پی آئی ٹی بی کی جانب سے جوڈیشل مجسٹریٹس کیلئے ای پروکیورمنٹ سسٹم بارے ٹریننگ سیشن کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 مارچ2025ء) پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے تعاون سے جوڈیشل مجسٹریٹس (سینئر سول ججز)کیلئے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی لاہور میں ای پروکیورمنٹ سسٹم کے حوالے سے ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا گیا۔
(جاری ہے)
پی پی آر اے منیجنگ ڈائریکٹر وقار عظیم نے شرکا کو پی پی آر اے کے قانونی فریم ورک بارے تفصیلی آگاہی فراہم کی جبکہ پی آئی ٹی بی ٹیم نے شرکاء کو ای پروکیورمنٹ سسٹم کے مختلف ماڈیولز کے حوالے سے ڈیمو دیا اور شرکا ءکے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
اس حوالے سے پی آئی بی چیئرمین فیصل یوسف نے جدید گورننس میں ای پروکیورمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ای پروکیورمنٹ سسٹم کا نفاذ سرکاری خریداری میں شفافیت، کارکردگی اور رسائی کو بڑھاتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اس عمل کو سہل بنا رہے ہیں اور دکانداروں کیلئے مزید مسابقتی اور جامع ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سسٹم وینڈرز کو ملک کے کسی بھی حصے سے آن لائن بولیاں لگانے کی سہولت فراہم کرتا ہے جس سے پروکیورمنٹ کا عمل مزید تیز اور قابل رسائی ہو گیا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پروکیورمنٹ سسٹم
پڑھیں:
بنیادی انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔
قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً لاہور میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔