موسمیاتی حالات کی شدت کے باعث غذائی تحفظ کے سنگین مسائل ہیں، عالمی بینک
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
عالمی بینک نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خوراک کی کمی اور موسمیاتی حالات کی شدت کے باعث غذائی تحفظ کے حوالہ سے سنگین مسائل سامنے آرہے ہیں اور خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں کم آمدنی والے 79 فیصدممالک میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں 5 فیصدسے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
غذائی تحفظ سے متعلق عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے نومبر 2024 سے فروری 2025 تک کے اعداد و شمار کے مطابق کم آمدنی والے79 فیصد ممالک میں خوراک کی قیمتوں میں 5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ درمیانہ آمدنی اور اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں بالترتیب 50 اور 10.
اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ عالمی بینک نے 90 ممالک میں غذائی تحفظ کے لیے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے جن میں فوری مدد فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے منصوبوں اور زرعی پیداوار میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے طویل مدتی لچکدار حکمت عملیوں کو فروغ دینا شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کے ان اقدامات سے 296 ملین افراد کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔
عالمی بینک نے زراعت میں قدرتی حل کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے حالیہ بلاگ میں عالمی بینک نے 60 برسوں کی مسلسل ترقی کی بات کی ہے جس میں مکئی، چاول، سویا بینز اور گندم کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے زراعت میں بہتری آئی ہے لیکن مستقبل میں ان پیداواروں میں سست روی کا خطرہ بھی ظاہر کیا ہے۔
رپورٹ میں عالمی سطح پر غذائی تحفظ کے بحران کو حل کرنے کے لیے عالمی بینک کے اقدامات اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غذائی تحفظ کے میں خوراک کی عالمی بینک ممالک میں
پڑھیں:
یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے سے قبل سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہےکہ دنیا میں پائی جانے والی تقسیم، جنگوں اور بحرانوں نے بین الاقوامی تعاون کے ہر اصول کو اس قدر کمزور کر دیا ہے جس کی گزشتہ دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
Tweet URLان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ جنرل اسمبلی کے اس ہفتے کو سفارت کاری کا عالمی مقابلہ کہتے ہیں لیکن یہ پوائنٹ سکور کرنے کا موقع نہیں بلکہ مسائل کو حل کرنے کا وقت ہے کیونکہ اس وقت دنیا کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔
(جاری ہے)
متلاطم اور ان دیکھے حالاتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا کو متلاطم اور ان دیکھے حالات کا سامنا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے، تنازعات میں شدت آ رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی زوروں پر ہے، ٹیکنالوجی سے خطرات لاحق ہیں اور عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے جبکہ یہ تمام مسائل فوری حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں آئندہ ہفتے 150 سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت اور ہزاروں حکام و سفارت کار شرکت کر رہے ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس دوران وہ خود بھی 150 سے زیادہ دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور عالمی رہنماؤں سے ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کو کہیں گے تاکہ تقسیم کا خاتمہ ہو، خطرات میں کمی لائی جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔جنرل اسمبلی کے مرکزی موضوعاتسیکرٹری جنرل نے امن، موسمیات، ذمہ دارانہ اختراع، صنفی مساوات، ترقیاتی مالیات اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کو اس ہفتے کے مرکزی موضوعات قرار دیا۔
انہوں نے غزہ، یوکرین، سوڈان اور دیگر علاقوں میں جنگیں روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات پر زور دیا اور مشرق وسطیٰ میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کی بنیاد پر منصفانہ و پائیدار امن قائم کرنےکی ضرورت کو دہرایا۔
موسمیاتی مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد سے نیچے رکھنے کے لیے مضبوط قومی منصوبے پیش کریں۔
سیکرٹری جنرل نے مصنوعی ذہانت کے انتظام پر عالمگیر مکالمہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ جدید ٹیکنالوجی کا انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
محض وعدے نہیں، ٹھوس پیش رفتجنرل اسمبلی کے اس اعلیٰ سطحی ہفتے میں منعقد ہونے والی پہلی دو سالہ کانفرنس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حکام اور عالمی رہنما پائیدار ترقی کے ا ہداف کی تکمیل کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے وعدے کریں گے کہ فی الوقت ان میں تمام اہداف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
علاوہ ازیں اس موقع پر صنفی مساوات پر تاریخی بیجنگ کانفرنس کی 30ویں سالگرہ کی مناسبت سے اجلاس بھی ہوں گے۔انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اجلاسوں کی فہرست بہت طویل ہے کیونکہ ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ موجودہ عالمی بحران خالی خولی باتوں اور محض وعدوں کے بجائے ایسی قیادت کا تقاضا کرتے ہیں جو ٹھوس پیش رفت کے لیے پرعزم ہو۔