5 اسلامی ممالک سمیت 7 ممالک میں عید الفطر 31 مارچ کو ہونے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 مارچ 2025ء) 5 اسلامی ممالک سمیت 7 ممالک میں عید الفطر 31 مارچ کو ہونے کا اعلان، آسٹریلیا اور برونائی دارالاسلام میں سب سے پہلے عید کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کیا گیا، پاکستان کے 2 پڑوسی ممالک نے بھی عید الفطر 31 مارچ کو ہونے کا اعلان کر دیا۔ عید کے چاند کی رویت سے متعلق بھی پیشن گوئی کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق برونائی دارالاسلام دنیا کا پہلا اسلامی ملک ہے جہاں سب سے پہلے عید الفطر 1446 ہجری کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا۔
برونائی دارالاسلام میں 31 مارچ بروز پیر کو عید الفطر منائی جائے گی۔ برونائی دارالاسلام کے بعد ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، بھارت اور ایران نے بھی عید الفطر 31 مارچ بروز پیر کو ہونے کا اعلان کر دیا۔(جاری ہے)
اس سے قبل سب سے پہلے آسٹریلیا میں عید الفطر کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ آسٹریلیا میں مفتی اعظم اور فتوٰی کونسل کی جانب سے مشترکہ طور پر ماہ مبارک کے اختتام سے متعلق آسٹریلیا میں رہائش پذیر مسلمانوں کو آگاہ کر دیا گیا۔
آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں رواں سال کی عید الفطر کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ آسٹریلین فتوٰی کونسل کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آسٹریلیا میں عید الفطر 31 مارچ بروز پیز کو منائی جائے گی۔ یوں اب تک مجموعی پر 5 اسلامی اور 2 غیر اسلامی ممالک میں عید الفطر کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا۔ دوسری جانب عید الفطر کے چاند کی پیدائش بھی ہو گئی۔ سپارکو کے سائنسی تجزیے کے مطابق شوال کا نیا چاند آج بروز ہفتہ 29 مارچ 2025 کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 15:58 بجے (3 بج کر 58 منٹ پر) پیدا ہو چکا۔ شوال کے چاند کی پیدائش کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت وہ تمام ممالک جہاں آج 29 رمضان المبارک ہے، وہاں بعد ازا افطار چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسری جانب مصر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آسٹرونومیکل اینڈ جیو فزیکل ریسرچ کی جانب سے 29 مارچ کو کئی اسلامی ممالک میں شوال کا چاند نظر آنے کا امکان ظاہر کر دیا گیا۔ آج نیوز اور ایکسپریس نیوز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مصر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آسٹرونومیکل اینڈ جیو فزیکل ریسرچ کی جانب سے شوال کے چاند کی رویت سے متعلق ایک حیرت انگیز پیشن گوئی کی گئی ہے۔ مصر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آسٹرونومیکل اینڈ جیو فزیکل ریسرچ نے پیشگوئی کی ہے کہ دنیا کے تقریباً 30 شہروں میں 29 مارچ کو شوال کا چاند نظر آنے کا امکان ہے، جن میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، ریاض، انقرہ، تہران، مسقط، کراچی، لندن، ماسکو اور اوٹاوہ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ مصر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آسٹرونومیکل اینڈ جیو فزیکل ریسرچ نے 29 مارچ کو کراچی میں بھی شوال کا چاند نظر آنے کا امکان ظاہر کیا ہے، تاہم آج کراچی سمیت پاکستان بھر میں 28 رمضان المبارک ہے۔ جبکہ اماراتی فلکیاتی سوسائٹی کے چیئرمین ابراہیم الجروان کے مطابق عید الفطر 30 مارچ یا 31 مارچ کو ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 29 مارچ کو امارات کے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 2:58 بجے پر شوال کا چاند پیدا ہوگا، لیکن چونکہ سورج غروب ہونے تک چاند کی عمر صرف 3 گھنٹے ہوگی، اس لیے چاند دیکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو عید 31 مارچ کو منائی جائے گی۔ جبکہ پاکستان میں محکمہ موسمیات نے ناصرف عید الفطر کی ممکنہ تاریخ بلکہ شوال کے چاند کی پیدائش سے متعلق بھی پیشن گوئی کردی۔ محکمہ موسمیات کے ترجمان کے مطابق 30 مارچ اور29 رمضان کورویت ہلال کمیٹی کااجلاس ہوگا۔ اجلاس کے وقت چاند کی عمر27 گھنٹے ہوگی، ماہ شوال کا چاند بآسانی دیکھاجاسکےگا، غروب آفتاب اورغروب قمر کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے کا فرق ہے، چاند ایک گھنٹے تک دیکھا جا سکے گا۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا 30 مارچ کوچاند نظرآنے کی توقع ہے، یکم شوال 31 مارچ کوہوگی، ماہ شوال کےچاند کاحتمی اعلان مرکزی رویت ہلال کمیٹی کرے گی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی تاریخ کا باضابطہ اعلان برونائی دارالاسلام عید الفطر 31 مارچ کو ہونے کا اعلان میں عید الفطر آسٹریلیا میں اسلامی ممالک عید الفطر کی شوال کا چاند کی جانب سے کے چاند کی اعلان کیا ممالک میں کے مطابق شوال کے جائے گی مارچ کو کر دیا
پڑھیں:
قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان فہرست سے خارج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔
تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔
فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔
جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔
اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔
تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔
پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔