پنجاب : شیر، چیتا، جگوار اور تیندوارکھنے والوں کو 30 دن میں جانوروں کو ڈیکلئیر کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
راؤ دلشاد: وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر پنجاب وائلڈ لائف نے بڑا اقدام کرتے ہوئے پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شیر، چیتا، جگوار اور تیندوا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ڈیکلریشن مہم کا آغاز کردیا۔
جس کے تحت پہلے مرحلہ میں صوبہ بھر میں بڑی بلیوں کو رکھنے والے افراد کو 30 دن میں ان کو ڈیکلئیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف پنجاب نے بڑی بلیوں کو ڈیکلئر کرنے کا پپلک نوٹس جاری کر دیا جس کے تحت بڑی بلیوں کے مالکان کو سٹاک کی تفصیلات 30 دن کے اندر ڈیکلئیر کرنا لازم ہوں گی، جانور کی عمر، رکھنا والی جگہ کی لوکیشن، نسل اور تعداد کی تفصیلات ڈکلئیر کرنا ہوں گی۔
اہم ملک نے پاکستانی طلبہ کیلئے مفت تعلیم کےدروازے کھول دیے
وائلڈ لائف پنجاب نے تفصیلات فراہم کرنے والے افراد کی سہولت اور آسانی کے لئے "پاس ایپ" متعارف کروا دی، تفصیلات کو 30 دن کے اندر اندر " پاس ایپ" پر ڈیکلئیر کرنا ہوگا، محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کی " پاس ایپ" کو پلے اسٹور سے ڈاون لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
30 دن کے اندر معلومات کی ڈیکلئیریشن نہ کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، محکمہ وائلڈ لائف کی ٹیم بڑی بلیوں کی ڈیکلئیریشن کرنے والوں کی مکمل رہنمائی کرے گی، بڑی بلیوں ( شیر، چیتا، تیندوا ، جگوار) کو نجی ملکیت میں رکھنے اور ریگولیٹ کرنے کا باقاعدہ آغاز ڈیکلریشن پروسیس کے بعد ہوگا۔
لاہور؛ عباس لائنز اور ایلیٹ ٹریننگ سکول کی عمارتیں ڈی سیل
ریگولیٹ کرنے سے پپلک سیفٹی، بڑی بلیوں کی ویلفئر اور ان کی غیر قانونی تجارت جیسے مسائل حل ہونگے، شیروں کو پپلک ڈسپلے کرنے اور دیگر واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے کی، تاریخ میں بڑی بلیوں کو عالمی قوانین اور اسٹینڈرڈ کے مطابق ریگولیٹ کیا جائے گا۔
بڑی بلیوں کو حکومت پنجاب نے نئی قانون سازی اور 1974 وائلڈ لائف ایکٹ میں ترامیم کے زریعے شیڈول ٹو میں شامل کیا تھا، جس کے تحت بڑی بلیوں کو رکھنے والے فرد کو اب محکمہ وائلڈ لائف پنجاب سے لائسنس لینا لازمی ہو گا، بلا لائسنس بڑی بلیوں کو رکھنے والے افراد کے خلاف مقدمات درج ہونگے، یہ جرم اب ناقابل ضمانت اور سزا سات سال اور بھاری جرمانہ ہے۔
سٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی،ڈالر کی قدر میں بھی کمی
ان کے شیر، چیتا، جگوار یا تیندوا کو ضبط کر لیا جائے گا، لائسنس کا اجراء صرف اس فرد کوہوگا جو بڑی بلیوں کو رکھنے سے متعلق مقرر کردہ شرائط اور ضروریات کو پورا کرے گا، محکمہ وائلڈ لائف نے ان شرائط کو عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق مرتب کیا ہے، یہ شرائط پنجاب وائلد لائف کی ویپ سائٹ hppt://pwl.
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: محکمہ وائلڈ لائف وائلڈ لائف پنجاب
پڑھیں:
صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-2
کراچی (کامرس رپورٹر)سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی نے بزنس کمیونٹی کے مسلسل مطالبے کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنے اور 11فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی معاشی شرگرمیوں میں تیزی لانے کی تمام حکمت عملی پر پانی پھر جائے گا اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ایک بیان میں احمد عظیم علوی کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں یکدم نمایاں کمی کرنے سے قاصر ہے تو مرحلے وار کچھ نہ کچھ کمی کرکے اسے نیچے لایا جاسکتا ہے جس کے ملکی معیشت پر یقینی طور پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور کاروبار وصنعتوں کی توسیع اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی تاہم حالیہ اقدامات نے بزنس کمیونٹی شدید مایوس کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ کی زائد شرح کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں ( ایس ایم ایز) کو ہو گا جو زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنی بقا قائم رکھنے کی سخت جدوجہد کررہی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ مہنگائی کو جواز بنا کر پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنا ہر گز دانشمندی نہیں حالانکہ گذشتہ کئی ماہ کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی کو نرم کرنے کے بجائے مزید سخت کردیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔مرکزی بینک کو پاکستان کے حریف ممالک میں پالیسی ریٹ کا جائزہ لینا چاہیے جہاں آسان شرائط اور مناسب شرح پر قرضوں کی فراہمی معمول کی بات ہے۔ انہوں نے مانیٹری پالیسی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے اور ملک کے بہتر مفاد میں پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے لائے تاکہ کاروبار و صنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔