WE News:
2025-07-26@11:06:38 GMT

3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT

3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟

یورپ کے لوگ جو اپنی گوری رنگت کے سبب جانے جاتے ہیں ان میں سے زیادہ تر افراد کی جلد پہلے ایسی نہیں تھی جیسی کہ اب ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 3 ہزار سال پہلے یورپ کے زیادہ تر لوگوں کی سیاہ ہوا کرتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مونارک تتلیاں معدومیت کے دہانے پر، امریکا نے اہم قدم اٹھالیا

34 ممالک سے لیے گئے 348 جینیاتی نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ قدیم اور قدیم یورپ میں 63 فیصد افراد کی جلد سیاہ تھی۔ 29 فیصد کی جلد درمیانی تھی اور صرف 8 فیصد کی جلد گوری تھی۔

گوری جلد یورپ کے لوگوں کی حالیہ خصوصیت ہے۔ اگرچہ اس سے قبل ہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ براعظم میں بہت سے قدیم انسانوں کی جلد کی رنگت گہری تھی لیکن اس نئی تحقیق کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ سیاہ جلد بہت پہلے تک برقرار رہی ہوگی جس کے بارے میں پہلے خیال کیا جاتا تھا- سفید جلد صرف 3 ہزار سال پہلے نمایاں طور پر ابھرکر سامنے آئی تھی۔

زیادہ تر یورپی آئرن کے دور میں سیاہ رنگت کے حامل تھے۔

سائنسی اتفاق رائے طویل عرصے سے یہ رہا ہے کہ پہلے انسان افریقا میں ابھرے اور پھر آہستہ آہستہ وہاں سے باقی دنیا میں پھیل گئے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جب یہ قدیم انسان شمالی علاقوں میں آباد ہوئے تھے- تو کیا ہوا؟

سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ جلد، آنکھیں اور بالوں کو ہلکا کرنے والے جینز تقریبا 14 ہزار سال پہلے شروع ہونے والے ابتدائی یورپی باشندوں میں پیلیولیتھک دور یا ’اولڈ اسٹون ایج‘ کے آخری مراحل میں نمودار ہوئے تھے۔ لیکن بائیو ریکسیو میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں مغربی یورپ اور ایشیا کے 34 ممالک کے آثار قدیمہ کے مقامات سے قدیم ڈی این اے کے 348 نمونوں کا تجزیہ کیا گیا اور پایا گیا کہ ہلکی رنگت کی نشاندہی کرنے والے یہ جین صرف 3 ہزار سال پہلے تک نسبتاً معمولی تھے۔

تانبے کے دور (تقریباً 5 ہزار سال پہلے) اور آئرن ایج (تقریباً 3 ہزار سال پہلے کے درمیان پیدا ہونے والے نمونوں کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ صرف آدھے لوگوں کی جلد ہلکی یا پیلی تھی اور کچھ علاقوں میں سیاہ رنگت حال ہی تک زیادہ نمایاں تھی.

قدیم یورپ میں جلد کی رنگت کیسے اور کیوں تبدیل ہوئی؟

جینیاتی طور پر انسانوں کی جلد ہلکی ہونے کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ ان نئے علاقوں میں الٹرا وائلٹ (یو وی) روشنی کی مقدار ان کو مل رہی تھی۔ زیادہ شمالی علاقوں میں یو وی روشنی کی کم نمائش کے ساتھ ، انسانوں نے پتلی جلد کو اپنایا جو وٹامن ڈی پیدا کرنے کے لیے یو وی روشنی کو بہتر طریقے سے جذب کرسکتا ہے۔

لیکن یہ تاریخی ٹائم لائن میں پہلے سے کہیں زیادہ بعد میں ہوا جس سے پتا چلتا ہے کہ کھیل میں اضافی عوامل تھے، جیسے کہ غذا۔

مزید پڑھیے: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

مطالعے میں اس نظریے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی معاشروں کے آباد ہونے اور زراعت پر توجہ مرکوز کرنے سے پہلے وہ زیادہ غذائیں کھا رہے تھے جن میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ تھی۔ انسانی غذا آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی گئی تاہم جلد کے ذریعے اس کی ترکیب کرنا جینیاتی طور پر زیادہ فائدہ مند ہوگیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی وقت میں نہیں ہوا تھا.

محققین نے نئی تحقیق میں لکھا ہے کہ ہلکی رنگت کی طرف منتقلی وقت اور جگہ کے لحاظ سے لکیری اور توقع سے زیادہ سست ثابت ہوئی۔

جنسی انتخاب اور جینیاتی بہاؤ جیسے اضافی عوامل نے بھی وقت کے ساتھ جلد کی رنگت کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا یہ بتدریج تبدیلیاں چیڈر مین جیسی دریافتوں کی وضاحت کرنے میں مدد کرتی ہیں جو 10،000 سال پہلے برطانیہ میں رہنے والا سیاہ جلد، نیلی آنکھوں والا شخص تھا۔ سنہ 1903 میں جب وہ پہلی بار گف کے غار میں پایا گیا تو محققین کا خیال تھا کہ اس کے بال سفید، ہلکی آنکھیں اور پتلی جلد ہے، صرف اس بنیاد پر کہ وہ یورپی ہے۔ تاہم 2018 کے ڈی این اے تجزیے میں اس کے برعکس پایا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان کی جلد سیاہ تھی۔ تحقیق میں ایک اور پیچیدہ عنصر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ یورپی نینڈرتھل میں ہلکی جلد ابتدائی انسانوں کے آنے سے پہلے ہی موجود ہو سکتی تھی، جسے قدیم یورپ کی باقیات کی بنیاد پر چہرے کی متعدد تعمیر نو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پیلی خصوصیات کی جینیاتی نشوونما پچھلی تحقیق سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

دریں اثنا وٹامن ڈی جذب سے متعلق جینیاتی فائدہ اس بتدریج تبدیلی کی واحد وجہ نہیں تھی. کچھ خصوصیات جیسے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں ممکنہ طور پر دیگر عوامل جیسے جنسی انتخاب اور جینیاتی بہاؤ کی وجہ سے ابھرکر سامنے آئیں۔

مجموعی طور پر نتائج سے پتا چلتا ہے کہ قدیم یورپیوں نے افریقا سے آنے کے بعد تیزی سے ہلکی خصوصیات تیار نہیں کیں، جیسا کہ پہلے سوچا گیا تھا، بلکہ یہ تبدیلیاں کئی مختلف عوامل کی وجہ سے ہزاروں سالوں میں آہستہ آہستہ ہوئیں اور صرف نیولیتھک دور سے زیادہ وقت لگا۔

مزید پڑھیں: امریکی شخص نے رنگارنگ اینٹوں کا ذخیرہ کرکے عالمی ریکارڈ قائم کردیا

اگرچہ ان نتائج کا ابھی جائزہ لیا جانا باقی ہے اور اس سے کہیں زیادہ بڑی تصویر کے صرف ایک حصے کی وضاحت کی گئی ہے لیکن وہ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ انسانی ارتقا کتنا پیچیدہ تھا۔ یہاں تک کہ صرف 3 ہزار سال پہلے کے حالیہ ادوار کے بارے میں بھی ہم ابھی تک کتنا سمجھنے سے قاصر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قدیم انسان قدیم یورپ قدیم یورپین افراد کی رنگت

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: قدیم یورپ ہزار سال پہلے علاقوں میں قدیم یورپ رنگت کی کی رنگت کی جلد یہ بھی

پڑھیں:

غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے

وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔

مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔

تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔

یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔

قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔

حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔

 اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔

غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔

انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔

اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔

مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔

مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔

اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔

 علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔

آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟

’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • سینئر اداکار عاصم بخاری کو دل کا دورہ پڑگیا، اب حالت کیسی ہے؟ 
  • آمریت کے مقابلے میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری، یو این چیف
  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • دنیا میں استحکام کیلئے چین اور یورپی یونین کے تعلقات ناگزیر ہیں، چینی صدر
  • یورپی یونین کی سفیر کی وزیراعظم سے الوداعی ملاقات
  • ناروے اسٹوڈنٹ ویزا اپلائی کرنا اب پہلے سے کہیں زیادہ آسان
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان سفارتی تعلقات میں وافر ثمرات حاصل ہوئے ہیں، چینی صدر
  • یورپی یونین اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کے پچاس برس
  • چین اور یورپی یونین نے نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے ہیں، چینی صدر
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا