یاسر حسین اور نوشین شاہ میں اختلافات ختم، گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)مقبول اداکار یاسر حسین اور اداکارہ نوشین شاہ کے درمیان ماضی میں شادی میں شرکت کے معاملے پر ہونے والے اختلافات ختم ہوگئے اور حال ہی میں دونوں کی جانب سے ایک تقریب میں گلے ملنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔دونوں کے درمیان یاسر حسین کی شادی میں مبینہ طور پر بن بلائے شرکت کرنے پر تنازع ہوگیا تھا اور دو سال تک دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے رہے تھے اور دونوں کو کبھی ملتے ہوئے بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔پہلی بار یاسر حسین نے فروری 2021 میں نجی نیوز کے پروگرام میں میزبان سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اداکارہ نوشین شاہ بن بلائے ہی دسمبر 2019 میں ان کی شادی میں پہنچ گئی تھیں۔ان کے دعوے کے بعد نوشین شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یاسر حسین نے انہیں دعوت تھی اور شادی ہال کا ایڈریس بھی خود ہی بھیجا تھا۔
بعد ازاں یاسر حسین نے کہا تھا کہ نوشین شاہ کے دباؤ ڈالنے پر انہیں اداکارہ کو شادی کے مقام کا ایڈریس بھیجا تھا۔اسی معاملے پر نوشین شاہ نے ’ٹو بی آنیسٹ‘ نامی شو میں یاسر حسین کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کی تھی اور کہا کہ بعض لوگ دوسروں کو بدنام کرکے شہرت حاصل کرتے ہیں۔
بعد ازاں مارچ 2022 میں نوشین شاہ نے دی کرنٹ کو دیے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ان کے اور یاسر حسین کے درمیان جو کچھ ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔اداکارہ نے کہا تھا کہ یاسر حسین نے جو کہا، بس کہہ دیا اور اب مذکورہ معاملے پر بات نہیں ہونی چاہیے۔تاہم اب تقریباً چار سال بعد دونوں کو ایک ساتھ تقریب میں دیکھا گیا، جہاں دونوں کی گلے ملنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔دونوں نے کچھ دن قبل گرین انٹرٹینمنٹ کی جانب سے منعقد کی گئی ’سحور نائٹ‘ تقریب میں شرکت کی، جہاں دیگر شوبز شخصیات نے بھی شرکت کی۔تقریب میں نوشین شاہ اور یاسر حسین دیگر شوبز شخصیات سے بھی گلے ملتے رہے اور اس دوران دونوں نے بھی ایک دوسرے کو گلے لگایا۔وائرل ہونے والی مختصر ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہےکہ یاسر حسین اداکارہ کے پاؤں چھونے کی کوشش کرتے ہیں، اس دوران اداکارہ انہیں گلے لگا لیتی ہیں۔یاسر حسین اور نوشین شاہ کی جانب سے ایک دوسرے کو گلے لگانے کی ویڈیو وائرل ہوگئی اور صارفین نے اس پر تبصرے کرتے ہوئے دونوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔صارفین نے دونوں کو رمضان المبارک کا احترام کرنے سمیت غیر محرم مرد اور خاتون کے درمیان فاصلہ رکھنے کی تلقین کی جب کہ کچھ مداحوں نے نوشین شاہ کو غیر مرد سے گلے ملنے پر آڑے ہاتھوں بھی لیا۔
View this post on InstagramA post shared by SHS BLOG (@shadabhussainsiddiquishsblog)
مزیدپڑھیں:ایرانی کرنسی تاریخ کی کم ترین سطح پر، ایک ڈالر 10 لاکھ ریال میں بکنے لگا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی ویڈیو وائرل یاسر حسین نے نوشین شاہ کے درمیان گلے ملنے دونوں کو تھا کہ
پڑھیں:
ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-5
عارف بہار
علامہ اقبال نے ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا مصرع مخصوص واقعات کے مشاہدے اور تسلسل میں کہا تھا مگر پاکستان میں حکمران طبقات جس طرح اس مصرعے کو فلسطینیوں کے آنے والے ماہ وسال کے ساتھ جوڑ رہے ہیں سراسر مغالطہ آرائی اور فرضی بیانیہ سازی ہے۔ یہ پاکستانیوں کو بہلانے کا ایک سامان اور گمان ہے۔ فلسطین کی آزاد اور متوازی ریاست کے تصور کا پروانہ امریکا نے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا تھا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔ اس وقت تک ایک آس اور امید موجود تھی کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس یعنی مغربی یروشلم ہوگا۔ اسی لیے یروشلم کو تنازع فلسطین کے بین الاقوامی پروسیس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے سے روکا گیا تھا۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے اس تصور کو اپنے تئیں ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ تازہ دم ہو کر واپس لوٹے ہیں تو وہ اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیز رفتار پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔
نوے کی دہائی کے اوائل میں اوسلو معاہدہ بہت دھوم دھام کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے فلسطین کے مسئلے کا حل یا طویل المیعاد حل کی جانب اہم پیش رفت کہا جارہا تھا۔ اوسلو معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے تمام دکھوں کا علاج اور زخموں کا مرہم بنا کر پیش کیا جا رہاتھا مگر یاسر عرفات بہت بوجھل قدموں سے اوسلو کی طرف قدم بڑھارہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کہ انہیں دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کے ایک ممتاز قائد کے مقام سے اُتار کر ایک بلدیہ نما اتھارٹی کی سربراہی کے انچارج کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جس کا اصل کام حماس کو روکنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوج اور پولیس کا درد سر یاسر عرفات کی فلسطینی اتھارٹی کے سر منتقل کیا گیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس رول سے ہر ممکن طور پر خود کو بچائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک بار ان کا ہیڈ کوارٹر راملہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے حکمران سے زیادہ راملہ کے کمپائونڈ کے قیدی بن چکے تھے۔ یوں اوسلو معاہدہ بھی ناکامی کا اشتہار بن گیا۔
دہائیوں بعد غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس ملبے پر ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی چلتے رہیں اور بھلے سے فلسطینی لْو کے تھپیڑوں کی زد میں جھلستے رہیں۔ اب غزہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے کردار کی تلاش ہے یہ کردار وہ کام کرے گا جسے یاسر عرفات نے ادا کرنے سے خاموش انکار کرکے اس کی قیمت بھی چکائی تھی۔ اب دنیا کو ’’حماس فری غزہ‘‘ کا خاکہ دکھایا جا رہا ہے جس میں رنگ بھرنا ان ملکوں کی ذمے داری ٹھیری ہے جن کا مقصد ومدعا اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ کئی ملکوں پر مشتمل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کی تیاریاں ہیں جس کی قیادت برطانیہ کے سابق مشہور زمانہ وزیر اعظم ٹونی بلیر کررہے ہیں۔ ٹونی بلیر وہی ذات ِ شریف ہیں جنہوں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی امریکی افسانہ طرازی کی ڈرامائی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یوں انہوں نے عراق میں ابوغریب جیسی داستانیں رقم کرنے میں عالمی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس میں برطانیہ کے سفید فام صاحبان ِ ضمیر بلیر کے صدر بش کے ساتھ تعلق کو کس نام سے یاد کرتے تھے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہی ٹونی بلیر کی قیادت میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے بہت سے کاموں میں ایک اہم کام حماس کو غیر مسلح کرنا بتایا جا رہا ہے۔ گویاکہ اسرائیل کا تحفظ اب اسرائیل کی تنہا ذمے داری نہیں رہی بلکہ اب مسلمان اور غیر مسلم سبھی ملک اس کام میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ محافظین بھی صرف وہی ہوں گے جو اسرائیل کے این او سی کے بعد مقرر ہوں گے۔ اسرائیل جن ملکوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا وہی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ ہوں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ رتبہ ٔ بلند مسلم دنیا میں کس کے حصے میں آتا ہے؟
اس فورس کی تشکیل کی بنیاد بننے والے معاہدے پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی زندگی کی بدترین توہین ہے یہ منصوبہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔ فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار آئی پیز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی پامالی پر کوئی معاہدہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا چاہتا تھا موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے کیونکہ غزہ میں جو ہور ہا ہے وہ دو ریاستوں یا دوفوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔ ایک عالمی نمائندے کے اس تبصرے کے بعد اسٹیبلائزیشن فورس کو محافظ بیت المقدس، سعادت، شرف جیسی اصطلاحات کا جامہ پہنانا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود کو اور خلق کو فریب تو دیا جاسکتا ہے مگر خدا تو ہر حرکت ارادے اور نیت سے باخبر ہے۔