لیلۃ القدر: نزولِ قرآن و ملائکہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ رمضان میں ہوتی ہے۔
(ابوداؤد) مفسرین لکھتے ہیں کہ جس رات میں قرآن نازل کیا گیا تھا اور جس کو قرآن حکیم میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے، چوں کہ وہ رمضان کی ایک رات تھی اس لیے لازماً ہر رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر ہے۔ لیکن کو ن سی رات ہے اس کا تعین نہیں ہوسکا، بہ جز اس کے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ شب قدر کو رمضان کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
لیلۃ القدر مجموعہ ہے دو لفظوں یعنی لیل بہ معنی شب یعنی رات اور قدر کے معنی رتبہ، مرتبہ قابل احترام اور عظمت کے ہیں۔ قدر کے اور بہت سے معنی مفسرین نے اپنی تشریح میں لکھے ہیں۔
اگر اس سورہ کو بہ غور پڑھا جائے تو قدر کے معنی تقدیر بھی ہوسکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے قدر کو ضیق اور تنگی کے معنوں میں لیا ہے اور کچھ نے قضا و قدر کے معنوں میں بھی لیا ہے۔ علماء نے تنگی ان معنوں میں لیا ہے کہ اﷲ نے اس رات کی صحیح تاریخ متعین نہیں کی اور یہ بھی کہ آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں کہ کثرت تعدد ملائکہ کی وجہ سے زمین تنگ پڑجاتی ہے یعنی چھوٹی ہوجاتی ہے۔
قرآن حکیم میں اس رات کو ایک اور نام یعنی لیلۃ مبارکہ سے پکارا ہے، مفہوم: ’’ قسم ہے کتاب واضح کی! بے شک! ہم نے اس کو نازل کیا ایک مبارک رات میں کیوں کہ ہمیں بلاشبہ ڈرانا مقصود تھا۔‘‘ (سورہ الدخان) یہاں مبارک رات کے معنی برکت والی رات کے ہیں۔
اس رات کی فضیلت اور برکت کتب احادیث میں متعدد مقامات پر آئی ہیں مگر چوں کہ ا س رات کی فضیلت خود قرآن حکیم میں دو مقامات پر آئی ہیں اور پھر سورہ قدر تو پوری اس مبارک رات کی تعریف میں مستقل سورت کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ آپؐ بہ ذات خود بھی رمضان کے آخری عشرے میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں سخت محنت فرماتے تھے۔ اتنی محنت کسی اور مہینے میں نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے آنحضورؐ سے دریافت فرمایا یہ کیسے معلوم ہو کہ جس رات ہم نے عبادت کی ہے وہی شب قدر ہے۔ چناں چہ آپؐ نے جواب میں اس رات کی نشانیاں بیان فرمائیں۔
ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ نے ہمیں اس کی ایک نشانی یہ بتائی کہ اس رات کے بعد جو سورج طلوع ہوگا اس میں شعاع نہیں ہوگی۔ (مسلم) شعاع نہیں ہوگی سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ شعاع میں تیزی نہیں ہوگی۔
ایک اور نشانی اس رات کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم آنحضرؐت کی خدمت میں شب قدر کا ذکر کر رہے تھے آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو وہ وقت یاد رکھے گا جب چاند نکلتے وقت وہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوگا۔ (مسلم) ایک اور روایت میں آیا ہے کہ اس رات میں سکون ہوتا ہے۔ نہ زیادہ گرمی اور نہ زیادہ سردی ہوتی ہے، آسمان روشن اور صاف ہوتا ہے اور اس کی صبح کو سورج کی شعاعیں ہلکی ہوتی ہیں۔
محققین نے یہاں تک تحقیق کی ہے کہ اس رات کتے نہیں بھونکتے اور علم الاعداد کے ماہرین نے تو بہت دل چسپ بات کہی ہے کہ سورہ قدر میں لیل کا ذکر 3 مرتبہ آیا ہے جو کہ اعداد کے اعتبار سے 27 بنتے ہیں۔ یعنی شب قدر 27 ویں شب کو ہوتی ہے۔ آئمہ کرام کے بھی اس رات کے تعین میں مختلف اقوال ہیں۔
امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں یہ رات تمام سال میں دائر رہتی ہے ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ تمام رمضان میں دائر رہتی ہے، صاحبین کا قول ہے کہ تمام رمضان کی کسی ایک رات میں ہے۔ جب کہ شافعیہ کا قول یہ ہے کہ 21 ویں شب میں ہونا اقرب ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے جو کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی اور رات میں ہوتی ہے۔ لیکن جمہور علماء کی رائے میں ستائیسویں رات میں زیادہ امید ہے۔
ہمیں شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سعی کرنا چاہیے اس عشرہ کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے خدائے برتر سے لو لگانی چاہیے کہ وہ عفو درگزر کرنے والا ہے اور اس رات آئندہ کے لیے تجدید عہد کیا جائے کہ ہمارا کوئی لمحہ اس کی نافرمانی میں نہیں گزرے گا۔ یہ رات ہمارے رب نے بہ طور انعام ہمارے لیے مختص کی ہے، جس میں ہماری بخشش کا نجات کا مکمل ذریعہ رکھا ہے۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبرئیل ملائکہ کے جھرمٹ میں اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس وقت کھڑا ہُوا یا بیٹھا ہُوا اﷲ کا ذکر کر رہا ہو۔ (بیہقی) ظاہر ہے کہ جب ملائکہ گنا ہ گاروں بندوں کے لیے دعا کر رہے ہوں گے تو یقیناً اس کی رحمت کا سمندر موج زن ہوگا جو ان شاء اﷲ ہماری مغفرت کا باعث ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آخری عشرے کی طاق راتوں میں کے آخری عشرے لیلۃ القدر ہوتی ہے ایک رات رات میں رات کی ہیں کہ رات کے اس رات قدر کے
پڑھیں:
اک چادر میلی سی
آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر پسند کی شادی میں بے غیرتی کہاں آ جاتی ہے؟
بیٹی نے اگر اپنی مرضی سے کسی کو چن لیا، تو قیامت کیوں ٹوٹ پڑتی ہے؟
غیرت کے علمبرداروں کو تب تو کچھ محسوس نہیں ہوتا جب اپنی بیٹی کو ڈھول تاشوں کے ساتھ ایک اجنبی کے حوالے کر دیتے ہیں، ایسے مرد کے بستر پر پھینک دیتے ہیں جسے اُس نے نہ کبھی دیکھا، نہ جانا، نہ سمجھا ہوتا ہے ـ ہاں البتہ یہ بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے کہ بچی نے بنا چوں چراں، بنا سوال کیے اپنی زندگی کے سب سے اہم اور بڑے فیصلے پر خاندان کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا۔
اور یہی بیٹی کی قربانی خاندان کی عزت کہلاتی ہے۔
قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں عورت
ایک نجی ملکیت سمجھی جاتی ہے،
کبھی باپ کی، کبھی شوہر کی، کبھی بھائی کی، اور کبھی بیٹے کی …..
عزت کا استعارہ،
غیرت کا بہانہ ـ
عورت …اس معاشرے میں انسان کہاں سمجھی جاتی ہے؟
اس کی سوچ؟
اس کی رضا؟
اس کی پسند، ناپسند؟
یہ تمام الفاظ تو اس کے مقدر میں لکھے ہی نہیں گئےـ
وہ تو بس ایک چیز ہے، جیسے کرسی، میز
جیسے بکری،
جیسے بھینس،
جیسے کھیت کا کوئی زرخیز ٹکڑا،
جسے وقت آنے پر بیچ دیا جائے،
یا دشمنی کے بدلے میں دے دیا جائے،
یا کسی رشتے کی سیج پر رکھ کر اپنی غیرت یا عزت بچانے کا ہتھیار بنا دیا جائے !
کیا کسی نے پوچھا
وہ کیا چاہتی ہے؟
کیا اس کے کوئی خواب ہیں؟
نیلے پیلے اودے….ست رنگی ……رنگ برنگے ـ لیکن …
بھلا ایک عورت کیسے خواب دیکھ سکتی ہے
جس کی گواہی بھی آدھی تسلیم کی جائے وہ کیونکر ایک مکمل انسان ہو سکتی ہے ـ
وہ تو اپنی قسمت کا نوحہ پڑھتی ایک مخلوق ہے
ایک جسم کا لوتھڑا ہے
جو جینے کے لیے نہیں
صرف حکم ماننے اور نبھانے کے لیے ہے ـ
کیا بانو اس معاشرے کی پہلی عورت تھی؟
جو اپنی زندگی کی قیمت
کسی عدالت میں نہیں
بلکہ مقتل میں ادا کر آئی ـ
کسی نے کہا کہ ’قبائل میں اگر کوئی عورت یا مرد ایسی حرکت کریں تو جرگے کو ایسا فیصلہ دینا لازمی ہوتا ہے تاکہ آئندہ کوئی لڑکی ایسا قدم اٹھانے سے پہلے 10 بار سوچے‘ گویا عورت کی عزت کا تحفظ قتل سے مشروط ہے، اور عورت کی ’بھٹکی ہوئی راہ‘ کا حل تعلیم، شعور، یا برابری کے حق میں نہیں بلکہ اس کی جان لینے میں پوشیدہ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قبائلی غیرت کے نظام میں عورت کو کیا کبھی انسان سمجھا گیا ہے؟ اگر اسے اپنی مرضی سے جینے کا اختیار ہو، تو جرگہ کیونکر بیٹھے؟ اگر بیٹی کو تعلیم کے ساتھ اعتماد ، اپنی پسند سے جینے کا حق دیا جائے ، اسے اپنی مرضی کا ہم سفر چننے کی اجازت ہو، اگر اسے کم عمری میں بیاہنے سے گریز کیا جائے، اگر اسے یہ سکھایا جائے کہ اس کی زندگی کا فیصلہ وہ خود کر سکتی ہے، اور اگر شادی ناکام بھی ہو جائے تو ماں باپ کا دروازہ اس کے لیے ہمیشہ کھلا ہو، تو پھر نہ کوئی بھاگے گی، نہ کسی کو مارنے کے جواز تراشے جائیں گے۔
پہلے بانو کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ـ ہاہا کار مچ گئی ـ کسی نے اسکی شان میں قصیدے پڑھے تو کسی نے نوحہ۔
اگلے ہی روز وزیراعلیٰ صاحب پریس کانفرنس کرنے آئے اور کیس کو زنا بالرضا کا ڈنکا بجا کر قتل کا بالواسطہ جواز مہیا کر گئے ـ
اس کے بعد جو الزامات کی بوچھاڑ ہوئی، کردار پر کیچڑ اچھالا گیا، اور آخرکار اس کے قتل کو بھی کچھ لوگوں نے ’عبرت کا سامان‘ قرار دے دیا۔
بات یہیں تک نہ رہی بلکہ تیسرے روز بانو کی والدہ نے بَبانگ دُہل اپنی بیٹی کے ہی قصور وار ہونے کا اعلان کردیا جِس سے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے ـ
مان لیں کہ وہ غلط تھی …. مجرم بھی تھی …. تو گویا ماورائے عدالت قتل جائز قرار دے دیا جائے؟ ایک قبیلے کا سردار کیا خدا بن بیٹھا ہے جو کسی کی بھی جان لینے کا حکم صادر کر سکتا ہے؟
اگر ہے …. تو پھر تالے لگادیں قانون کے تمام اداروں کو، اور پھر چلنے دیں ملک میں جنگل کا قانون۔
چلیں بانو کے کیس میں تو ’آئیں بائیں شائیں‘، ’اگر مگر‘ شامل ہو گیا ہے ـ لیکن کیا یہ عورت کے ساتھ تشدد کی واحد کہانی ہے؟
کراچی کے علاقے لیاری کی 19 سالہ شانتی کی مثال لیجیے۔
شانتی نے محبت میں خاندان کا نام رسوا نہیں کیا تھا۔ وہ چپ چاپ گھر سے بھاگ کر کسی غیر مرد سے شادی کرنے نہیں گئی تھی۔ اس نے اپنے گھر والوں کی رضا سے، رسم و رواج نبھاتے ہوئے اشوک کے ساتھ 7 پھیرے لیے۔ وہ تمام مراحل طے کیے جو ایک ’مہذب‘ شادی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن پھر شادی کے تیسرے دن ہی اشوک ’اس کے اپنے شوہر‘ نے اس کے جسم کو کیوں دوزخ بنا دیا؟
وہ تو ایک بیوی تھی،
جسے شوہر نے انسان نہیں
اپنی ملکیت سمجھا ـ
جسے مارنا، پیٹنا، نوچنا، روندنا اُس کا حق تھا۔
وہی ظلم جو دہلی کی بس میں ہوا، وہی اذیتیں، وہی زخم، وہی چیخیں ـ فرق صرف اتنا تھا کہ دہلی کی بس میں وہ 6 ریپسٹ غیر مرد تھے، اور یہاں شانتی کا ریپسٹ اس کا اپنا شوہر تھا۔
دلی بس ریپ والا واقعہ اور اشوک نے جو شانتی کے ساتھ کیا وہ ہوبہو ایک جیسا تھاـ
وہی راڈ تھی،
وہی سفاکیت تھیـ
انتڑیاں تھیں،
خون تھا،
اور عورت کی زندہ لاش تھی،
کہانی ختم ۔
جان بھی گئی اور شان بھی گئی۔
چلیے شانتی تو ہندو مذہب کی ایک کمتر لڑکی تھی غریب ـ چمار … اس کے مر جانے سے کون سے ہمارے مسلم ملک میں کوئی فرق پڑ جائے گا ـ
لیکن کورنگی کی عائشہ نور کا کیا قصور تھا، جو 2 بچیوں کی ماں تھی۔ نہ جانے کس بات پر اس کے شوہر کو غصہ آیا شاید صرف اس لیے کہ وہ اس کے سامنے جواب دینے کی جرأت کر بیٹھی، یا آواز بلند ہو گئی۔ پہلے تو شوہر نے بے رحمی سے مارا پیٹا، جیسے وہ کوئی انسان نہیں، ایک چیز ہو۔ پھر جب وہ جان بچانے کے لیے بھاگی تو شوہر نے اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ مل کر اس کے منہ میں تیزاب انڈیل دیا۔ جلتا ہوا جسم، جھلستی چیخیں، لڑکھڑاتی سانسیں….
عائشہ بھی عورت تھی، اور عورت ملکیت ہوتی ہے۔
ایک اور کہانی ختم ہوئی۔
جھنگ کی کنزی، زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی طالبہ، تعلیم کے خواب آنکھوں میں سجائے، ایک روشن کل کی امید لیے جینے والی کنزی، اپنے عم زاد ادریس کے ہاتھوں برباد ہو گئی۔ پہلے اس نے کنزی کا ریپ کیا، پھر زہر دے کر اسے مار ڈالا۔ ….وجہ؟ رشتے سے انکار….گویا عورت کا انکار بھی موت کا پروانہ ہے۔
ویہاڑی کی نائلہ کی کہانی بھی لرزہ خیز ہے۔ محض کھانے میں دیر ہو جانے پر اس کے بھائی نے غصے میں چھری اٹھائی، ایک بہن کو موقعے پر ہلاک کیا، دوسری کو شدید زخمی کر دیا۔ کیونکہ گھر میں عورت مرد کی ملکیت ہوتی ہے۔
اب قانون حرکت میں آئے، عدالتیں لگیں ، کیس چلے، دیت ہو جائے، معافی نامہ ہو یا سزا مل جائے ـ جان تو گئی … سج دھج سے گئی یا خوف سے … کیا فرق پڑتا ہےـ
یہ واقعات انفرادی نہیں، یہ ایک اجتماعی المیہ ہیں۔
مقامی این جی او ساحل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تا جون تک خواتین پر تشدد، ریپ اور قتل کے 3958 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جو کہ پچھلے سال 1732 تھےـ ان میں 80% پنجاب، 13% سندھ اور بقیہ کیسز بلوچستان، کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہیں ـ لیکن یہ پوری سچائی نہیں کیونکہ حالات اسے کہیں زیادہ بدتر ہیں ـ
دس دنوں میں، ملک کے مختلف حصوں میں، سینکڑوں عورتیں قتل ہو گئیں۔ سب کی کہانیاں الگ الگ دکھ سے بھری ہیں لیکن سچ ایک ہے : عورت کو مارنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ عورت ہے ـ
چونکہ وہ ایک ملکیت ہے، ایک شے…..جسے خریدنا، بیچنا، قابو رکھنا اور بوقتِ ضرورت ختم کرنا مرد کا پیدائشی حق مان لیا گیا ہے۔ اور جب تک اس سوچ کی بنیادیں نہیں ہلائی جاتیں، جب تک ریاست اس ظلم کے خلاف تن کر نہیں کھڑی ہوتی تب تک عورت قتل ہوتی رہے گی نام بدل بدل کر …… اور ہم صرف ان کے نام یاد رکھیں گے، ان کے زخم نہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
بلوچستان دہرا قتل عورت کا قصور عورت ہونا قاتل بھائی قاتل شوہر کراچی کی شانتی