اسلامی نظریاتی کونسل نوجوانوں کو پروپیگنڈے سے بچانے کیلئے کردار ادا کرے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد:وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو منفی رویوں، غلط بیانیوں، جھوٹ، پروپیگنڈے کی جنگ سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرے، اور معاشرے کی رہنمائی قرآن و سنت کی روشنی میں کی جائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے قوم کو نظریاتی تشخص دیا، خوشی ہے کہ جس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو قائم کیا گیا تھا، وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور جدید ایجادات نے دنیا کو مکمل طور پر بدل دیا ہے، اس دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسلام نے ہمیں اجتہاد کا راستہ دکھایا ہے، اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار اہمیت کا حامل ہے، تاکہ ہم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق چل سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے کریڈٹ پر بے شمار کارنامے ہیں، اسلامی بینکاری کا قیام کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں، اسی کی بدولت دنیا کے کئی ممالک میں سود کے بغیر بینکاری کا نظام قائم ہوا، اب اسے روایتی بینکاری سے جڑے غیر مسلم ممالک میں بھی اپنایا جارہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ مفتی سرفراز نعیمی شہید نے دہشتگردی کو خلاف اسلام قرار دیا، وہ دین کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا سے کوچ فرما گئے، جس طرح قبلہ ایاز نے کہا کہ ایسی قوتیں جو اسلحہ کے زور پر ملک کو یرغمال بنانا چاہتی تھیں، علمائے کرام نے ایسی قوتوں کے آگے بند باندھا اور پاکستان کو بڑی تباہی سے بچایا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ
پڑھیں:
اسلامی دنیا کی حمایت سے طے پانے والا ’ غزہ امن منصوبہ‘ اور پاکستان کا مؤقف
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے غزہ امن منصوبے کی باقاعدہ منظوری دے دی، جس کے بعد یہ منصوبہ عالمی قانون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان نے اس پیش رفت کو نہایت خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن، جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کی بحالی کے لیے یہ پیشرفت فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
رپورٹ کے مطابق 2 سالہ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلا اور انسانی امداد کی فوری فراہمی جیسے اقدامات اسی منصوبے کے ذریعے ممکن ہوں گے۔
امریکی کردار اور ذمہ داریامریکہ نہ صرف اس منصوبے کی منظوری کا حصہ بنا بلکہ اسے تشکیل دینے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اب اس منصوبے کی ساکھ براہِ راست امریکی حکمتِ عملی سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ امریکی قیادت، خصوصاً صدر ٹرمپ اس کے عملی نفاذ کے حوالے سے عالمی سطح پر ذمہ دار سمجھی جا رہی ہے۔
منصوبے کو مسلم دنیا سمیت عالمی برادری کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اختلافات صرف چند تکنیکی پہلوؤں تک محدود ہیں۔
اسرائیلی انخلا، جنگ بندی اور انسانی امدادغزہ میں جاری انسانی المیے کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے میں فوری جنگ بندی، مرحلہ وار اسرائیلی انخلا اور انسانی امداد کی بحالی کو بنیادی نکات قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:استنبول میں غزہ جنگ بندی پر بات چیت: اسٹیو وٹکوف کی خلیل الحیّہ سے ایک اور ملاقات طے
منصوبہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے کسی بھی علاقے پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا، جبری ہجرت کو ظلم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے، اور فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد اسرائیل کو اسے تسلیم کرنا ہوگا۔
ISF کی تعیناتی: امن کا عملی ڈھانچہاقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (ISF) غزہ میں فوری تعینات کی جائے گی جس کے ذمے غزہ کی سیکیورٹی سنبھالنا، فلسطینی پولیس کی تربیت، بارڈر سیکیورٹی، امدادی کارروائیوں کے محفوظ راستے کو یقینی بنانا اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی نگرانی شامل ہوں گے۔
ISF کی موجودگی ہی تعمیرِ نو، بحالی اور غزہ میں معمولاتِ زندگی کی واپسی کا بنیادی ذریعہ ہوگی۔
اسرائیل کے اندر مخالفت اور دباؤ
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے اندر چند انتہا پسند گروہ اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں، تاہم عالمی دباؤ اور فلسطینی مؤقف کی مضبوطی نے اسرائیل کو اس معاہدے پر آمادہ کیا۔
فلسطینی حکومت نے نہ صرف منصوبے کی حمایت کی بلکہ اس کے فوری نفاذ پر زور بھی دیا ہے۔ حماس بھی یہ منصوبہ منظور کر چکی ہے اور اس پر امریکا اور مصر کی ثالثی میں دستخط ہو چکے ہیں۔
دو ریاستی حل کی بین الاقوامی تصدیقیہ امن منصوبہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کی تاریخی توثیق ہے۔ پاکستان کے مطابق 1967 کی سرحدوں کے مطابق ریاستِ فلسطین کا قیام، القدس کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرنا، اور قبضے، محاصرے اور جبری بے دخلی کا خاتمہ ہی دیرپا امن کا راستہ ہیں۔
پاکستان کا مؤقف: غیر جانب دار مگر واضحپاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی طاقت کی سیاست کا فریق نہیں۔ اس کا کردار صرف انسانی بنیادوں تک محدود ہوگا تاکہ غزہ کے محفوظ مستقبل کی ضمانت دی جا سکے۔
پاکستان امن مشنز میں 200,000 سے زائد جوان بھیج چکا ہے اور اسے عالمی سطح پر قابلِ اعتماد امن شراکت دار مانا جاتا ہے۔ حکومت کے مطابق پاکستان ان 8 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس امن منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔
پاکستانی مؤقف کے مطابق ہماری وابستگی صرف فلسطینی عوام کی مرضی سے مشروط ہے اور ہم ظلم کے خاتمے، انسانی بقا اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کھڑے ہیں۔ خاموش رہنا یا اس کی مخالفت کرنا منافقت کے مترادف ہوگا۔
امن، تعمیرِ نو اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہمواررپورٹ کے مطابق غزہ، مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس ریاستِ فلسطین کا لازمی اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد ہی غزہ میں تباہ شدہ گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی، انسانی بقا اور باوقار زندگی کی بحالی کا واحد راستہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطین پر مؤقف اٹل، پاکستان کو غزہ بھیجے جانے والی فورس کا حصہ بننا چاہیے، وزیر دفاع خواجہ آصف
پاکستان نے ایک بار پھر اعادہ کیا کہ حقیقی امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور یہی اس منصوبے کا بنیادی خلاصہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی دنیا امریکا پاکستان صدر ٹرمپ غزہ غزہ امن منصوبہ