بھارت؛ حیدرآباد میں جرمن خاتون سیاح کا کار کے اندر مبینہ ریپ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
حیدر آباد:
بھارت کے شہر حیدرآباد میں 22 سالہ جرمن خاتون سیاح کو کار کے اندر 24 سالہ شہری نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا تاہم پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ 22 سالہ جرمن سیاح کو 24 سالہ ملزم نے کار کے اندر ریپ کا نشانہ بنایا، جس کی کار کرایے پر لی گئی تھی تاہم ملزم کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ریپ کی دفعات عائد کردی گئی ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ واقعہ پہاڑی شریف کے علاقے میں مامیڈی پالی کے قریب پیش آیا اور جب جرمن سیاح ملزم کی کار میں سفر کر رہی تھیں اور عید کے دوران شہر دیکھنا چاہتی تھیں۔
پولیس کمشنر سدھیر بابو نے کہا کہ متاثرہ خاتون اور ایک آدمی اپنے دوست سے ملنے 4 جنوری کو جرمنی سے حیدرآباد پہنچے تھے، جنہوں نے ماضی میں ان کے ساتھ اٹلی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ خاتون اور جرمنی سے آیا ہوا اس کا دوست میرپت علاقے کی سیر کرنے گئے تھے اور وہ عید کی تقریبات دیکھنا چاہتے تھے اور اسی دوران ملزم کار میں 4 سے 5 بچوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور غیرملکیوں کو شہر کی سیر کروانے کی پیش کش کی اور وہ ان کے ساتھ گئے اور مختلف علاقوں کی سیر کی اور تصاویر بھی بنوائیں۔
پولیس افسر نے بتایا کہ جب خاتون کا مرد دوست بچے راستے میں تصاویر بنانے کے لیے اتر گئے اور جب وہ تھوڑی دور گئے تھے لیکن ملزم کار مزید دور لے گیا تاکہ ان کو اچھی جگہ دکھائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر ملزم نے خاتون کو دھمکایا اور مبینہ طور پر کار کے اندر ریپ کا نشانہ بنا کر وہاں سے فرار ہوگیا۔
سدھیر بابو کا کہنا تھا کہ خاتون نے اپنے جرمن دوست کو واقعے سے آگاہ کیا، جس کے بعد دونوں نےپولیس میں شکایت درج کرادی۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ملزم نے کار ایپ سروس سے کرائے پر لی ہوئی تھی اور بتایا تھا کہ وہ ان کے علاقے کے بچوں کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جانا چاہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم نے بچوں اور غیرملکی سیاحوں کے ساتھ مختلف علاقوں کی سیر کی اور ایک پیٹرول پمپ میں گئے اور وہاں سے ایک رسید بھی حاصل کی، جو پولیس کو ان کی گرفتاری کے لیے مدد گار ثابت ہوئی۔
سدھیر بابو نے بتایا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور تفتیش کی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے بتایا کہ کار کے اندر کے ساتھ کی سیر
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔