’مٹھن کوٹ‘‘ کے پاس دریائے سندھ میں اپنا پانی (یعنی پنجاب کے پانچ دریاؤں کا پانی) شامل کردیتا ہے۔

باقی ان پانچوں دریاؤں میں سے ستلج اور روای سال ہا سال زیادہ تر خشک ہی رہتے ہیں زیادہ عرصے خشک رہنے میں پاک بھارت کی ازلی دشمنی کا ہاتھ ہے، مگر اس بار ان دریاؤں نے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا دریائے چناب کے ساتھ مل کر خوب بدلہ لیا ہے۔ اس وقت دریائے چناب، راوی اور ستلج کے آس پاس کا ستر فی صد سے زائد علاقہ صدی کے بد ترین سیلاب کی نظر ہے۔ اللہ ربّ العزت سیلاب سے متاثرہ ان پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، اور ہم میں سے ہر اک کو ان آفات سے محفوظ رکھے پنجاب کے دریاؤں کا یہ بپھرا ہوا پانی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ سبق آموز نصیحت بھی کر گیا کہ نا حق قبضہ پوری قوت اور حق پر ہوتے ہوئے واپس لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
  • کیا راول ڈیم کا پانی فلٹریشن کے بعد بھی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے؟
  • سیلاب اور بارشوں سے کپاس کی فصل شدید متاثر
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • سیلاب
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • عمرہ زائرین کو جعل سازی سے بچانے کے لیے 113 مصدقہ عمرہ کمپنیوں کی فہرست جاری
  • عمرہ زائرین ہوشیار! مصدقہ کمپنیوں کی فہرست جاری کردی گئی