نجی میڈیکل کالجوں کی فیس میں کمی کرتے ہوئے حکومت نے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے لیے فیس حد مقرر کر دی۔ 

رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر تشکیل دی گئی کمیٹی برائے میڈیکل ایجوکیشن ریفارمز، جس کی سربراہی نائب وزیر اعظم کر رہے ہیں، نے آج ایک اہم فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی سالانہ ٹیوشن فیس ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس پروگرامز کے لیے 18 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے، یہ اقدام پاکستان میں طبی تعلیم کو سستا اور قابل رسائی بنانے کی سمت ایک بڑا سنگ میل ہے۔

نجی میڈیکل کالجوں میں بڑھتی ہوئی فیسیں عوام، طلبہ اور والدین کے لیے ایک دیرینہ مسئلہ رہی ہیں۔ PM&DC کونسل نے پہلے بھی 4 جون 2022، 10 دسمبر 2023، اور 23 فروری 2024 کے اجلاسوں میں اس معاملے کو زیر بحث لایا تھا۔

مزید برآں، 27 فروری 2025 کو کونسل کے فیصلے کے مطابق، پروفیسر ڈاکٹر مسعود گوندل کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے تین اجلاسوں کے دوران نجی اداروں اور پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل انسٹی ٹیوشنز (PAMI) کے نمائندوں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد جامع تجزیہ پیش کیا۔

تفصیلی مالیاتی جائزے اور ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں، کمیٹی برائے میڈیکل ایجوکیشن ریفارمز نے فیصلہ کیا کہ نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے لیے سالانہ ٹیوشن فیس 18 لاکھ روپے مقرر کی جائے گی، جبکہ سالانہ فیس میں اضافہ صارف قیمت اشاریہ (CPI) کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

ایم بی بی ایس کے لیے یہ فیس پانچ سال اور بی ڈی ایس کے لیے چار سال تک لاگو ہوگی۔ اس فیس ڈھانچے کو عوامی سطح پر اعلان کیا جائے گا اور اس کا مکمل نفاذ یقینی بنایا جائے گا تاکہ شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

تاہم، ایسے ادارے جو اپنی مالی ضروریات کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ 25 لاکھ روپے تک کی فیس مقرر کرنا چاہتے ہیں، انہیں PM&DC کو تفصیلی مالیاتی جواز پیش کرنا ہوگا۔ اس جواز میں اضافی تعلیمی سہولیات، مہیا کردہ خدمات، اور دیگر اداروں کے ساتھ فیس کا موازنہ شامل ہونا چاہیے۔ غیر ضروری اور غیر معقول فیس میں اضافہ ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا۔ کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ صرف مناسب اور معقول دلائل کے ساتھ پیش کیے گئے اضافے ہی قابل غور سمجھے جائیں گے تاکہ تعلیمی اخراجات میں غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔

یہ فیصلہ طبی تعلیم کو عام طلبہ، خصوصاً نچلے اور متوسط طبقے کے لیے قابل برداشت بنانے کے ایک بڑے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان میڈیکل ایجوکیشن ریفارمز کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ ہر مستحق طالب علم کو اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آ سکیں۔

کمیٹی نے نائب وزیر اعظم کے تعلیمی اصلاحات کے وژن اور انتھک کاوشوں کو سراہا، جن کی قیادت میں یہ تاریخی فیصلہ ممکن ہوا۔ اس کے علاوہ، وفاقی وزیر مصطفی کمال کی عوامی خدشات کو اجاگر کرنے اور تعلیمی فیسوں کو معتدل رکھنے کی کوششوں کو بھی سراہا گیا۔ وزیر مملکت ڈاکٹر مختار احمد بھرت، وفاقی سیکریٹری ندیم محبوب، اور PM&DC کے صدر پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج کی انتھک محنت کو بھی کمیٹی نے تسلیم کیا، جنہوں نے اس عمل کی نگرانی اور شفافیت کو یقینی بنایا۔

کمیٹی نے پروفیسر ڈاکٹر مسعود گوندل کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کی محنت اور تفصیلی مالیاتی تجزیے کو بھی خراج تحسین پیش کیا، جس نے اس سفارش کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ فیصلہ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے کہ نجی اداروں کو مالی طور پر مستحکم رہنے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات کو معقول اور منصفانہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ PM&DC کا کردار واضح ہے کہ ٹیوشن فیس تعلیمی معیار اور اخراجات کی حقیقی عکاسی کرے، جبکہ طلبہ کا استحصال نہ ہو۔

کمیٹی مکمل طور پر اس عزم پر قائم ہے کہ پاکستان میں طبی تعلیم کو معیاری، سستا اور ہر طبقے کے لیے قابل رسائی بنایا جائے، تاکہ مستقبل میں بھی طبی شعبے میں ترقی اور اصلاحات جاری رکھی جا سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس نجی میڈیکل ایس کے لیے کمیٹی نے فیس میں

پڑھیں:

پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) پاکستان سے غیر ملکی باشندوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران ستمبر 2024ء سے لے کر اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھیجا جا چکا ہے۔ ان افغان شہریوں میں تقریباﹰ نصف تعداد خواتین اور مختلف عمر کی لڑکیوں کی تھی۔

اہم بات تاہم یہ ہے کہ انہی افغان باشندوں میں تقریباﹰ 40 ہزار ایسی کم عمر طالبات بھی شامل تھیں، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں، مگر اب ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد واپس اپنے وطن میں ان کے لیے طالبان حکومت کی سخت پالیسیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

ان ہزارہا افغان لڑکیوں کو ان کی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان سے ملک بدری کے سبب اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک ایسے وقت پر روکنا پڑا، جب ان کے امتحانات بھی شروع ہونے والے تھے۔

(جاری ہے)

خاص طور پر یکم اپریل سے شروع کی گئی بے دخلی مہم کے دوران ایسے زیادہ تر افغان شہریوں کو پاکستانی صوبوں پنجاب اور سندھ سےلا کر صوبے خیبر پختونخوا میں طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کے راستے واپس افغانستان بھیجا گیا۔

پنجاب اور سندھ سے افغان باشندوں کی بے دخلی

پنجاب اور سندھ میں رہائش پذیر افغان مہاجر خاندانوں کی زیادہ تر بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں۔ صوبے خیبر پختونخوا میں بے دخلی مہم کی سست روی کی وجہ سے تاحال صرف رضاکارانہ طور پر ہی کچھ افغان کنبے واپس گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کے مطابق پشاور سے واپس افغانستان جانے والی طالبات کی تعداد تقریباﹰ دو فیصد بنتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں جہاں ایک طرف افغان بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں، وہیں پر بعض افغان ماہرین نے اپنے تعلیمی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔

عالمی برادری افغان باشندوں کی دوبارہ آبادکاری کے عمل کو تیز رفتار بنائے، اسلام آباد کا مطالبہ

پشاور میں اسی نوعیت کے ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ، ڈاکٹر نور افغان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''خیبر پختونخوا میں 50 فیصد افغان بچیاں نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔

لیکن اب چونکہ نیا تعلیمی سیشن شروع ہو رہا ہے، تو ان طالبات کے والدین غیر یقینی صورتحال کے باعث اگلے تعلیمی سال کے لیے ان کے داخلے نہیں کروا رہے، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان بچیوں کی تعلیم کے لیے والدین بھاری فیسیں تو ادا کر دیں مگر پھر انہیں مجبوراﹰ پاکستان سے رخصت ہونا پڑ جائے۔‘‘ پاکستان میں ’پچاس فیصد افغان طالبات کے نئے تعلیمی داخلے نہ ہو سکے‘

ڈاکٹر نور افغان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے افغان باشندے اپنے اہل خانہ کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے سبب پاکستان میں رہتے ہیں، وہ سہولیات جو افغانستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ڈاکٹر نور افغان، جو خود بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اسکولوں میں داخلہ مہم کے دوران 50 فیصد افغان طالبات کے داخلے نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بدری کی موجودہ مہم سے افغان طالبات 100 فیصد متاثر ہوئی ہیں۔ ہزارہا لڑکیاں واپس افغانستان جا چکی ہیں، جبکہ جو ابھی تک پاکستان میں ہیں، وہ موجودہ غیر یقینی صورت حال کی بنا پر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔

مزید یہ کہ پاکستان میں مثلاﹰ نجی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم افغان لڑکیاں اگر اپنی مائیگریشن بھی کرا لیں، تو یہ امکان بہت کم ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

ڈاکٹڑ نور افغان کے بقول، '' پاکستانی پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم افغان طالبات بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔

ایسی لڑکیوں کے والدین یا کچھ اہل خانہ زیادہ تر یورپی ممالک یا امریکہ میں رہتے ہیں اور وہیں سے وہ انہیں ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقوم بھیجتے ہیں۔ ایسے بعض والدین تو بیرون پاکستان سے براہ راست ہی متعلقہ میڈیکل، انجینئرنگ یا آئی ٹی کالجوں میں ان بچیوں کی فیسیں جمع کرا دیتے ہیں۔‘‘ خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں افغان مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں

پشاور میں صوبائی حکومت نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ سے اس وقت خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کے اعداد و شمارکےمطابق صوبے کے پرائمری اور ہائی اسکولوں میں مجموعی طور پر تین لاکھ افغان طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام کالجوں میں بھی افغان طلبا و طالبات کے لیے دو دو نشستیں مختص کی تھیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کےمطابق اس وقت سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 760 نوجوان افغان شہری بطور طلبہ رجسٹرڈ ہیں۔ وفاقی حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے روانگی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل ہی پشاور حکومت سے صوبے میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا وطالبات کی مکمل تفصیلات طلب کر لی تھیں۔

خیبر پختونخوا کے تعلیمی محکمے کی پالیسی

پاکستان سے اب تک زیادہ تر افغان باشندوں کو پنجاب اور سندھ سے بے دخل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تاحال حکومتی پالیسی غیر واضح ہے۔ اس پس منظر میں صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پورے صوبے میں داخلہ مہم جاری ہے۔ لیکن ابھی تک ہمیں صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کے حوالے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔

افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم کے دوران صرف پشاور سے تقریباﹰ 200 طالبات واپس جا چکی ہیں، تاہم پورے صوبے کی سطح پر یہ ڈیٹا ابھی تک مکمل نہیں۔‘‘ افغان طالبات کی پریشانی میں اضافہ

پاکستان سے افغان شہریوں کی ملک بدری سے خواتین بالخصوص طالبات شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسی لڑکیاں ہیں، جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ایسی طالبات کے میل ملاپ والے سماجی حلقے بھی مقامی ہی ہیں۔

پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی افغان طالبہ مسکا احمدزئی (نام دانستہ طور پر فرضی لکھا جا رہا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری پیدائش پشاور ہی کی ہے۔ میں یہیں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی افغانستان نہیں گئی۔ نہ ہی جانے کا ارادہ تھا یا ہے۔ لیکن اب دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔

‘‘

پاکستان سے افغان باشندوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع

اس افغان طالبہ نے کہا، ''مجھے اپنے والدین کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے میں اپنی تعلیم کی قربانی دوں گی۔ اس لیے کہ جو کچھ میں خیبر پختونخوا میں پڑھ رہی ہوں، اس کا سلسلہ افغانستان میں جاری رکھنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔‘‘

مسکا احمدزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری ایک بہن میڈیکل کی طالبہ ہے، جو ابھی تھرڈ ایئر میں ہے۔

جب وہ افغانستان جائے گی، تو اپنی ڈگری وہاں بھلا کیسے مکمل کر سکے گی۔ ہم سب کو یہ پریشانی اس وقت سے لگی ہے، جب سے پاکستان نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بڑی عجیب اور بے یقینی کی صورت حال ہے اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ یہ چند ایک کا نہیں بلکہ لاکھوں افغان لڑکیوں اور بچیوں کا مسئلہ ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی حکومت سے ملک میں زیر تعلیم افغان طالبات کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ کہتے ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور ان طالبات کو ان کے اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

دوسری جانب افغان حکومت کے بعض حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں ایسے بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کابل میں طالبان حکومت کی پالیسی کے مطابق افغانستان میں بچیاں صرف چھٹی کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اس سے آگے ان کی تعلیم پر پابندی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
  • حکومتی کارکردگی کے نظام کی بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل،وزیر خزانہ کنوینر مقرر
  • دودھ کی قیمت مقرر کرنے کا کیس: سندھ حکومت کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے پر عدالت برہم
  • پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ستمبر میں کرانیکا فیصلہ ، امیدواروں کیلئے تعلیمی قابلیت کی نئی شرط
  • ایک ہی بچے کی دو بار پیدائش ؟ میڈیکل کی تاریخ کے حیران کن واقعے کی تفصیلات سامنے آگئیں
  • لنڈی کوتل میں سیکیورٹی فورسز کا فری آئی میڈیکل کیمپ
  • ہیلتھ سروسز اکیڈمی کا شفاف بھرتی کا سنگ میل، 77 آسامیوں کے لیے 7 ہزار امیدواروں کا سکریننگ ٹیسٹ کامیابی سے مکمل
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ
  • بلوچستان میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات تین ہفتوں کے لیے ملتوی