Express News:
2025-06-09@05:39:51 GMT

نکاح؛ رضامندی کا یکساں حق

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

اسلام دین عدل ہے، جو کسی طرح کی ناانصافی کو گوارا نہیں کرتا۔ معاشرے کی بقا کےلیے اسلامی تعلیمات میں ’نکاح‘ کو جزو لازم قرار دیا گیا ہے۔

فرمان رسولؐ ہے ’’نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔

نکاح ایک نہایت سنجیدہ اور حساس کنٹریکٹ ہے جس پر نہ صرف دو افراد کی زندگیاں جڑی ہیں بلکہ آنے والی نسل بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ لہٰذا اس کےلیے شریعت میں بہت سی شرائط اور حدود و قیود کو لازم قرار دیا گیا ہے ،جن میں سے سب سے بڑی شرط ’’ولی‘‘ اور ’’مرد و عورت‘‘ کی باہمی رضامندی شامل ہے۔

شریعت میں ولی سے مراد وہ قریبی رشتہ ہوتا ہے جو خون، نسب اور ذمے داری ہر لحاظ سے اولاد کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، چنانچہ سب سے پہلے والدین، ان کی عدم موجودگی میں باپ کی طرف کے رشتے دار، دادا، چچا اور دیگر، پھر ماں کی طرف کے رشتے دار جیسا نانا، ماموں اور دیگر۔ ولی کی اجازت نکاح کےلیے سرفہرست ہے ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘ اس حدیث کو متواتر احادیث کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔ نکاح میں والدین کی رضامندی اسلام کے خاندانی نظام کی ایک بنیادی کڑی ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح باطل، باطل، باطل (یعنی کالعدم ) ہے۔‘‘ اس حدیث کو سنن ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی اوردیگر 100 کتبِ حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔

لیکن یہ نکاح کے منعقد ہونے کا ایک پہلو ہے۔ اسلام میں جہاں نکاح میں والدین کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور لڑکے کی رضامندی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ ولی کی۔ اور زبردستی کیا جانے والا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کا مکمل احترام کیا گیا ہے۔

لہٰذا شریعت میں جہاں مردوں کو پسند کی عورتوں سے شادی کرنے کا حکم ہے اسی طرح لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے‘‘ (صحیح بخاری)

سماج میں عموماً مرد اپنی پسند کا اظہار بھی کردیتے ہیں اور نکاح میں ان کی مرضی کا ایک حد تک لحاظ بھی رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکی کے معاملے میں ہمارا معاشرہ اس کی مرضی کے خلاف نکاح کو اس پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں شریعت کے اس بارے میں کیا احکام ہیں۔

رسول اللهؐ کی بارگاہ میں جب بھی کسی لڑکی کی مرضی کے خلاف کیے گئے نکاح کا کیس آیا تو آپؐ نے اس نکاح کو منسوخ فرما دیا اور لڑکی کو اختیار دے دیا کہ وہ اس نکاح کو رکھ لے یا ردّ کردے۔ یعنی کبھی بھی لڑکی کی مرضی کے خلاف نکاح کو لڑکی پر مسلّط نہیں کیا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ جبری شادی کی حوصلہ شکنی کا درس ملتا ہے۔

رسول اللہؐ نے خود حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح منسوخ قرار دیا جو کہ حضرت خنساء کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف کیا تھا (صحیح بخاری)

اس طرح آپؐ نے لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ کا کیا ہوا نکاح منسوخ فرما کر لڑکی کی پسند ضروری قرار دے دی۔ اور یہ حدیث نبویؐ جبری شادی کے عدم جواز پر ٹھوس دلیل ہے۔

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن میرے والد نے اس رشتے کو رد کردیا اور میری شادی ایسی جگہ کرادی جو مجھے پسند نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والد کو بلایا اور اس سے اس بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کا نکاح کرایا ہے اور اس کےلیے خیر کا ارادہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تیرا نکاح نہیں ہوا، جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرلو۔ (ابن ابی شیبہ)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب لڑکی کی رضامندی کے خلاف نکاح کیا جائے تو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ فرماتی ہیں: ایک لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کرلے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔ (احمد بن حنبل)

شریعت میں کنواری، مطلقہ اور بیوہ تمام عورتوں کا نکاح اُن کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں, جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کردیے تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَدّ فرما دیا۔

لہٰذا نکاح میں ’ولی‘ اور ’اولاد‘ دونوں کی رضامندی یکساں لازم ہے۔ جہاں پر ولی کی اجازت کے بنا نکاح منعقد نہیں ہوتا اور اولاد اپنی ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابند ہے، اس طرح ولی بھی اولاد کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضامندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔

یہ ہے وہ دین اسلام جو اپنے ماننے والوں کو مکمل عدل اور انصاف مہیا کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں اپنی پسند و ناپسند اور انا کو دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام کا یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ کسی طرح سے بھی کسی کی بھی حق تلفی ہو، چاہے وہ والدین ہوں یا اولاد۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی مرضی کے خلاف کی اجازت کے کی رضامندی کیا گیا ہے رسول اللہ نہیں ہوتا قرار دیا نکاح میں نکاح کو کے بغیر کے نکاح لڑکی کی کا نکاح نکاح ا اور اس ولی کی

پڑھیں:

قربانی ہر صاحب حیثیت پر فرض ہے، خرم نواز گنڈاپور

تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ نے کہا کہ اللہ نے اگر کسی کو مالی آسودگی عطا کی ہے تو اس کیساتھ اس کے ذمہ کچھ فرائض بھی لگائے ہیں، سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ مخلوق خدا کی داد رسی اور ان کی حاجت روائی کی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ قربانی ہر صاحب حیثیت پر فرض ہے، تاکہ اسلامی معاشرہ کے اندر برادرانہ اخوت اور معاشی نظم قائم رہے اقتصادی سرگرمیوں میں بہتری آئے اور غریب شہریوں کی خوراک کی ضرورت پوری ہو سکے، مہنگائی اور مستقبل میں غربت کے خوف سے فریضہ قربانی کی ادائیگی سے راہ فرار اختیار کرنیوالے اللہ اور اس کے رسول ؐ  کو ناراض نہ کریں، ایثار اور محبت کے جذبہ سے قربانی کا فریضہ ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے اگر کسی کو مالی آسودگی عطا کی ہے تو اس کیساتھ اس کے ذمہ کچھ فرائض بھی لگائے ہیں، سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ مخلوق خدا کی داد رسی اور ان کی حاجت روائی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی اپنی عقل، علم اور اہلیت سے زیادہ مال جمع کر سکتا ہے طاقت اور ذہانت کے اعتبار سے سب انسان برابر نہیں اور اس میں کچھ قباحت بھی نہیں مگر وہ لوگ جو کسی معذوری یا جائز وجہ کے باعث دنیاداری میں پیچھے رہ جاتے ہیں ان کی جائز ضرورت پوری کرنا صاحب حیثیت افراد پر واجب ہے اسی لیے اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے کہ ''ضرورت سے زائد مال لوٹا دو'' تاکہ اسلامی معاشرہ ارتکاز دولت کی برائی سے محفوظ رہ سکے اور کوئی غریب شخص بھوکا نہ سوئے یا فاقوں کا شکار نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ قربانی اسلام کے اقتصادی، اخلاقی اور سماجی نظام اور مواخات اور انفاق سبیل اللہ کا نہایت عمدہ مظہر ہے۔ انہوں نے کہا منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن مبارک باد کی مستحق ہے جو اندرون و بیرون ملک میں مقیم شہریوں کو فریضہ قربانی کی ادائیگی کی سہولت مہیا کر رہی ہے، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نا صرف قربانی کی سہولت مہیا کرتی ہے بلکہ قربانی کا گوشت مستحقین کے گھروں کی دہلیز تک پہنچاتی ہے، اس مقصد کیلئے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ہزاروں رضاکار عیدالضحٰی کے ایام میں ملک بھر میں دینی و انسانی خدمت انجام دیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ
  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
  • حضرت ابراہیمؑ کے ایثار و قربانی  کی روح سے سبق سیکھنے ، صدر آصف زرداری
  • قربانی کیلئے جانوروں کی تعداد زیادہ ہونا چاہیئے یا قیمتی جانور ؟ جانئے
  • ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت
  • یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ
  • خلیل الرحمٰن قمر کا متنازع ’’طاغوت اسکینڈل‘‘ سے متعلق تہلکہ خیز انکشاف
  • قربانی ہر صاحب حیثیت پر فرض ہے، خرم نواز گنڈاپور
  • شملہ معاہدہ ختم ہو چکا( وزیر دفاع)( معاہدوں کی منسوخی کا فیصلہ نہیں ہوا، دفتر خارجہ)