Daily Ausaf:
2025-06-09@19:46:30 GMT

معراج النبیﷺ اور سائنسی کمالات

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
یہی وہ مقام ہے جہاں آکرہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفرسے واپس آئے توحجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺچھوڑکرگئے تھے۔ گویااتنے طویل عرصے میں زمین پرایک لمحہ بھی نہیں گزرا۔اگرخصوصی نظریہ اضافیت کومدنظررکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تومعلوم ہوگاکہ اصلازمین پرآنحضرت ﷺکی غیرموجودگی میں کئی برس گزرجانے چاہئیں تھے لیکن ایسانہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کادوسراحصہ یعنی عمومی نظریہ اضافیت ہمارے سوا ل کاتسلی بخش جواب دیتا ہے۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت ٹائم اورسپیس (زمان)اورخلا (مکان) کوایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان کی مخلوط شکل میں پیش کیاہے اورکائنات کی اسی اندازسے منظرکشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی ہیں جنہیں ہم لمبائی،چوڑائی اوراونچائی (یاموٹائی) سے تعبیرکرتے ہیں،جبکہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں۔اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کوزمان ومکان کی ایک چادرکے طور پر پیش کیا ہے۔تمام کہکشائیں،جھرمٹ،ستارے، سیارے،سیارچے اورشہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادرپرمنحصرہیں اورقدرت کی جانب سے عائدکردہ پابندیوں کے تابع ہیں۔انسان چونکہ اسی کائنات مظاہرکاباشندہ ہے لہذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کے کسی بھی حصے کوزمان ومکان کی اس چادرمیں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیاجاسکتاہے۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایاہے کہ وہ کتنابے وقعت اورکس قدر محدودہے ۔
کارل ساگان جوایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے،اپنی کتاب کائنات(کاسموس)میں ایک فرضی مخلوق کاتصورپیش کرتاہے جو صرف دو جہتی ہے۔وہ میزکی سطح پرپڑنے والے سائے کی مانندہیں۔انہیں صرف دومکانی جہتیں ہی معلوم ہیں جن میں وہ خود وجودرکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی، چونکہ وہ ان ہی دوجہتوں میں محدودہیں لہٰذاوہ نہ توموٹائی یا اونچائی کاادراک کرسکتے ہیں اورنہ ہی ان کے یہاں موٹائی یااونچائی کاکوئی تصورہے۔وہ صرف ایک سطح پرہی رہتے ہیں ۔ ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی مخلوق کی ملاقات ہوجاتی ہے۔راہ ورسم بڑھانے کیلئے سہ جہتی مخلوق،اس دوجہتی مخلوق کوآوازدے کر پکارتی ہے۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈرجاتی اورسمجھتی ہے کہ یہ آوازاس کے اپنے اندرسے آئی ہے۔سہ جہتی مخلوق،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنادیدار کرا سکے مگردوجہتی مخلوق کی تمام ترحسیات صرف دوجہتوں تک ہی محدود ہیں۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پرہے۔وہ مزید خوف زدہ ہوجاتی ہے۔اس کاخوف دور کرنے کیلئے سہ جہتی مخلوق،دوجہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھالیتی ہے اوروہ اپنی دنیا والوں کی نظرمیںغائب ہوجاتاہے حالانکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذراسااوپرجاتاہے۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اورموٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ ایک اورجہت ہے جس کامشاہدہ وہ اپنی دوجہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکاردوجہتی مخلوق کواس کی دنیا میں چھوڑکرسہ جہتی مخلوق رخصت ہوجاتی ہے۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کاسفرکیاہے جسے اونچائی کہتے ہیں،مگراپنی دنیاکی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کویہ سمجھانے سے قاصرہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرواور ذہن پر دباؤنہ ڈالوکیونکہ ان کے خیال میں اس کادماغ خراب ہوگیا ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پرمحدوداس مخلوق کی مانندہے۔فرق صرف اتناہے کہ ہماری طبعی قفس(فزیکل پرزن)چہارجہتی ہے اوراسے ہم وسیع وعریض کائنات کے طور پرجانتے ہیں۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہارجہتوں پرچلنے کے پابندہیں اوران سے باہرنہیں جاسکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالاکی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے اوراس جہاں دیگرکے مظاہر ہمارے مشاہدات سے بالاترہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔عالم دنیایعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالایعنی ہمارے مشاہدے وادراک سے ماورا کائنات دوالگ زمانی ومکانی چادریں ہیں۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہوسکتی ہیں لیکن بے انتہا قربت کے باوجودایک کائنات میں جوکچھ ہو رہاہے اس کادوسری کائنات میں ہونے والے عمل پرنہ اثرپڑے گااورنہ اسے وہاں محسوس کیاجائے گا۔ حضور اکرمﷺزمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پرسے دوسری زمانی ومکانی چادرپرپہنچے اورمعراج کے مشاہدات کے بعد(خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو) آنحضرتﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادرکے بالکل اسی نقطے پرواپس پہنچ گئے جہاں آپﷺ معراج سے قبل تھے اوریہ وہی نقطہ تھاجب آنحضرتﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر(ٹائم ٹریول) والانظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتاہے۔آج کل سائنسی دنیامیں ٹائم ٹریولزیاوقت میں سفرکاتذکرہ عام ہے۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پربنی فلمیں عام لوگوں کیلئے سائنس فکشن ہی ہوتی ہیں۔کیاوقت میں سفرممکن ہے؟
آئیں پہلے آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفرکیاہے۔ہمیں جوکچھ نظرآتاہے وہ روشنی کاکسی چیزسے منعکس ہوکراس کاعکس ہماری آنکھ کے ذریعے اعصاب تک لے جانے کی وجہ سے ہے۔روشنی کی رفتارایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل یاتقریباً تین لاکھ کلومیٹرفی سیکنڈہے جس کی وجہ سے ہمیں اطراف کے مناظر فوراً نظر آجاتے ہیں۔اگرکوئی چیززمین سے تین لاکھ کلومیٹر دورہے تواس سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی،اس طرح ہمیں وہ چیزایک سیکنڈپہلے والی نظر آئے گی۔ سورج کافاصلہ زمین سے 150ملین کلومیٹرہے اوراس کی کرن ہم تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے،دوسرے لفظوں میں ہمیں جو سورج نظرآتاہے وہ آٹھ منٹ پہلے کاہوتاہے۔
ٹائم ٹریول کوسمجھنے کیلئے فرض کریں، اگرہم روشنی کی دگنی رفتارسے سورج جتنے فاصلے پر موجودکسی ستارے یاسیارے پرجاکرپلٹ آئیں تو ہماراجانا چارمنٹ میں اور واپسی بھی چارمنٹ میں ہوگی اورکل سفرآٹھ منٹ میں ہوگالیکن دلچسپ بات یہ ہوگی کہ زمین پرپہنچ کرہم خوداپنے آپ کوواپسی کاسفرکرتے دیکھیں گے! وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکرا کے منعکس ہوکر ہماری متحرک تصاویرلے کرزمین کی طرف آرہی تھیں،ان کوتوقدرتی طور پر ہماری آنکھ تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگنے ہیں جبکہ ہم ان سے پہلے(چارمنٹ میں) روشنی کی دگنی رفتارکی وجہ سے زمین پرآگئے.

اس طرح ہمارے متحرک عکس قدرتی وقت(آٹھ منٹ) میں ہماری آنکھوں میں داخل ہوں گے،جس کی وجہ سے ہم خودکودیکھ رہے ہوں گے۔یہی مستقبل یاوقت میں سفرہے،اسی کوٹائم ٹریول کہاجاتاہے،یعنی روشنی کی رفتارسے زیادہ تیزرفتارسفرجس میں حال پیچھے رہ جاتاہے۔جب آپﷺسفرمعراج سے واپس تشریف لائے توزمین پر وقت وہی تھاحالانکہ آپ بہت طویل وقت یہاں سے غیر حاضررہے تھے۔ ظاہریہی ہوتاہے کہ آپﷺنے روشنی کی رفتار سے بھی بہت زیادہ رفتارسے سفرکیااسی لئے زمین پروقت نہیں گزرااورآپﷺکی واپسی ہوگئی۔قرآن میں اس کا تذکرہ اس کے کتابِ الٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان وقت میں سفر کرسکے؟ دیکھیے اس دور کے قابل ترین سائنسدان مسٹر ہاکنگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by times current. But time is like a river in another way. It flows at different in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.
میں وقت میں،مستقبل میں سفرپریقین رکھتا ہوں۔وقت ہم سب کوساتھ میں لیے دریاکی طرح بہتاہے لیکن یہ ایک اورطرح سے دریا کی طرح بہتا ہے،یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتارسے بہتاہے اوریہی وقت میں سفرکی کلیدہے۔یہ تصور100سال پہلے آئن اسٹائن نے دیا۔
(جاری ہے)

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سہ جہتی مخلوق زمان ومکان کی دوجہتی مخلوق کائنات میں ہوجاتی ہے کی وجہ سے روشنی کی کہتے ہیں ا ٹھ منٹ یہ ایک

پڑھیں:

شہباز شریف، شہزادہ محمد ملاقات: کثیر جہتی تعلقات مزید گہرنے کرنے کے عزم کا اعادہ، فیلڈ مارشل بھی موجود تھے

اسلام آباد‘ مکہ مکرمہ‘ جدہ (اے پی پی +خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نمائندہ خصوصی) وزیراعظم  شہباز شریف اور  فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وفد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں نوافل ادا کیے اور بنیان مرصوص کی عظیم فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے۔ وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وفد کے ہمراہ ولیِ عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ  کیا۔ انہوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب عمرہ کی ادائیگی کی۔ بیان کے مطابق پاکستانی وفد کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ خصوصی طور پر کھولا گیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے وفد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں نوافل ادا کیے اور آپریشن بنیان مرصوص کی عظیم فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ وزیراعظم اور  فیلڈ مارشل نے وفد کے ہمراہ  پاکستان کی معاشی میدان اور عوامی فلاح کیلئے اقدامات کے حوالے سے حالیہ کامیابیوں پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ بالخصوص ظلم و جبر کے شکار  کشمیری و فلسطینی مسلمان بہن بھائیوں کیلئے خصوصی دعائیں کیں۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات و نشریات عطاء  اللہ تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو عیدالاضحیٰ کی مبارکباد دی۔ ملاقات میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی‘ وزیر اطلاعات عطا تارڑ‘ سعودی سفیر نواف المالکی بھی موجود تھے۔ منیٰ پیلس میں ہونے والی ملاقات میں  دو طرفہ تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ باہمی دلچسپی کے امور اور دیرینہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے‘ خطے کی سکیورٹی صورتحال‘ معاشی و دفاعی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاقائی صورتحال اور قیام امن کیلئے مشترکہ کوششوں پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔ ملاقات میں وزیر اعظم نے بھارت سے کشیدگی کم کرانے پر سعودی قیادت کے کردار کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے شاہی دیوان میں ولی عہد و وزیر اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے دئیے گئے خصوصی ظہرانے میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ ولی عہد سعودی عرب نے وزیراعظم کا بھرپور استقبال کیا اور خود گاڑی چلا کر وزیرِ اعظم کو ظہرانے میں شرکت کیلئے لے کر گئے۔ دونوں رہنماؤں کے مابین غیر رسمی گفتگو ہوئی۔ ظہرانے میں مشرق وسطیٰ کے اہم رہنماؤں سمیت سعودی کابینہ کے ارکان اور اعلی سعودی سول و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔ وزیر اعظم کا سعودی ولی عہد کی جانب سے شاندار استقبال اور ظہرانے میں بطور مہمان خاص شرکت، پاکستان و سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ تعلقات اور وزیرِ اعظم کی قیادت میں پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا مظہر ہے۔وزیراعظم شہبازشریف اور سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کثیر جہتی تعلقات کو مزید گہرے کرنے کے لیے اپنے باہمی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی ذمہ دارانہ تحمل کی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق اعلامیہ میں بتایا گیا وزیراعظم محمد شہبازشریف نے سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے، سٹرٹیجک اور برادرانہ تعلقات کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو عید کی مبارکباد پیش کی اور دنیا بھر سے حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود عازمین کے لیے سعودی عرب کی مہمان نوازی اور خدمات کو سراہا۔ انہوں نے حرمین شریفین کے متولی اور ولی عہد کی محفوظ اور روحانی طور پر تکمیل حج کے تجربے کو یقینی بنانے کی قابل ذکر کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران سعودی عرب کے فعال کردار اور خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے اس کے ثابت قدم عزم کو سراہا۔ انہوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی ذمہ دارانہ تحمل کی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں رہنماؤں نے غزہ کی سنگین انسانی صورتحال پر بھی تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر زور دیا اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا جو عرب امن اقدام اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر مبنی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کی بڑھتی ہوئی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے قیادت کے مشترکہ وژن اور دونوں ممالک کے برادر عوام کی امنگوں کے مطابق اس سٹرٹیجک شراکت داری کو مزید بلند کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ولی عہد کو جلد از جلد پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی پرزور دعوت دی جسے ولی عہد نے بخوشی  قبول کر لیا۔ جبکہ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل ہوگیا۔ پرائم منسٹر آفس پریس ونگ کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اپنا دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل کرکے پاکستان کیلئے روانہ ہو گئے۔ گورنر جدہ، شہزادہ سعود بن عبداللہ جلاوی، سعودیہ عرب کے پاکستان میں سفیر نواف بن سعید المالکی، پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر احمد فاروق اور اعلی سفارتی اہلکاروں نے جدہ ائیر پورٹ پر وزیرِ اعظم کو الوداع کیا۔

متعلقہ مضامین

  • زحل کے چاند ٹائیٹن کی فضا کیوں جھولتی ہے؟ نیا سائنسی انکشاف
  • وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
  • شہباز شریف، شہزادہ محمد ملاقات: کثیر جہتی تعلقات مزید گہرنے کرنے کے عزم کا اعادہ، فیلڈ مارشل بھی موجود تھے