کابل کے سقوط کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کس طرح ایک بڑا سیکیورٹی خطرہ بن گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 1 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز) افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنی کارروائیوں اور تنظیمی ساخت میں اہم تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے سنگین سیکیورٹی چیلنج بن گئی۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) 2024 تک ایک انتہائی منظم اور مرکزی کمان کے تحت کام کرنے والی جنگجو تنظیم بن چکی ہے، جس میں 42 مختلف گروپوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
اس گروپ کی قیادت 2017 سے نور ولی محسود کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے اسے طالبان کے طرز پر ایک گورننس ماڈل میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں ”وزارتیں“، انتظامی صوبے (ولایات) اور ایک سخت ضابطہ اخلاق شامل ہیں تاکہ داخلی معاملات کو منظم کیا جا سکے۔

مالی وسائل اور فنڈنگ کا نظام

خفیہ رپورٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی کا مالی نظام بہت منظم ہے، جو غیر قانونی ذرائع جیسے بھتہ خوری (جو کہ کل آمدنی کا 5-20 فیصد تک ہو سکتا ہے)، اسمگلنگ اور اغوا سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے اندرونی مالی بدعنوانی کو روکنے کے لیے سخت ضابطہ نافذ کیا ہے، جس سے اس کے مالی وسائل مسلسل فراہم ہوتے رہتے ہیں۔

پروپیگنڈا میں تبدیلی

دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے پروپیگنڈہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے، جس میں اب محض جنگجوؤں کو ہیرو بنانے کی بجائے سماجی و سیاسی پیغامات کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
گروپ اب رسالوں، پوڈکاسٹ اور ویڈیو مواد تیار کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ عوامی شکایات کا فائدہ اٹھا کر خود کو پاکستانی حکومت کا متبادل ظاہر کرتا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد ٹی ٹی پی کے اثر و رسوخ اور بھرتی کی کوششوں کو بڑھانا ہے۔

افغان طالبان سے تعلقات اور سرحدی کارروائیاں

افغانستان میں طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد، انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی نے افغان علاقے کو اپنا آپریشنل بیس بناتے ہوئے پاکستان پر حملوں کو بڑھا دیا ہے۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹی ٹی پی کابل حکومت کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچتی ہے، تاہم افغانستان میں اس کی موجودگی خطے کی سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

امن مذاکرات کا ناکام ہونا اور بڑھتا ہوا تشدد

انسداد دہشت گردی کے حکام کا کہنا ہے کہ 2021-2022 کے دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات میں ناکامی کی بڑی وجہ گروپ کا ایف اے ٹی اے کی ضم ہونے کی مخالفت اور درانداز لائن (ڈیورنڈ لائن) کو مسترد کرنا تھا۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ناکامی کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

سیاسی اور نسلی تقسیم کا فائدہ اٹھانا

خفیہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پشتونوں کی شکایات، فوج کے خلاف بیانیہ اور سرحدی علاقوں میں معاشی مسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہے تاکہ مقامی حمایت حاصل کی جا سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹی ٹی پی علیحدگی پسند بیانیہ اختیار کرنے سے گریز کرتی ہے اور خود کو ایک متبادل حکومتی ماڈل کے طور پر پیش کرتی ہے۔

ایک مستقل سیکیورٹی چیلنج

دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باوجود، ٹی ٹی پی ابھی بھی ایک مضبوط اور مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، جو سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور کمزور سرحدی کنٹرول کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بنیادی وجوہات جیسے حکومتی ناکامیاں، حل طلب سرحدی مسائل اور سیاسی بیگانگی کو حل نہ کیا گیا تو یہ بغاوت مزید بڑھے گی، جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔

نتائج

ٹی ٹی پی کا مزید منظم اور سیاسی طور پر حکمت عملی اختیار کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کی مالی اور سیاسی استحکام، افغان طالبان سے تعلقات اور سرحدی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی کے بعد

پڑھیں:

ملک میں مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ

لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 اکتوبر 2025ء ) پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ، کئی عالمی کمپنیاں پاکستان سے نکلنے پر مجبور ہو چکیں، یہ واضح ثبوت ہے کہ ملک میں توانائی کے نرخ، ٹیکس بوجھ اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال بڑے مسائل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے برآمدات میں نمایاں کمی اور صنعتوں کی بندش پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کونسل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں برآمدات 3.83 فیصد کمی کے بعد 7.61 ارب ڈالر رہ گئی ہیں، جبکہ صرف ستمبر کے مہینے میں برآمدات میں 11.71 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جس کی مالیت 2.51 ارب ڈالر رہی۔

(جاری ہے)

پی ٹی سی کے مطابق اس سہ ماہی میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 9.37 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی بڑی وجہ درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ ہے، جو بیرونی کھاتوں پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال کے باعث گل احمد ٹیکسٹائل نے اپنے ایکسپورٹ اپیرل سیگمنٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے ہزاروں ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح کئی عالمی بڑی کمپنیاں بھی پاکستان سے نکلنے یا اپنے آپریشن محدود کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔

پروکٹر اینڈ گیمبل، مائیکروسافٹ، شیل سمیت دیگر اداروں کا انخلا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں توانائی کے نرخ، ٹیکس بوجھ اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال بڑے مسائل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے حکومت سے فوری اصلاحات پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ ہے۔

چیئرمین پی ٹی سی فواد انور نے کہا ہے کہ برآمدی صنعتوں کے لیے خطے کے مطابق توانائی کے نرخ فراہم کیے جائیں اور ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریفنڈ سسٹم کو بھی بہتر بنایا جائے تاکہ برآمدات کو سہارا دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی صورتحال میں مزید برآمدات کا سکڑنا ایک بڑا خدشہ ہے، جس سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کرک، کالعدم تنظیم کے اہم کارندے نے ریاست کے سامنے سرینڈر کردیا
  • پاکستان دشمنی میں بھارتی فوج نے سرحدی علاقے میں بکریوں کو ہلاک و زخمی کر دیا
  • بھارتی ایئر چیف کو 90 دن بعد پاکستان کے طیارے گرانے کا خیال آیا؟ سیکیورٹی ذرائع
  • سفری پابندی ختم؛ طالبان وزیر خارجہ آئندہ ہفتے بھارت کے دورے پر جائیں گے
  • سفری پابندی ختم؛ طالبان وزیر خارجہ آئندہ ہفتے بھارت کے دورے پر جائیں گے
  • کرک پولیس کی بڑی کامیابی، کالعدم تنظیم کے اہم کارندے نے ریاست کے سامنے سرینڈر کردیا
  • ملک میں مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ
  • افغان وزیر خارجہ پر سفری پابندی میں عارضی نرمی، بھارت کا ممکنہ دورہ اہم پیشرفت قرار
  • بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
  • افغانستان میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عاید نہیں‘ طالبان