Islam Times:
2025-06-09@16:00:40 GMT

ٹرمپ کا یو ٹرن یا گہری سازش

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

ٹرمپ کا یو ٹرن یا گہری سازش

اسلام ٹائمز: ایران بھی 2015ء جیسا کھلاڑی نہیں ہے، جو کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ تہران ماضی سے سبق سیکھ کر کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے اور امریکہ کی سفارتی چالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال اسوقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ واشنگٹن کیطرف سے حکمت عملی کی تبدیلی سے زیادہ ایک تاکتیکی اقدام ہے۔ ماہرین کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ کو اس سے جن توقعات اور مفادات کی امید ہے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

عراقی تجزیہ کار اور سیاسی کارکن نجاح محمد علی نے ایک تجزیہ لکھا ہے، جس کا عنوان ہے "متعدد دھمکیوں کے بعد امریکہ کا یو ٹرن۔" اس آرٹیکل سے چند اقتباسات اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی نمائندے اسٹیو وِٹکاؤف کے لہجے میں اچانک تبدیلی نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ وہ جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ضرورت" کی بات کر رہے تھے، اب وہ "اعتماد سازی" اور "غلط فہمیاں دور کرنے" کی بات کر رہے ہیں۔ یہ انداز ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں میں واضح تضاد کی نشاندہی  کر رہا ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو جنگ کی دھمکی سے شروع ہوئی تھی، لیکن اب یہ مذاکرات اور سفارتی پیغام رسانی کی کوششوں میں بدل گئی ہے۔ یہ اچانک موقف کی تبدیلی کہاں سے آئی ہے۔؟ کیا ٹرمپ انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے؟ یا یہ صرف وقت خریدنے کی ایک حکمت عملی ہے۔؟

ٹی وی انٹرویوز میں وٹکاؤ نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے تہران کو پیغام دیا ہے کہ وہ "باہمی احترام" کے ساتھ بات چیت کریں۔ ان کے اس بیان اور وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے دھمکی آمیز الفاظ میں واضح فرق ہے۔ مائیک والٹر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دو بالکل متضاد مواقف ہیں، جو ٹرمپ انتظامیہ کی حکمت عملی میں ایک گہرے فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں الجھن اور تضاد کا شکار ہوئیں۔ جب ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں ایٹمی معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ تھا کہ وہ ایران پر سختیاں بڑھا کر اسے مذاکرات کی میز پر کھینچیں گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا۔

ایران نہ صرف اپنے موقف سے پیچھے نہيں ہٹا بلکہ اس نے اپنی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں اور اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو مضبوط کیا۔ اس دوران، وائٹ ہاؤس نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ ایران کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی، جب تک کہ تہران اپنے ایٹمی منصوبوں کو مکمل طور پر ترک نہ کرے۔ اب 2025ء میں، تمام دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود، امریکہ نہ صرف بات چیت کا خواہاں ہے، بلکہ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو بھیجے گئے خطوط میں ابتدائی پابندیوں میں تخفیف کے اشارے موجود ہیں۔ اس تبدیلی کو امریکہ کے اندرونی حالات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ معاشی مشکلات اور عوامی ناراضگی کا سامنا کرنے والے ٹرمپ کو اپنی خارجہ پالیسی کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ میں داخل ہونا ان کے لیے بہت مہنگا پڑ سکتا ہے، اس لیے وہ مذاکرات کے ذریعے کم از کم ایک عارضی معاہدے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایران جو کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کا تجربہ رکھتا ہے، وہ اب وائٹ ہاؤس کے وعدوں کو آسانی سے قبول کرنے کے لئیے تیار نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ٹرمپ کے پیغام کے ردعمل میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف دھمکیوں اور سازشوں کی پالیسی مؤثر نہیں ہے۔ تہران نے کئی بار کہا ہے کہ وہ دباؤ کے تحت مذاکرات کو قبول نہیں کرتا اور کسی بھی طرح کے مذاکرات باہمی احترام کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی پیشکش کو کم از کم اس مرحلے پر ایران قبول نہیں کرے گا۔

لیکن ٹرمپ کے لہجے میں واضح پیغام ہے کہ ایران کے خلاف وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ یہ ناکامی صرف سفارت کاری تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کی علامتیں میدان عمل میں بھی نمایاں ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے ایران کو معاشی اور سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے کی بہت کوشش کی ہے، لیکن ایران نہ صرف الگ تھلگ نہیں ہوا بلکہ اس نے روس، چین اور یہاں تک کہ کچھ عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے۔ یہ ٹرمپ کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے، جو اسے طاقت کی پوزیشن سے نرمی کی پوزیشن میں جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس موقف کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اب بھی گاجر اور چھڑی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ایک طرف وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف فوجی کارروائی کی دھمکی دیتے ہیں۔

ان کی حکومت میں یہ دوہری پالیسی بار بار سامنے آئی ہے۔ جب ٹرمپ نے شمالی کوریا کو امن کا پیغام دیا تو اس کے ساتھ اس نے پابندیوں کا دباؤ بڑھا دیا۔ جب انہوں نے مغربی ایشیا سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فوری طور پر مزید جنگی جہازوں کو خطے میں بھیج دیا اور اب، ایران کے خلاف، وہ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس بار جو فرق ہے، وہ ایران کا ردعمل ہے۔ تہران پہلے کی طرح کسی معاہدے کی امید میں مذاکرات میں جلدی نہیں کر رہا ہے۔ ایرانی سیاست دانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹرمپ صرف ایک پروپیگنڈا ڈرامہ کی تلاش میں ہیں اور وہ حقیقی مراعات دینے سے انکار کر رہا ہے، لہذا اقتصادی دباؤ کے باوجود، ایران اپنے موقف پر قائم ہے۔ اس دوران، امریکہ کے اتحادی بھی الجھن میں ہیں۔ صیہونی حکومت، جو ہمیشہ ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کی حمایت کرتی رہی ہے، اب ٹرمپ کے لہجے میں تبدیلی کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کے پیغام پر ردعمل میں کہا ہے کہ "ہم ایران کے ساتھ کسی نئے معاہدے پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔" اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ کے قریبی اتحادی بھی ٹرمپ کی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات سے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ میں بھی اس موضوع پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لنڈسی گراہم جیسے سخت گیر ریپبلکن ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ ایک خطرناک پس پردہ سازش ہے۔ اس کے برعکس، کچھ دیگر امریکی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو جاری رکھنے سے ایران کو زیادہ جارحانہ اقدامات کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ اس حلقے کا کہنا ہے کہ سفارت کاری کو موقع دیا جانا چاہیئے۔ ان حالات میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ٹرمپ واقعی ایک نئے معاہدے کی تلاش میں ہیں یا صرف ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالیہ برسوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ اکثر اپنی پالیسیاں اپنے قلیل مدتی ذاتی مفادات کی بنیاد پر طے کرتے ہیں اور طویل مدتی حکمت عملیوں پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اگر وہ ایران کے بحران کو اپنے مفاد میں ایک سفارتی ڈرامے کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسا ضرور کریں گے، چاہے انہیں اپنے سابقہ موقف سے عارضی طور پر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹنا پڑے۔ دوسری جانب ایران بھی 2015ء جیسا کھلاڑی نہیں ہے، جو کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ تہران ماضی سے سبق سیکھ کر کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے اور امریکہ کی سفارتی چالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ واشنگٹن کی طرف سے حکمت عملی کی تبدیلی سے زیادہ ایک تاکتیکی اقدام ہے۔ ماہرین کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ کو اس سے جن توقعات اور مفادات کی امید ہے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ ہے کہ ایران کے ایران کے خلاف ایران کے ساتھ ہے کہ ٹرمپ کی کوشش کر وائٹ ہاؤس کی تبدیلی حکمت عملی امریکہ کے کی پالیسی کہا ہے کہ کر رہا ہے سے زیادہ کرنے کی ٹرمپ کے نہیں کر ہیں اور نہیں ہے کسی بھی رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) نو جون پیر کے روز کسٹمز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ محصولات کے بعد امریکہ کو بھیجی جانے والی اشیاء میں کمی کے باعث مئی کے مہینے میں چینی برآمدات میں نمو کی شرح تین ماہ کی اپنی کم ترین سطح پر آ گئی۔

مجموعی طور پر چینی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا، تاہم اپریل میں یہ برآمدات 8.1 فیصد سے کم ہو گئیں اور امریکہ کو چینی برآمدات میں تقریباً 12 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

ٹرمپ اور شی میں فون کال کے بعد تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق

چینی برآمدات میں سست روی سے متعلق یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب پیر نوجون ہی کے روز لندن میں امریکی اور چینی حکام کے مابین تجارتی مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔

(جاری ہے)

مئی میں چین نے امریکہ کو 28.8 بلین ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کی، جو اپریل میں 33 بلین ڈالر کی برآمدات سے واضح طور پر کم تھیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل میں مضبوط تجارتی اعداد و شمار کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متوقع ٹیرفس میں اضافے سے قبل برآمد کنندگان کی طرف سے زیادہ سے زیادہ سامنے امریکہ بھیجنے کی کوشش کی گئی ہو گی۔

شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟

اسی دوران چین میں امریکی درآمدات میں بھی 7.4 فیصد کی کمی دیکھی گئی، اور ان کی مالیت کم ہو کر 10.8 بلین ڈالر رہ گئی۔

ٹرمپ اور شی کے مابین فون کال کا اثر

گزشتہ جمعرات کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ’’بہت اچھی فون کال‘‘ پر بات چیت ہوئی تھی، جس کا نتیجہ ’’دونوں ممالک کے لیے بہت ہی مثبت نکلنے کی توقع‘‘ تھی۔

فون پر یہ بات چیت 90 دنوں کے لیے ٹیرفس میں توقف کے تناظر میں ہوئی، جسے گزشتہ ماہ نافذ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اضافی محصولات کے نفاذ سے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین تجارت کے بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔

چین نے ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی ادارہ قائم کر دیا

امریکی صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے آغاز کے لیے 90 دنوں تک چینی مصنوعات پر اپنی طرف سے عائد کردہ 145 فیصد محصولات کو کم کر کے 30 فیصد کر دیا تھا، جب کہ چین نے بھی امریکی اشیاء پر درآمدی ٹیکس 125 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا ہے۔

چین کی اقتصادی بحالی کے لیے اقدام

چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی مذاکرات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب امریکی پالیسی سازوں نے ہائی ٹیک، دفاع اور صاف توانائی کے شعبوں میں کام آنے والی نایاب اور قیمتی معدنیات سمیت دیگر اشیاء کی برآمد کے لیے چین کی جانب سے برآمدی لائسنس کی منظوری نہ دیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ٹرمپ کی ’گولڈن ڈوم‘ میزائل شیلڈ کیا، اس پر تنقید کیوں؟

چین کے سرکاری اعداد و شمار نے پروڈیوسر پرائس انڈکس میں بھی کمی ظاہر کی ہے، جبکہ صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔

اس دوران اقتصادی دھچکے کو کم کرنے کے لیے بیجنگ نے مئی میں بعض فعال اقدامات متعارف کرائے تھے، جن میں شرح سود میں کمی بھی شامل ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • جوہری معاہدے پر بڑھتی کشیدگی، ایران کی یورپ اور امریکہ کو وارننگ
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’
  • برطانیہ میں صحافیوں کو نشانہ بنانے کی مبینہ سازش میں  تین ایرانی افراد پر فردِ جرم عائد
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،'ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں'
  • ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات