ملک دشمن عناصر کیخلاف کارروائی کیلئے 15 رکنی کمیٹی قائم، محسن نقوی سربراہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نیٹ نیوز) دہشت گردوں، انتہا پسندوں کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی، ملک اور سماج دشمنوں کے قلع قمع کے لیے 15 رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی۔ کمیٹی پاکستان کو ہارڈ سٹیٹ میں بدلنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ کمیٹی میں وفاق اور صوبائی حکام شامل ہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کمیٹی کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ کمیٹی میں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہوم سیکرٹریز شامل ہیں۔ تمام حساس اداروں کے نمائندگان، سی ٹی ڈی حکام بھی کمیٹی کا حصہ ہیں، کمیٹی افغان باشندوں کی وطن واپسی کے عمل کی نگرانی کرے گی۔ کمیٹی غیر قانونی پٹرول اور سمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کا جائزہ لے گی۔ سعودی عرب میں بھیک مانگنے کے رجحان کا سدباب کرے گی۔ کمیٹی صوبائی سطح پر ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کا بھی جائزہ لے گی۔ کمیٹی تمام معاملات میں نقص کی نشاندہی کر کے سفارشارت مرتب کرے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کرے گی
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔