معراج النبیﷺ اور سائنسی کمالات
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
یہی وہ مقام ہے جہاں آکرہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفرسے واپس آئے توحجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺچھوڑکرگئے تھے۔ گویااتنے طویل عرصے میں زمین پرایک لمحہ بھی نہیں گزرا۔اگرخصوصی نظریہ اضافیت کومدنظررکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تومعلوم ہوگاکہ اصلازمین پرآنحضرت ﷺکی غیرموجودگی میں کئی برس گزرجانے چاہئیں تھے لیکن ایسانہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کادوسراحصہ یعنی عمومی نظریہ اضافیت ہمارے سوا ل کاتسلی بخش جواب دیتا ہے۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت ٹائم اورسپیس (زمان)اورخلا (مکان) کوایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان کی مخلوط شکل میں پیش کیاہے اورکائنات کی اسی اندازسے منظرکشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی ہیں جنہیں ہم لمبائی،چوڑائی اوراونچائی (یاموٹائی) سے تعبیرکرتے ہیں،جبکہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں۔اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کوزمان ومکان کی ایک چادرکے طور پر پیش کیا ہے۔تمام کہکشائیں،جھرمٹ،ستارے، سیارے،سیارچے اورشہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادرپرمنحصرہیں اورقدرت کی جانب سے عائدکردہ پابندیوں کے تابع ہیں۔انسان چونکہ اسی کائنات مظاہرکاباشندہ ہے لہذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کے کسی بھی حصے کوزمان ومکان کی اس چادرمیں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیاجاسکتاہے۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایاہے کہ وہ کتنابے وقعت اورکس قدر محدودہے ۔
کارل ساگان جوایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے،اپنی کتاب کائنات(کاسموس)میں ایک فرضی مخلوق کاتصورپیش کرتاہے جو صرف دو جہتی ہے۔وہ میزکی سطح پرپڑنے والے سائے کی مانندہیں۔انہیں صرف دومکانی جہتیں ہی معلوم ہیں جن میں وہ خود وجودرکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی، چونکہ وہ ان ہی دوجہتوں میں محدودہیں لہٰذاوہ نہ توموٹائی یا اونچائی کاادراک کرسکتے ہیں اورنہ ہی ان کے یہاں موٹائی یااونچائی کاکوئی تصورہے۔وہ صرف ایک سطح پرہی رہتے ہیں ۔ ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی مخلوق کی ملاقات ہوجاتی ہے۔راہ ورسم بڑھانے کیلئے سہ جہتی مخلوق،اس دوجہتی مخلوق کوآوازدے کر پکارتی ہے۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈرجاتی اورسمجھتی ہے کہ یہ آوازاس کے اپنے اندرسے آئی ہے۔سہ جہتی مخلوق،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنادیدار کرا سکے مگردوجہتی مخلوق کی تمام ترحسیات صرف دوجہتوں تک ہی محدود ہیں۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پرہے۔وہ مزید خوف زدہ ہوجاتی ہے۔اس کاخوف دور کرنے کیلئے سہ جہتی مخلوق،دوجہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھالیتی ہے اوروہ اپنی دنیا والوں کی نظرمیںغائب ہوجاتاہے حالانکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذراسااوپرجاتاہے۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اورموٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ ایک اورجہت ہے جس کامشاہدہ وہ اپنی دوجہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکاردوجہتی مخلوق کواس کی دنیا میں چھوڑکرسہ جہتی مخلوق رخصت ہوجاتی ہے۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کاسفرکیاہے جسے اونچائی کہتے ہیں،مگراپنی دنیاکی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کویہ سمجھانے سے قاصرہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرواور ذہن پر دباؤنہ ڈالوکیونکہ ان کے خیال میں اس کادماغ خراب ہوگیا ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پرمحدوداس مخلوق کی مانندہے۔فرق صرف اتناہے کہ ہماری طبعی قفس(فزیکل پرزن)چہارجہتی ہے اوراسے ہم وسیع وعریض کائنات کے طور پرجانتے ہیں۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہارجہتوں پرچلنے کے پابندہیں اوران سے باہرنہیں جاسکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالاکی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے اوراس جہاں دیگرکے مظاہر ہمارے مشاہدات سے بالاترہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔عالم دنیایعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالایعنی ہمارے مشاہدے وادراک سے ماورا کائنات دوالگ زمانی ومکانی چادریں ہیں۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہوسکتی ہیں لیکن بے انتہا قربت کے باوجودایک کائنات میں جوکچھ ہو رہاہے اس کادوسری کائنات میں ہونے والے عمل پرنہ اثرپڑے گااورنہ اسے وہاں محسوس کیاجائے گا۔ حضور اکرمﷺزمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پرسے دوسری زمانی ومکانی چادرپرپہنچے اورمعراج کے مشاہدات کے بعد(خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو) آنحضرتﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادرکے بالکل اسی نقطے پرواپس پہنچ گئے جہاں آپﷺ معراج سے قبل تھے اوریہ وہی نقطہ تھاجب آنحضرتﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر(ٹائم ٹریول) والانظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتاہے۔آج کل سائنسی دنیامیں ٹائم ٹریولزیاوقت میں سفرکاتذکرہ عام ہے۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پربنی فلمیں عام لوگوں کیلئے سائنس فکشن ہی ہوتی ہیں۔کیاوقت میں سفرممکن ہے؟
آئیں پہلے آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفرکیاہے۔ہمیں جوکچھ نظرآتاہے وہ روشنی کاکسی چیزسے منعکس ہوکراس کاعکس ہماری آنکھ کے ذریعے اعصاب تک لے جانے کی وجہ سے ہے۔روشنی کی رفتارایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل یاتقریباً تین لاکھ کلومیٹرفی سیکنڈہے جس کی وجہ سے ہمیں اطراف کے مناظر فوراً نظر آجاتے ہیں۔اگرکوئی چیززمین سے تین لاکھ کلومیٹر دورہے تواس سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی،اس طرح ہمیں وہ چیزایک سیکنڈپہلے والی نظر آئے گی۔ سورج کافاصلہ زمین سے 150ملین کلومیٹرہے اوراس کی کرن ہم تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے،دوسرے لفظوں میں ہمیں جو سورج نظرآتاہے وہ آٹھ منٹ پہلے کاہوتاہے۔
ٹائم ٹریول کوسمجھنے کیلئے فرض کریں، اگرہم روشنی کی دگنی رفتارسے سورج جتنے فاصلے پر موجودکسی ستارے یاسیارے پرجاکرپلٹ آئیں تو ہماراجانا چارمنٹ میں اور واپسی بھی چارمنٹ میں ہوگی اورکل سفرآٹھ منٹ میں ہوگالیکن دلچسپ بات یہ ہوگی کہ زمین پرپہنچ کرہم خوداپنے آپ کوواپسی کاسفرکرتے دیکھیں گے! وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکرا کے منعکس ہوکر ہماری متحرک تصاویرلے کرزمین کی طرف آرہی تھیں،ان کوتوقدرتی طور پر ہماری آنکھ تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگنے ہیں جبکہ ہم ان سے پہلے(چارمنٹ میں) روشنی کی دگنی رفتارکی وجہ سے زمین پرآگئے.
I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by times current. But time is like a river in another way. It flows at different in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.
میں وقت میں،مستقبل میں سفرپریقین رکھتا ہوں۔وقت ہم سب کوساتھ میں لیے دریاکی طرح بہتاہے لیکن یہ ایک اورطرح سے دریا کی طرح بہتا ہے،یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتارسے بہتاہے اوریہی وقت میں سفرکی کلیدہے۔یہ تصور100سال پہلے آئن اسٹائن نے دیا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سہ جہتی مخلوق زمان ومکان کی دوجہتی مخلوق کائنات میں ہوجاتی ہے کی وجہ سے روشنی کی کہتے ہیں ا ٹھ منٹ یہ ایک
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔