Juraat:
2025-11-03@14:26:21 GMT

خلوص اور محبت سے بھرے عید کارڈ سے واٹس ایپ تک

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

خلوص اور محبت سے بھرے عید کارڈ سے واٹس ایپ تک

مختار احمد(مسافر پاکستانی)

٭ ڈاکیے لوگوں کو خوشیوں کے پیغام پہنچا نے کے لئے نا صرف رمضان المبارک میں چو کس ہو تے تھے بلکہ عید الفطر کی چھٹی وا لے روز بھی عید کارڈ لوگوں تک پہنچا نے کے لئے سر گرم نظر آ تے تھے

٭زمانہ قدیم جوکہ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اسی لیے اس وقت چھپائی کے لیے انتہائی سادہ مشینیں ہوا کرتی تھیں جس سے چھاپے گئے کارڈ بھی بے رنگ اور سادہ ہوا کرتے تھے

٭ جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی مشینیں جدیدو رنگ دار ہوئیں تو ایسے ایسے دیدہ زیب عید کارڈز چھاپے جانے لگے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی

٭کیونکہ دور دراز رہنے والوں کو ایک دوسرے سے عید کی خوشیاں بانٹنے کے لیے کوئی دوسرا سہارا نہیں ہوا کرتا تھا لہٰذا عید کارڈز کی چھپائی نے ایک صنعت کا درجہ اختیار کر لیا تھا

٭ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی رنگین اور دیدہ زیب عید کارڈز کی پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا جاتا تھا جو کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے تک بدستور جاری رہتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب نہ مو با ئل ہو تے تھے اور نہ ہی واٹس ایپ ،وائی فا ئی ،فیس بک ،انسٹا گرام کی سہو لت حاصل تھی اور لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطوں کا انحصار صرف خط و کتا بت پر ہو تا تھا اور لوگ اپنے عزیز و اقا رب کے پیغامات کے لئے محکمہ ڈاک کے ڈاکیوں کا انتظار کر تے تھے جن کا سلسلہ گو کہ سال بھر جا ری رہتا تھا مگر عید الفطر کے موقع پر نا صرف ڈاکخانوں میں کام بڑھ جا تا بلکہ ڈاک بانٹنے والے ڈاکیوں کی بھی موجاں ہو جا تی تھیں۔ ڈاکیے لوگوں کو خوشیوں کے پیغام پہنچا نے کے لئے نا صرف رمضان المبارک میں چو کس ہو تے تھے بلکہ عید الفطر کی چھٹی وا لے روز بھی عید کارڈ لوگوں تک پہنچا نے کے لئے سر گرم نظر آ تے تھے۔

اب یہ تو کو ئی نہیں جانتا کہ عید کارڈ بھیجنے اور وصول کرنے کا رواج کب کہاں اور کیسے شروع ہوا لیکن اس بات کو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رواج چند برسوں کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اور عید کارڈ کو نہ صرف ماضی میں پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا بلکہ اسی کے ذریعے خوشیاں محبت اور پیار بانٹا جاتا تھا ۔زمانہ قدیم جوکہ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اسی لیے اس وقت چھپائی کے لیے انتہائی سادہ مشینیں ہوا کرتی تھیں جس سے چھاپے گئے کارڈ بھی بے رنگ اور سادہ ہوا کرتے تھے مگر اس پر لکھے گئے پیغام اور دعائیہ کلمات میں خلوص ،محبت اور پیار کی ایسی خوشبو ہوا کرتی تھی جوکہ فی زمانہ میسر نہیں ۔اس کے بعد جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی مشینیں جدیدو رنگ دار ہوئیں تو ایسے ایسے دیدہ زیب عید کارڈز چھاپے جانے لگے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔

اس زمانے میں کیونکہ دور دراز رہنے والوں کو ایک دوسرے سے عید کی خوشیاں بانٹنے کے لیے کوئی دوسرا سہارا نہیں ہوا کرتا تھا لہٰذا عید کارڈز کی چھپائی نے ایک صنعت کا درجہ اختیار کر لیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں کے روزگار وابستہ تھے جہاں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی رنگین اور دیدہ زیب عید کارڈز کی پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا جاتا تھا جو کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے تک بدستور جاری رہتا تھا اور پھر اس صنعت سے منسلک کارڈز فروخت کرنے والے چند سال قبل تک رمضان المبارک میں ہی دکانیں کرائے پر لے کر عید کارڈز کی فروخت شروع کر دیتے تھے یہاں تک کہ نوجوان اور بچے بھی رمضان المبارک اور عید کی خوشیاں بانٹنے کے لیے شہر بھر کی فٹ پاتھوں پر ،گلی کوچوں میں اسٹال سجاتے اور جہاں عید کے نئے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری سے قبل لوگ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو عید کارڈ بھیجنے کے لیے کارڈوں کی خریداری کرتے تھے ان عید کارڈوں میں زیادہ تر قرآنی آیات ،قومی ہیروز ،فلمی ہیروز اور ہیروئنز، کھلاڑیوں اور رنگ برنگے پھولوں سے مزین کارڈز جن پر عید مبا رک ،عید سعید مبا رک ،عید آئی خوشیاں لا ئی سمیت بزرگوں نو جوانوں اور بچوں کے لئے نا صرف علیحدہ علیحدہ پیغامات درج ہو تے بلکہ ان سے خلوص اور محبت کی خوشبو بھی آ تی تھی بڑے پیما نے پر فروخت ہوتے تھے جس سے نا صرف بچوں ،جوانوں اور بزرگوں کو رشتوں کا لحاظ کر تے ہو ئے ایک دوسرے کو پیغامات بھیجنے کا سلیقہ آ تا تھا بلکہ ان کے دلوں میں محبتوں کے ساتھ ساتھ رشتوں کا احترام بھی نظر آ تا تھا گو کہ یہ محبتوں سے مزین کا رڈ بھیجنے کا سلسلہ رمضان المبا رک کے پہلے عشرے سے ہی شروع ہو جا تا مگر رمضان کے آخری عشرے میں اس میں بے پناہ اضا فہ نظر آ تا تھا جس کے تحت دنیا بھر سے آ نے والے اور جا نے والے عید کارڈوں کی تعداد جو کہ لاکھوں میں ہوا کرتی تھی کی ڈیلیوری اور تقسیم کا مرحلہ شروع ہو جاتا تھا جس کے لیے پوسٹ آفس کو اپنے عملے سے ڈبل ڈیوٹی لینی پڑتی تھی ۔بسا اوقات پوسٹ آفس میں تین تین شفٹوں میں صرف عید کے کارڈز کو بھیجنے اور آنے والے کارڈوں کو تقسیم کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا تھا۔

اسی طرح کارڈ بیرون شہر سے آنے والے عید کارڈوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کم نہیں ہوتی تھی جس کے سبب پوسٹ مینوں کا کام میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا تھا اور پوسٹ مین انہیں دن اور رات میں تقسیم کرتے نظر آتے تھے مگر بہت سارے پوسٹ مین ایسے بھی ہوتے تھے جوکہ آنے والے عید کارڈز کو چھپا کر رکھ لیتے تھے اور عین عید والے روز انہیں گھر گھر تقسیم کر کے عیدیاں وصول کرتے اور لوگ انہیں بخوشی عیدی دیا کرتے تھے بلکہ اکثر گھروں میں محبت کا پیغام لے کر آنے والے ان پوسٹ مینوں کی سویوں اور کھانے پینے کی اشیاء سے تواضع بھی کی جاتی تھی پھرجب زمانے نے ترقی کی اور انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا، واٹس ایپ،فیس بک ،انسٹا گرام ،ایس ایم ایس کے ذریعے مہینوں کا سفر سیکنڈوں میں طے ہو نے لگا تو گویا تو لوگوں کی دنیا ہی بدل گئی اور انہوں نے عید کارڈ کی خریداری ہی چھوڑ دی جس کے پیش نظر نا صرف عید کارڈ چھاپنے والے پریس نے عید کارڈ چھاپنے بند کر دیے بلکہ وہ نوجوان جو کہ رمضان المبا رک کے با بر کت موقع پر ٹائم پاس کر نے اور عید کے خر چے نکالنے کے لئے شہر بھر میں جو عید کارڈوں کے اسٹال لگا یا کر تے تھے، انہوں نے بھی عید کارڈ کی خرید و فروخت میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی اپنا کاروبار تبدیل کر لیا جس کے سبب عید کارڈوں کے ذریعے شہر کے گلی ،کو چوں،محلوں اور شاپنگ سینٹر پر لگا ئے جا نے والے عید کارڈ کے اسٹال یکسر ختم ہو کر رہ گئے اور اس کی جگہ بزرگوں ،نو جوانوں اور بچوں نے جدید سہولیات کا سہا را لے کر بجا ئے اپنے عزیز و اقارب ،دوست احباب کو خوشیوں بھرے عید پیغامات بھیجنے کے صرف ہیلو ہا ئی پر اکتفا کر نا شروع کر دیا ہے جس میں نہ تو محبتیں ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ پہلے جیسا خلوص نظر آتا ہے جسے عموما لوگ وقت کی کمی قرار دیتے ہیں مگر یہ وقت کی کمی نہیں بلکہ رشتوں میں فاصلوں اور محبتوں کی کمی ہے جسے دور کر نے کے لئے ہمیں مل جل کر ایک بار پھر عید کارڈوں کے پرا نے اور فر سودہ نظام کو زندہ کر نا ہو گا جس سے نا صرف آپس میں پیار بڑھے گا بلکہ نوجوان ،بوڑھے اور بچے ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: دیدہ زیب عید کارڈز نے والے عید کارڈ پہنچا نے کے لئے رمضان المبارک عید کارڈز کی عید کارڈوں ایک دوسرے کارڈ بھی آنے والے کرتے تھے جاتا تھا نے اور تا تھا تے تھے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-3

 

پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • واٹس کا نیا اہم فیچر، صارفین فون نمبر کے بغیر کال کرسکیں گے
  • امریکی اداکارہ جینیفر اینسٹن کا انسٹاگرام پر نئے رشتے کا اعلان، نئی محبت کون ہے؟
  • سہیل آفریدی کا خیبر ٹیچنگ اسپتال میں صحت کارڈ بندش کا نوٹس
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • وزیراعلیٰ کے پی کا خیبر ٹیچنگ اسپتال میں صحت کارڈ کی بغیر اطلاع بندش کا نوٹس
  • خیبر پختونخوا نے رواں سال صحت کارڈ کیلئے 41 ارب مختص کیے، مزمل اسلم
  • ایپل واچ صارفین کیلیے خوشخبری:واٹس ایپ کا نیا ورژن آزمائشی مرحلے میں داخل
  • خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور میں صحت کارڈ پر مفت علاج معطل
  • بلوچستان اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کا صوبہ ہے ‘حافظ نعیم الرحمن
  • ایپل واچ کیلئے واٹس ایپ ورژن کی آزمائش