ٹرمپ کا یو ٹرن یا گہری سازش
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران بھی 2015ء جیسا کھلاڑی نہیں ہے، جو کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ تہران ماضی سے سبق سیکھ کر کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے اور امریکہ کی سفارتی چالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال اسوقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ واشنگٹن کیطرف سے حکمت عملی کی تبدیلی سے زیادہ ایک تاکتیکی اقدام ہے۔ ماہرین کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ کو اس سے جن توقعات اور مفادات کی امید ہے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
 عراقی تجزیہ کار اور سیاسی کارکن نجاح محمد علی نے ایک تجزیہ لکھا ہے، جس کا عنوان ہے "متعدد دھمکیوں کے بعد امریکہ کا یو ٹرن۔" اس آرٹیکل سے چند اقتباسات اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی نمائندے اسٹیو وِٹکاؤف کے لہجے میں اچانک تبدیلی نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ وہ جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ضرورت" کی بات کر رہے تھے، اب وہ "اعتماد سازی" اور "غلط فہمیاں دور کرنے" کی بات کر رہے ہیں۔ یہ انداز ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں میں واضح تضاد کی نشاندہی  کر رہا ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو جنگ کی دھمکی سے شروع ہوئی تھی، لیکن اب یہ مذاکرات اور سفارتی پیغام رسانی کی کوششوں میں بدل گئی ہے۔ یہ اچانک موقف کی تبدیلی کہاں سے آئی ہے۔؟ کیا ٹرمپ انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے؟ یا یہ صرف وقت خریدنے کی ایک حکمت عملی ہے۔؟
 
 ٹی وی انٹرویوز میں وٹکاؤ نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے تہران کو پیغام دیا ہے کہ وہ "باہمی احترام" کے ساتھ بات چیت کریں۔ ان کے اس بیان اور وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے دھمکی آمیز الفاظ میں واضح فرق ہے۔ مائیک والٹر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دو بالکل متضاد مواقف ہیں، جو ٹرمپ انتظامیہ کی حکمت عملی میں ایک گہرے فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں الجھن اور تضاد کا شکار ہوئیں۔ جب ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں ایٹمی معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ تھا کہ وہ ایران پر سختیاں بڑھا کر اسے مذاکرات کی میز پر کھینچیں گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا۔
 
 ایران نہ صرف اپنے موقف سے پیچھے نہيں ہٹا بلکہ اس نے اپنی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں اور اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو مضبوط کیا۔ اس دوران، وائٹ ہاؤس نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ ایران کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی، جب تک کہ تہران اپنے ایٹمی منصوبوں کو مکمل طور پر ترک نہ کرے۔ اب 2025ء میں، تمام دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود، امریکہ نہ صرف بات چیت کا خواہاں ہے، بلکہ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو بھیجے گئے خطوط میں ابتدائی پابندیوں میں تخفیف کے اشارے موجود ہیں۔ اس تبدیلی کو امریکہ کے اندرونی حالات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ معاشی مشکلات اور عوامی ناراضگی کا سامنا کرنے والے ٹرمپ کو اپنی خارجہ پالیسی کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
 
 ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ میں داخل ہونا ان کے لیے بہت مہنگا پڑ سکتا ہے، اس لیے وہ مذاکرات کے ذریعے کم از کم ایک عارضی معاہدے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایران جو کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کا تجربہ رکھتا ہے، وہ اب وائٹ ہاؤس کے وعدوں کو آسانی سے قبول کرنے کے لئیے تیار نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ٹرمپ کے پیغام کے ردعمل میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف دھمکیوں اور سازشوں کی پالیسی مؤثر نہیں ہے۔ تہران نے کئی بار کہا ہے کہ وہ دباؤ کے تحت مذاکرات کو قبول نہیں کرتا اور کسی بھی طرح کے مذاکرات باہمی احترام کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی پیشکش کو کم از کم اس مرحلے پر ایران قبول نہیں کرے گا۔
 
 لیکن ٹرمپ کے لہجے میں واضح پیغام ہے کہ ایران کے خلاف وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ یہ ناکامی صرف سفارت کاری تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کی علامتیں میدان عمل میں بھی نمایاں ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے ایران کو معاشی اور سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے کی بہت کوشش کی ہے، لیکن ایران نہ صرف الگ تھلگ نہیں ہوا بلکہ اس نے روس، چین اور یہاں تک کہ کچھ عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے۔ یہ ٹرمپ کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے، جو اسے طاقت کی پوزیشن سے نرمی کی پوزیشن میں جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس موقف کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اب بھی گاجر اور چھڑی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ایک طرف وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف فوجی کارروائی کی دھمکی دیتے ہیں۔
 
 ان کی حکومت میں یہ دوہری پالیسی بار بار سامنے آئی ہے۔ جب ٹرمپ نے شمالی کوریا کو امن کا پیغام دیا تو اس کے ساتھ اس نے پابندیوں کا دباؤ بڑھا دیا۔ جب انہوں نے مغربی ایشیا سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فوری طور پر مزید جنگی جہازوں کو خطے میں بھیج دیا اور اب، ایران کے خلاف، وہ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس بار جو فرق ہے، وہ ایران کا ردعمل ہے۔ تہران پہلے کی طرح کسی معاہدے کی امید میں مذاکرات میں جلدی نہیں کر رہا ہے۔ ایرانی سیاست دانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹرمپ صرف ایک پروپیگنڈا ڈرامہ کی تلاش میں ہیں اور وہ حقیقی مراعات دینے سے انکار کر رہا ہے، لہذا اقتصادی دباؤ کے باوجود، ایران اپنے موقف پر قائم ہے۔ اس دوران، امریکہ کے اتحادی بھی الجھن میں ہیں۔ صیہونی حکومت، جو ہمیشہ ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کی حمایت کرتی رہی ہے، اب ٹرمپ کے لہجے میں تبدیلی کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔
 
 اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کے پیغام پر ردعمل میں کہا ہے کہ "ہم ایران کے ساتھ کسی نئے معاہدے پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔" اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ کے قریبی اتحادی بھی ٹرمپ کی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات سے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ میں بھی اس موضوع پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لنڈسی گراہم جیسے سخت گیر ریپبلکن ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ ایک خطرناک پس پردہ سازش ہے۔ اس کے برعکس، کچھ دیگر امریکی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو جاری رکھنے سے ایران کو زیادہ جارحانہ اقدامات کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ اس حلقے کا کہنا ہے کہ سفارت کاری کو موقع دیا جانا چاہیئے۔ ان حالات میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ٹرمپ واقعی ایک نئے معاہدے کی تلاش میں ہیں یا صرف ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
 حالیہ برسوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ اکثر اپنی پالیسیاں اپنے قلیل مدتی ذاتی مفادات کی بنیاد پر طے کرتے ہیں اور طویل مدتی حکمت عملیوں پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اگر وہ ایران کے بحران کو اپنے مفاد میں ایک سفارتی ڈرامے کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسا ضرور کریں گے، چاہے انہیں اپنے سابقہ موقف سے عارضی طور پر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹنا پڑے۔ دوسری جانب ایران بھی 2015ء جیسا کھلاڑی نہیں ہے، جو کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ تہران ماضی سے سبق سیکھ کر کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے اور امریکہ کی سفارتی چالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ واشنگٹن کی طرف سے حکمت عملی کی تبدیلی سے زیادہ ایک تاکتیکی اقدام ہے۔ ماہرین کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ کو اس سے جن توقعات اور مفادات کی امید ہے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ ہے کہ ایران کے ایران کے خلاف ایران کے ساتھ ہے کہ ٹرمپ کی کوشش کر وائٹ ہاؤس کی تبدیلی حکمت عملی امریکہ کے کی پالیسی کہا ہے کہ کر رہا ہے سے زیادہ کرنے کی ٹرمپ کے نہیں کر ہیں اور نہیں ہے کسی بھی رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
بھارت ایک اور سازش ناکام:’’را‘‘ کے لئے جاسوسی کرنے والا ماہی گیر گرفتار،اعجاز ملاح نے اعتراف جرم کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ نے پاکستانی مچھیرے کو پیسوں کا لالچ دیکر اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے آمادہ کیا۔
عطا تارڑ اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری کا مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد بھارت نے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن مہم شروع کی ہے، بھارت نے اعجاز ملاح نامی مچھیرے کو گرفتار کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ بھارت میدان جنگ میں شکست کو بھلا نہیں پارہا، آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد انٹیلیجنس اداروں نے بھارت کی پاکستان کے خلاف ایک اور کارروائی کی کوشش ناکام بنا دی۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ بھارت نے اعجاز ملاح نامی مچھیرے کو گرفتار کیا، اعجاز ملاح سمندر میں ماہی گیری کرتا تھا، اعجاز ملاح کو بھارتی کوسٹ گارڈز نے گرفتار کیا۔ اوربھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے اعجاز ملاح کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا اور ٹاسک دیکر پاکستان بھیجا، تاہم ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے بھارتی ایجنسی کے لیے کام کرنے والے مچھیروں کو گرفتار کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ اعجاز ملاح کو پاکستانی نیوی، آرمی اور رینجرز کی وردیاں خریدنے کی ہدایت ملی تھیں، اس کے علاوہ اسے دیگر حساس اشیا خریدنے کے مشن پر واپس بھیجا، وہ جب یہ وردیاں خرید رہا تھا تو پاکستانی ایجنسیوں نے اس کی نگرانی شروع کی۔ اعجاز ملاح کی گرفتاری کے دوران یہ تمام چیزیں اس سے برآمد ہوئیں، جس میں سم کارڈ، ماچس، لائٹرز سمیت دیگر چیزیں شامل تھیں، تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے مچھیرے کو مالی لالچ اور دباؤ کے ذریعے استعمال کیا جبکہ اعجاز ملاح نے گرفتاری کے بعد جرم کا اعتراف کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت معرکہ حق میں پاکستان کی فتح اور سفارتی کامیابوں سے پریشان ہے، پاکستان عالمی سطح پر عزت و وقار حاصل کر رہا ہے، جسے بھارت برداشت نہیں کرپا رہا جبکہ بھارت نے گجرات اور کچھ میں فوجی مشقوں کے نام پر مذموم سرگرمیاں شروع کیں۔
اعترافی بیان میں اعجاز ملاح کا کہنا تھا کہ میں اعجاز ملاح، ریاض ملاح کا بیٹا ہوں، ضلع ٹھٹہ کا رہائشی ہوں اور خاندانی مچھیرا ہوں، اگست 2025 میں دریا میں تھے جب بھارتی کوسٹ گارڈ والوں نے گرفتار کرلیا، اور کہا جس جرم میں آپ کو گرفتار کیا ہے اس میں آپ کی رہائی میں 2 سے 3 سال لگ سکتے ہیں۔
مچھیرے کا کہنا تھا کہ مجھے کہا گیا اگر آپ ہمارے لیے کام کریں تو آپ کی رہائی فوراً ممکن ہوسکتی ہے اور اس کے علاوہ مجھے پیسوں اور انعام کا لالچ بھی دیا، چونکہ مجھے جیل کا خوف تھا اور پھر پیسوں کا لالچ بھی دیا تو میں نے حامی بھرلی۔
اعجاز ملاح نے کہا کہ مجھے رہا کردیا گیا اور ہدایت دی گئی کہ نیوی، رینجرز، آرمی کی وردیاں، 3 زونگ کی سمز، 3 موبائل دکان کے بل، پاکستانی ماچس اور سگریٹ کے ڈبے، لائٹر کے علاوہ 100 اور 50 والے پرانے نوٹ بھی لانے ہیں، جس کے بعد مجھے رہا کردیا گیا۔
اس کا کہنا تھا کہ پاکستان پہنچ کر میں نے تمام چیزیں اکھٹا کیں اور اس کے بعد خفیہ ایجنسی کے افسر اشوک کمار کو تصویر نکال کر بھیجی اور سامان لے کر اکتوبر میں دریا کی طرف گیا تو پاکستانی لوگوں نے مجھے گرفتار کرلیا۔