انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا تصور: آئیڈیل کی قوت اور روشنی
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
بیجنگ :”ہم ایک ہی سمندر کی لہریں، ایک ہی درخت کے پتے، ایک ہی باغ کے پھول ہیں”، یہ قدیم رومی فلسفی لوسیوس سینیکاکا قول ہے۔ اس اسٹوئک فلسفی نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ دو ہزار سال بعد، اس کا فلسفہ ایک مشرقی ملک کی خارجہ پالیسی کے نظریے میں زندہ ہو جائے گا۔ 23 مارچ 2013 کو، چین کے صدر شی جن پھنگ نے روس کے انٹرنیشنل ریلیشنز انسٹی ٹیوٹ میں ایک خطاب کیا، جس میں پہلی بار دنیا کے سامنے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا تصور پیش کیا گیا۔ گزشتہ 12 سالوں میں، ایک خوبصورت وژن سے لے کر وسیع عمل تک، یہ نئے دور کی چینی خصوصیات کی حامل بڑے ملک کی خارجہ پالیسی کا اعلیٰ مقصد بن چکا ہے، جو مستقبل کے اشتراک اور “ایک ہی کرہ ارض پر مشترکہ کوشش” کے رجحان کو آگے بڑھا رہا ہے۔
” انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا نظریہ ” چینی تہذیب کے “ساری دنیا ایک خاندان ہے” کے روایتی فلسفے سے توانائی حاصل کرتا ہے، اور “اختلافات کے باوجود ہم آہنگی ” اور “انصاف اور مفاد کا یکجا ہونا” کے مشرقی فلسفے کو عالمی حکمرانی کے عمل میں شامل کرتا ہے، جو دنیا اور انسانیت کے مستقبل کے لیے آئیڈیل کی روشنی لاتا ہے۔چند مغربی تنقید نگاروں نے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو “خیالی” قرار دیا تھا، لیکن گزشتہ بارہ سالوں کے عمل نے اس کا مضبوط جواب دیا ہے: آج دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک “بیلٹ اینڈ روڈ” کے خاندان میں شامل ہو چکے ہیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری، یاوان ہائی سپیڈ ریلوے جیسے اہم منصوبوں نے علاقائی معیشت کو مستقبل سے جڑی “ترقیاتی راہداریوں” میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ گہرا اثر یہ ہے کہ چین نے عالمی ترقی اور جنوب۔جنوب تعاون فنڈ، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنوب۔جنوب تعاون منصوبے جیسے میکانزم کے ذریعے ترقی کے حق کو چند ممالک کی “مراعات” سے عالمی سطح پر تمام ممالک کے اشتراک میں تبدیل کر دیا ہے۔ عالمی بینک کی تحقیق کے مطابق، “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو سے متعلقہ ممالک میں 76 لاکھ افراد انتہائی غربت سے اور 32 لاکھ افراد درمیانی غربت سے نجات پا سکیں گے، اور اس سے شراکت دار ممالک کی تجارت میں 2.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا ایک ہی
پڑھیں:
بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کرسکتا، ایسا کیا تو جنگ تصور ہو گا، یوسف رضا گیلانی
ملتان (آئی این پی) چیئرمین سنیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ نے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا، اگر پانی روکنے کی کوشش کی گئی تو اسے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ وہ ملتان میں نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو امن کی خواہش رکھتا ہے، لیکن بھارت نے بارہا ہماری امن پسندی کو کمزوری سمجھا۔ پہلگام واقعے کے بعد ہم نے آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی، مگر بھارت نے اس کے بجائے پاکستان پر حملہ کر دیا، جس کے بعد ہمیں اپنے دفاع میں بھرپور جواب دینا پڑا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں اور کسی بھی یکطرفہ اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم نے دنیا کے سامنے پاکستان کا موقف واضح انداز میں رکھا، عالمی برادری نے ہمارے مقف کی تائید کی اور بھارت کے بیانیے کو مسترد کر دیا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سفارت کاری اور مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور پانی جیسے بنیادی حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔یوسف رضا گیلانی نے قوم کو اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہے تو سیاست ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مل کر ملک کو مضبوط بنائیں۔