نکاح؛ رضامندی کا یکساں حق
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)
اسلام دین عدل ہے، جو کسی طرح کی ناانصافی کو گوارا نہیں کرتا۔ معاشرے کی بقا کےلیے اسلامی تعلیمات میں ’نکاح‘ کو جزو لازم قرار دیا گیا ہے۔
فرمان رسولؐ ہے ’’نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔
نکاح ایک نہایت سنجیدہ اور حساس کنٹریکٹ ہے جس پر نہ صرف دو افراد کی زندگیاں جڑی ہیں بلکہ آنے والی نسل بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ لہٰذا اس کےلیے شریعت میں بہت سی شرائط اور حدود و قیود کو لازم قرار دیا گیا ہے ،جن میں سے سب سے بڑی شرط ’’ولی‘‘ اور ’’مرد و عورت‘‘ کی باہمی رضامندی شامل ہے۔
شریعت میں ولی سے مراد وہ قریبی رشتہ ہوتا ہے جو خون، نسب اور ذمے داری ہر لحاظ سے اولاد کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، چنانچہ سب سے پہلے والدین، ان کی عدم موجودگی میں باپ کی طرف کے رشتے دار، دادا، چچا اور دیگر، پھر ماں کی طرف کے رشتے دار جیسا نانا، ماموں اور دیگر۔ ولی کی اجازت نکاح کےلیے سرفہرست ہے ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘ اس حدیث کو متواتر احادیث کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔ نکاح میں والدین کی رضامندی اسلام کے خاندانی نظام کی ایک بنیادی کڑی ہے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح باطل، باطل، باطل (یعنی کالعدم ) ہے۔‘‘ اس حدیث کو سنن ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی اوردیگر 100 کتبِ حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔
لیکن یہ نکاح کے منعقد ہونے کا ایک پہلو ہے۔ اسلام میں جہاں نکاح میں والدین کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور لڑکے کی رضامندی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ ولی کی۔ اور زبردستی کیا جانے والا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کا مکمل احترام کیا گیا ہے۔
لہٰذا شریعت میں جہاں مردوں کو پسند کی عورتوں سے شادی کرنے کا حکم ہے اسی طرح لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے‘‘ (صحیح بخاری)
سماج میں عموماً مرد اپنی پسند کا اظہار بھی کردیتے ہیں اور نکاح میں ان کی مرضی کا ایک حد تک لحاظ بھی رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکی کے معاملے میں ہمارا معاشرہ اس کی مرضی کے خلاف نکاح کو اس پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں شریعت کے اس بارے میں کیا احکام ہیں۔
رسول اللهؐ کی بارگاہ میں جب بھی کسی لڑکی کی مرضی کے خلاف کیے گئے نکاح کا کیس آیا تو آپؐ نے اس نکاح کو منسوخ فرما دیا اور لڑکی کو اختیار دے دیا کہ وہ اس نکاح کو رکھ لے یا ردّ کردے۔ یعنی کبھی بھی لڑکی کی مرضی کے خلاف نکاح کو لڑکی پر مسلّط نہیں کیا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ جبری شادی کی حوصلہ شکنی کا درس ملتا ہے۔
رسول اللہؐ نے خود حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح منسوخ قرار دیا جو کہ حضرت خنساء کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف کیا تھا (صحیح بخاری)
اس طرح آپؐ نے لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ کا کیا ہوا نکاح منسوخ فرما کر لڑکی کی پسند ضروری قرار دے دی۔ اور یہ حدیث نبویؐ جبری شادی کے عدم جواز پر ٹھوس دلیل ہے۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن میرے والد نے اس رشتے کو رد کردیا اور میری شادی ایسی جگہ کرادی جو مجھے پسند نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والد کو بلایا اور اس سے اس بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کا نکاح کرایا ہے اور اس کےلیے خیر کا ارادہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تیرا نکاح نہیں ہوا، جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرلو۔ (ابن ابی شیبہ)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب لڑکی کی رضامندی کے خلاف نکاح کیا جائے تو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ فرماتی ہیں: ایک لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کرلے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔ (احمد بن حنبل)
شریعت میں کنواری، مطلقہ اور بیوہ تمام عورتوں کا نکاح اُن کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں, جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کردیے تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَدّ فرما دیا۔
لہٰذا نکاح میں ’ولی‘ اور ’اولاد‘ دونوں کی رضامندی یکساں لازم ہے۔ جہاں پر ولی کی اجازت کے بنا نکاح منعقد نہیں ہوتا اور اولاد اپنی ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابند ہے، اس طرح ولی بھی اولاد کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضامندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔
یہ ہے وہ دین اسلام جو اپنے ماننے والوں کو مکمل عدل اور انصاف مہیا کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں اپنی پسند و ناپسند اور انا کو دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام کا یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ کسی طرح سے بھی کسی کی بھی حق تلفی ہو، چاہے وہ والدین ہوں یا اولاد۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی مرضی کے خلاف کی اجازت کے کی رضامندی کیا گیا ہے رسول اللہ نہیں ہوتا قرار دیا نکاح میں نکاح کو کے بغیر کے نکاح لڑکی کی کا نکاح نکاح ا اور اس ولی کی
پڑھیں:
’’صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے‘‘
’’ صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے۔‘‘ گل بانو ستکزئی نے براہوی زبان میں یہ الفاظ ادا کیے۔ پھرکسی مرد کی آواز آئی، ’’ ان سے قرآن مجید لے لو۔‘‘ بانو نے ان الفاظ کو ادا کرنے سے پہلے یہ بھی کہا کہ ’’ مجھ سے سات قدم دور رہو‘‘ بانو کے بھائی نے گولی چلائی۔ پہلے بانو زمین پر گری، پھر اس کے شوہر احسان کو گولیاں ماری گئیں۔ اس جوڑے کا صرف قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔
اس جوڑے کے قتل کا واقعہ کوئٹہ سے 40 میل دور ڈکاری کے مقام پر رونما ہوا جہاں پولیس کی عملداری نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے اس جوڑے کے قتل کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو دنیا بھر کو قبائلی معاشرے کی فرسودہ روایات کے بہیمانہ اثرات کا علم ہوا۔ اس بھیانک قتل کی واردات کی کسی کو فوری اطلاع نہ ہوئی۔ کوئٹہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اس جوڑے نے چھپ کر اپنی پسند کی شادی کی تھی مگر اس علاقے میں موجود نہیں تھے۔
اس دوران علاقے کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ احسان کو لڑکی کے اغواء پر قتل کیا جائے مگر دوسری طرف یہ کہا گیا کہ لڑکی اپنی مرضی سے شادی پر تیار ہوئی ہے تو پھر دونوں کو قتل کرنے پر بزرگوں کا اتفاق ہوا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ احسان نے اپنے قبیلے کے سردار کے پاس پناہ لی ہوئی تھی مگر اس جوڑے کو دعوت کے نام پر بلایا گیا اور وہاں انھیں قتل کا فیصلہ سنایا گیا۔ جب یہ وڈیو وائرل ہوئی تو اس وڈیو میں لڑکی اور لڑکے کے نام کچھ اور بتائے گئے تھے۔
اس قبیلے اور وقوع کے مقام کا نام بھی ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ بلوچستان کی حکومت نے بھی اس وڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے علاقے اور قبیلے کا نام ظاہر نہیں کیا تھا مگر جب سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ مسلسل آنے لگا کہ علاقے اور قبیلے کا نام ظاہرکیا جائے تو بعض صحافیوں نے اس قبیلے اور اس مقام کی نشاندہی کی۔ بلوچستان کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک تیرہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے مگر وزیر اعلیٰ کا نیا موقف یہ ہے کہ قبیلے کا سردار شیر باز ستکزئی اس جرم میں ملوث نہیں ہے۔
90ء کی دہائی میں انسانی حقوق کمیشن HRCP کی سابق چیئر پرسن حنا جیلانی اور عاصمہ جیلانی کے لاہور میں قائم کردہ شیلٹر ہوم میں پشاور کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کی لڑکی نے پناہ لی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس لڑکی کی ماں جو ڈاکٹر تھیں، ایک شخص کے ساتھ اس لڑکی سے ملنے آئی۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، ان کے ساتھ آئے شخص نے اس لڑکی پر گولی چلائی ۔ اس شخص کی دوسری گولی سے حنا جیلانی بال بال بچ گئیں۔ حنا کے دفتر پر تعینات پولیس کانسٹیبل نے جوابی گولی چلائی۔ اجرتی قاتل بھی مارا گیا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود لڑکی کی ماں کو گرفتار نہیں کیا گیا، اس زمانے میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن اور بیرسٹر اقبال حیدر سینیٹر تھے۔ انھوں نے اس واقعے کی مذمت کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی تھی۔
صرف ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ معروف شاعر جمیل الدین عالی نے قرارداد کی حمایت کی تھی۔ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل اور عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ترقی پسند ادیب اجمل خٹک بھی سینیٹر تھے مگر وہ بھی اس لڑکی کے قتل کی مذمت کی قرارداد کی حمایت پر تیار نہیں ہوئے۔ یوں یہ قرارداد اکثریتی ووٹ حاصل نہ کرسکی۔
2008 میں جب پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر تھے تو ان کی مخلوط کابینہ میں اسرار زہری بھی وزیر تھے۔ زہری کا تعلق بلوچستان کے ایک بڑے قبیلے سے تھا۔ اس وقت چھ لڑکیوں کو بلوچستان میں زندہ دفن کرنے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ وزیر موصوف نے کہا تھا کہ ’’ یہ تو ہماری روایات کے مطابق ہے۔‘‘ اس وقت حاصل بزنجو زندہ تھے، انھوں نے اس وقت واقعے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ وزیر موصوف نے بلوچ روایات کے برعکس یہ موقف پیش کیا ہے۔‘‘
یہ رسم ہزاروں سال سے جاری ہے۔ سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اب بھی اس رسم پر عمل کیا جاتا ہے اور اس عمل کو غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔ جب انگریز آئے تو انگریزوں نے ستی کی رسم اور کاروکاری کو غیر آئینی عمل قرار دیا تھا مگر کاروکاری کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے لیے سخت قوانین نافذ نہیں کیے۔ انگریز حکومت نے 1860میں کاروکاری کو جرم قرار دیا تھا مگر اس کی سزا کم رکھی تھی۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے 1990میں اس بارے میں قوانین میں ترمیم کی اور اس کو شریعت کے مطابق بنایا۔ 1999 میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی کہ کاروکاری کے بارے میں قوانین کمزور ہیں اور حکام ان معاملات میں ملزمان کو سزائیں دلوانے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی اداروں کے دباؤ پر دسمبر 2004میں حکومت نے اس قانون میں ترمیم کی۔ نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے افراد کو 7 سال عمر قید تک کی سزا تجویز کی گئی۔
2005 میں حکومت پاکستان نے ایک ایسے قانون کے مسودے کو مسترد کیا، جس میں کاروکاری کے مجرموں کی سزا میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ 2006میں خواتین کے تحفظ کا قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت کاروکاری کے مجرموں کو عمر قید کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا ، 2010 میں Criminal Law (Amendment Offences in the name of pretext of honour) نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت سزا یافتہ مجرم کو قریبی رشتے داروں کی جانب سے معافی دینے کا اختیار ختم کیا گیا۔ اس قانون کے تحت اب مجرموں کو 14 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کی کونسل رکن سعدیہ بلوچ اپنی کتاب میں اپر سندھ کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ جب فصل کٹتی ہے توکوئی بھی شخص اپنے کسی دشمن سے انتقام لینے کے لیے خاتون یا لڑکی کو قتل کرتا ہے، پھر اپنے دشمن کو قتل کرکے یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے ناجائز تعلقات کی بنا ء پر اپنی قریبی عزیزہ اور دشمن کو قتل کیا ہے۔‘‘ ایک اور رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سندھ میں کاروکاری میں قتل ہونے والے افراد کو نہ توکفن دیا جاتا ہے نہ ان کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو کسی دور افتادہ مقام پر دفن کیا جاتا ہے۔
سندھ یونیورسٹی کی متحرک استاد ڈاکٹر عرفانہ ملاح اور پروفیسر امر سندھو نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ انھوں نے کاروکاری ہونے والی خواتین کی قبریں دیکھی ہیں۔ کاروکاری کے فیصلے جرگے میں ہوتے ہیں۔ جرگے میں صرف مرد شرکت کرتے ہیں۔ قبیلوں کے سردار اور عمائدین ہر فیصلے پر قادر ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے تحت جرگے کے انعقاد پر پابندی ہے مگر ملک بھر میں جرگے ہوتے ہیں۔
کئی جرگوں میں وزراء، منتخب اراکین ، اعلیٰ پولیس افسران تک بھی شریک ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی 392 خواتین کاروکاری کے الزام میں قتل ہوئیں۔ ایسے مقدمات کی پیروی کرنے والی وکیل حنا جیلانی نے بتایا ہے کہ کاروکاری کے مقدمات کی عدالتوں میں شنوائی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے اور شاذ و نادر ہی اس جرم میں کسی شخص کو سزا ہوتی ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے قتل ہونے والی عورت اور مرد کے متعلق جو نیا بیانیہ اختیارکیا ہے، اس سے جرم کی سنگینی میں کمی کرنے کا تاثر ملتا ہے۔ کوئٹہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے اس مقتولہ کے جنازے میں سیکڑوں افراد کی شرکت سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ علاقے کے لوگ گل بانو کو مظلوم سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے تناظر میں سب سے اہم بات یہ کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی اس قتل کے خلاف بھرپور احتجاج کرے۔ غیرت کے نام پر قتل کی روایت اس وقت ختم ہوگئی جب پدر شاہی نظام ختم ہوگا۔