اختر مینگل کا لانگ مارچ کا اعلان، بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں، رانا ثناء اللہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ کا بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل کے ٹوئٹ کے جواب میں کہنا ہے کہ ہم اختر مینگل کے ساتھ بیٹھ کر ان کے تحفظات میں بیان کئے گئے معاملات کو سلجھانے کا ان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں۔
اختر مینگل نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’میں وڈھ سے کوئٹہ تک ایک لانگ مارچ کا اعلان کرتا ہوں، جو ہماری بیٹیوں کی گرفتاری اور ہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کے خلاف ہے۔ میں اس مارچ کی قیادت خود کروں گا، اور تمام بلوچ بھائیوں اور بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مارچ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ یہ صرف ہماری بیٹیوں کی گرفتاری کا معاملہ نہیں، یہ ہمارے قومی وقار، ہماری غیرت، اور ہمارے وجود کا سوال ہے۔ جب تک ہماری ماہیں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں، ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ہماری یہ تحریک پرامن ہے، ہم ظلم، جبر، اور ناانصافی کے خلاف نکلے ہیں اور جب تک انصاف نہیں ملتا، ہم رکیں گے نہیں۔ وڈھ سے کوئٹہ تک ہمارا مارچ صرف قدموں کا نہیں، ضمیر کا سفر ہے۔ جو خاموش ہے، وہ بھی قصوروار ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک آواز بن جائیں۔‘
نجی ٹی وی سےگفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سننے میں آرہا ہے جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد دہشتگردوں کی لاشوں پر کوئی جھگڑا ہوا، اس صورتحال میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی، لیکن ان معاملات کو سلجھانے کی جو سوچ ہے اسے آگے بڑھنا چاہئیے اور قائم رہنا چاہئیے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے احتجاج کی قیادت کرنے والے افراد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کم از کم مسلم لیگ اور اس کے قائد میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی کے قائد صدر آصف زرداری سے بہت بڑی توقعات تھیں کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو ٹھنڈے دل سے سوچیں گے اور وہ حکمت عملی اختیار کریں گے جس سے حالات بہتر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ ہم آپریشن آپریشن نہ کریں، راستے ڈھونڈے کانفیڈنس بلڈنگ کریں، بلوچستان میں گورننس کو بہتر کریں اور لاپتا افراد کے مسئلے پر بات کریں۔
ان کا کہنا تھا ’سردست لاپتا افراد کے ایشو کو ایڈریس کریں، اس کے بعد میرٹ کے حوالے سے جابز دینا شروع کریں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جو کرپشن کا بازرا گرم ہے، جو پوسٹیں بکتی ہیں اسے روکیں‘۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم 30 سال سے مسلم لیگ (ن) کے اتحادی رہے ہیں، اگر آپ بلوچستان میں اس طرح الیکشن کروائیں اور کہیں کہ لوگ ناراض نہ ہوں تو لوگ کیسے نارض نہیں ہوں گے۔ یہاں مونگ پھلی کے داموں میں حلقے بک رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی بات کا جواب دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں کہ الیکشن متنازع ہوئے ہوں، یہاں تو جب جب الیکشن ہوئے متنازع ہی ہوئے ہیں۔
نواز شریف کا سیاسی کردار صرف پنجاب کی حد تک محدود ہونے کے سوال پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’میاں نواز شریف اپنا کردار سو فیصد نہیں ہزار فیصد ادا کرنے کو تیار ہیں، لیکن معاملہ یہ ہے کہ کوئی آگے سے سننے والا بھی تو ہونا‘۔
عبدالمالک بلوچ کے لاپتا افراد کے بارے میں تحفظات پر انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسنسز کا معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے، اس میں بہت پیچیدگیاں ہیں، اس پر ان کیمرا میٹنگز اور بڑی گفتگو ہوئی ، معاملے کو حل کرنے کیلئے تین فریق ہیں انہیں ساتھ بیٹھنا پڑے گا اور اس معاملے کو حل کرنا پڑے گا، لیکن کوئی بیٹھنے کو تیار ہوتا ہی نہیں ہے۔
رانا ثناء اللہ کی بات کے جواب میں عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام لاپتا افراد کو رہا کرو، ہم کہتے ہیں انہیں بازیاب کرکے کسی جگہ پر رکھ لو، جو بے گناہ ہیں انہیں کورٹ کے ذریعے ضمانت پر رہا کر دو، جن لوگوں نے گناہ کیا ہے ان کو آپ سزا دے دیں، تاکہ ان کے لواحقین کو پتا چل جائے کہ وہ ہیں، جو مارے گئے ہیں ان کا بھی بتا دیا جائے کہ کون زندہ ہیں کون مرا ہوا ہے، یہ نہ مجھے پتا ہے، نہ رانا ثناء اللہ کو پتا ہے نہ حکومت کو، یہ اگر پتا ہے تو سکیورٹی اداروں کو پتا ہے کہ کتنے ہمارے پاس ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں کہتا ہوں آپ ان بچیوں کو رہا کریں اور ایک مثبت عمل کی طرف جائیں، ’اب اس ڈنڈا ماری سے بلوچستان کنٹرول نہیں ہوگا‘۔
ایک سوال پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے دور میں جب مسنگ پرسنز کا معاملہ اٹھا تو اس وقت اداروں سے بات ہوئی تھی، ’اس وقت وہ کہہ رہے تھے کہ جی ٹھیک ہے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو ساری چیزیں ہیں انہیں اس طرح سے ہینڈل کیا جائے تو اس کیلئے ایک لیجسلیٹیو آرگن ہونا چاہئے، آپ قانون سازی کریں اور اس کے بعد ہمیں اختیار دیں کہ ہم لوگوں کو گرفتار کرسکیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس طرف کوئی جاتا ہے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈنڈا لے کر آجاتی ہیں کہ آپ ان کو اختیار دے رہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس واقعے میں جن فورسز نے آپریشن کیا وہ ان دہشتگردوں کو مار تو سکتی تھیں، لیکن گرفتار نہیں کرسکتی تھیں۔
ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ابھی ایک ہفتے میں کتنے لوگ اٹھائے، وہ کس قانون کے تحت اٹھائے؟ کون سے کورٹ نے اجازت دی ہے کہ آپ جا کر فلانے کو غائب کردیں۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جن لوگوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، جو لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، جو اتنے سفاک ہیں کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کوئی بس میں بیٹھ کر زیارت کیلئے جا رہا ہے یا ٹرین میں گھر جا رہا ہے اور اس کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں، ان سے ہمیں تھوڑی سی دوری بنانی چاہئیے، ان کی ہمدردی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر اسٹبلشمنٹ اور سیاسی حلقے بیٹھیں گے تو مسئلے کا حل نکل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ عبدالمالک نے ابھی بچیوں کے حوالے جو بات کی وہ وزیراعظم نے سنی ہوگی، میں بھی وزیراعظم سے عبدالمالک کے حوالے سے یہ بات کروں گا اور اللہ کرے کہ اس میں مثبت پیشرفت ہو۔ جس پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے رانا ثناء اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد اختر مینگل ہیں انہیں کریں اور رہے ہیں کو تیار اور اس ہیں ان ہیں کہ
پڑھیں:
ٹک ٹاکر ثناء قتل کیس: ملزم عمر حیات کے والد کا بیٹے سے متعلق بیان سامنے آگیا
ویب ڈیسک: معروف ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قاتل عمر حیات المعروف کاکا کے والد کا کہنا ہے کہ میرا دل اس بات پر راضی نہیں کہ ثناء یوسف کا قتل میرے بیٹے نے کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 2 جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں قتل کی جانے والی ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم عمر حیات کو 3 جون کو گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم نے دوران تفتیش ٹک ٹاکر کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا تھا، بعد ازاں ملزم کو شناختی پریڈ کے لیے 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر عمر حیات عرف ’ کاکا‘ کے والد امجد کا ایک انٹرویو کلپ وائرل ہو رہا ہے جس میں انھوں نے بیٹے کے قتل میں ملوث ہونے پر راضی ہونے سے انکار کردیا۔وائرل ویڈیو کلپ میں عمر حیات کے والد نے بتایا کہ میری دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، دونوں بیٹیوں کی شادی ہوگئی ہے جبکہ بڑا بیٹا فوت ہوگیاہے۔
ملزم کے والد کے مطابق ’مجھے قتل کے بارے میں کچھ نہیں پتہ حتیٰ کہ مجھے بیٹے کے ثناء یوسف سے تعلق اور دوستی کا علم تک نہیں تھا، میں نے بھی ویڈیو میں دیکھا ہے کہ میرا بیٹا ثناء یوسف کے گھر سے باہر نکلتا ہے لیکن اس نے فائرنگ کی، ثناءسے اس کا کیا تعلق تھا وہ ثنا ء کے گھر کیوں گیا؟ اور ثناء کو قتل کیا، میرا دل نہیں مانتا، اصل صورتحال اللہ ہی جانتا ہے‘۔
ملزم کے والد کا مزید کہنا ہے کہ ’ویڈیو بہت چھوٹی سی ہے اس میں نہیں دیکھا گیا کہ میرے بیٹے نے قتل کیا بھی ہے یا نہیں، میں نہیں مانتا کہ میرے بیٹے نے ثناء کا قتل کیا ہے‘۔
ایک دوسرے انٹرویو میں امجد نے مزید کہا کہ ’ اگر میرا بیٹا قتل میں ملوث ہے تو اس کو قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہیے لیکن مجھے انصاف چاہیے، اپنے بیٹے کیلئے نہیں بلکہ اس معصوم لڑکی کیلئے بھی جس کا قتل ہوا ہے، پھر چاہے وہ قتل میرے بیٹے نے یا کسی نے بھی کیا ہو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔
چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں