آپ نے عمروعیار کی زنبیل کے بارے میں تو یقیناً سن رکھا ہوگا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ عمروعیار کی زنبیل کی طرح کئی چیزوں کو خود میں سما لینے والی ایک زبردست ایجاد حقیقی طور پر ہماری دنیا میں موجود ہے۔

ہم ایک ایسی بالٹی یا ڈول کی بات کررہے ہیں جس نے سوشل میڈیا صارفین کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ بالٹی بھارت میں قدیم دور میں استعمال کی جاتی تھی اور اب اسے قدیم نوادرات کا درجہ حاصل ہے۔ بالٹی پر لکھی اردو تحریر سے پتا لگتا ہے کہ یہ اسمارٹ برتن مغل دور کی ایجاد ہے۔

پیتل کے برتنوں سے بھری ہوئی اس بالٹی نے تاریخ کے اوراق میں اپنی جگہ بنائی ہے جو نہ صرف دیکھنے میں دلکش ہے بلکہ اس کی افادیت نے جدید دور کے کچن گیجٹس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پرانے زمانے میں بھارت کے مختلف علاقوں میں اس ’’کچن بالٹی‘‘ کا استعمال عام تھا۔ اور اسے دوران سفر زیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔

یہ جادوئی بالٹی پیتل کی بنی ایک خاص بالٹی ہے جس میں کچن کے تمام ضروری برتن اور اوزار یکجا کر دیے گئے ہیں۔ اس میں چمچ، کڑچھی، پلیٹیں، کٹورے، چھوٹے ڈبے، اور دیگر ضروری سامان شامل ہوتا ہے، جو بالٹی کے اندر ایک منظم طریقے سے فٹ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح، صرف ایک بالٹی اٹھانے سے پورا کچن کا سامان ایک جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس جادوئی بالٹی میں ایک ساتھ کتنے برتن سمائے ہیں۔

بھارت کے دیہی علاقوں میں یہ بالٹی خاص طور پر شادی بیاہ کے موقع پر استعمال ہوتی تھی۔ دلہن کو یہ بالٹی اس کے گھر والوں کی طرف سے تحفے میں دی جاتی تھی، جس میں کچن کا مکمل سامان ہوتا تھا۔ اسے نہ صرف استعمال میں آسانی کے لیے بنایا گیا تھا، بلکہ یہ خاندانی ثقافت اور روایت کا ایک اہم حصہ بھی تھی۔

آج کل، جب لوگ کم جگہ اور زیادہ استعمال کی چیزوں کی تلاش میں ہیں، یہ بالٹی ایک بار پھر مقبول ہورہی ہے۔ کیونکہ اس ایک ہی بالٹی میں تمام برتن سمونے سے کچن میں جگہ کی بچت ہوتی ہے۔ یہ بالٹی پورٹیبل ہونے کی وجہ سے سفر یا پکنک کےلیے انتہائی آسان اور مفید ہے۔ 

سوشل میڈیا پر اس بالٹی کو دیکھ کر لوگ حیران ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ’’یہ تو کچن کی سوئس چاقو جیسی چیز ہے!‘‘ جبکہ اکثر صارفین اسے ’’ماضی کا سب سے اسمارٹ کچن گیجٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ایران پر اسرائیلی حملے، بلوچستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

13 جون بروز جمعہ کی صبح ایران کے دارالحکومت تہران سمیت مختلف علاقوں پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور ایرانی افواج کے مرکزی کمانڈر میجر جنرل غلام علی رشید سمیت متعدد اہم شخصیات شہید ہو گئیں۔ اطلاعات کے مطابق، کئی ایٹمی سائنسدان بھی ان حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اگرچہ یہ حملے ایران کے مرکزی علاقوں میں کیے گئے، تاہم بلوچستان پر اس کے گہرے سیکیورٹی اور سماجی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اگر باقاعدہ جنگ میں بدلتی ہے تو بلوچستان اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ایران کے سرحدی صوبے سیستان اور بلوچستان کے درمیان گہری تجارتی، ثقافتی اور خاندانی وابستگیاں ہیں۔ جنگ کی صورت میں یہ تمام روابط متاثر ہوں گے اور لاکھوں افراد کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع، خصوصاً تفتان، پنجگور، مند، چاغی اور گوادر ایسے علاقے ہیں جہاں ایران سے روزانہ کی بنیاد پر تجارت ہوتی ہے۔ اگر ایران میں بدامنی پھیلتی ہے تو یہ تجارتی سرگرمیاں رک سکتی ہیں، جس سے مقامی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔

یہ بھی پڑھیے اسرائیل کا تبریز پر ایک اور حملہ ، ایران میں ملک گیر ہائی الرٹ جاری، عالمی برادری کا اظہار تشویش

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق اگر ایران میں جنگ چھڑتی ہے تو اس ایران کے اندر شورش میں شدت آ سکتی ہے۔  ایران کے صوبے سیستان میں بھی سیاسی عدم استحکام موجود ہے، اور دونوں جانب بدامنی خطے میں مزید انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے تو ایران سے افغانستان کی طرز پر بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کا امکان کم ہے کیونکہ اسرائیلی حملے غالباً ایران کے مرکزی علاقوں تک محدود رہیں گے، اور بلوچستان سے متصل سرحدی پٹی کم متاثر ہوگی۔ اگر کچھ لوگ ہجرت کرتے بھی ہیں تو ان کا قیام مکران ڈویژن تک محدود رہنے کا امکان ہے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق صدر ایوان صنعت و تجارت فدا حسین نے بتایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سالانہ 3 سے 4 ارب روپے کی دو طرفہ تجارت ہوتی ہے۔ اس تجارت میں ایران سے بڑے پیمانے پر خشک میوہ جات، تعمیراتی اشیاء، کاسمیٹکس، اشیائے خورو نوش، بیکری آئٹمز سمیت متعدد اشیائے ضروریہ شامل ہیں جبکہ پاکستان سے چاول، گندم سمیت مختلف اناج کی اقسام اور اشیاء ایران بھجوائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر بھی روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کی غیر رسمی تجارت ہوتی ہے جس سے دونوں اطراف میں بڑے پیمانے پر لوگ منسلک ہیں۔ تاہم اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا دو طرفہ تجارت پہ شدید منفی اثر ہوگا کیونکہ جنگ کے حالات میں تجارت کا سلسلہ بند ہونے کا امکان ہوگا اور سرحد بند ہونے سے تجارت ٹھپ ہو جائے گی جس سے پاکستان کو معاشی دھچکا لگ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے وزیراعظم شہباز شریف کی ایران میں موجود پاکستانی زائرین کی باحفاظت واپسی کے لیے ہنگامی اقدامات کی ہدایت

ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے بھی شدید خطرات لا سکتی ہے۔ بلوچستان، جو جغرافیائی، تجارتی اور ثقافتی لحاظ سے ایران کے قریب ترین ہے، اس ممکنہ جنگ کا سب سے پہلا متاثرہ پاکستانی علاقہ ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں حکومت پاکستان کو بلوچستان کی سرحدی سلامتی، تجارت اور عوامی تحفظ کے لیے پیشگی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران اسرائیل جنگ بلوچستان پاکستان

متعلقہ مضامین

  • رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والے کسی فرد نہیں پورے معاشرے کے محسن ہیں: مریم نواز
  • روس کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت:حملے خطرناک اشتعال انگیزی ہیں‘پورے خطے پر تباہ کن اثرات ہونگے.صدرپوٹن
  • ایران پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کرتے ہیں، متحدہ علماء محاذ کا احتجاجی اجلاس
  • اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ کو خطرے میں ڈال رہا ہے، میرواعظ کشمیر
  • ایران پر اسرائیلی حملے، بلوچستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
  • ایران پر اسرائیلی حملہ پورے عالم اسلام کے وقار، وحدت اور سلامتی پر حملہ ہے، علامہ احمد اقبال رضوی
  • کیا اے آئی پاکستان میں شعبہ صحت پر سے بوجھ کم کرسکتا ہے؟
  • اسرائیلی حملوں کے باوجود پورے ایران میں تمام مذھبی اجتماعات جاری و ساری ہیں
  • بھارت کے پہلے 2، اب 6 جہاز گرائے، اگلی بار 60 اور 600 بھی گرا سکتے ہیں، مصدق ملک
  • بھارت کے پہلے 2، اب 6 جہاز گرائے، اگلی بار 60 اور 600 بھی گرا سکتے ہیں: مصدق ملک