ٹرمپ کی ایران کو دھمکی، تین عرب ممالک کا امریکہ کے ساتھ تعاون سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب، قطر اور کویت نے ایران کیخلاف فوجی کارروائیوں کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد خفیہ طور پر تہران سے رابطہ کیا اور یقین دلایا کہ وہ امریکی فوج کے ساتھ تعاون نہیں کرینگے۔ اسلام ٹائمز۔ تین عرب ممالک نے ایران پر ممکنہ حملے کیلئے امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کر دیا ہے۔ العالم کے مطابق ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب، قطر اور کویت نے ایران کیخلاف فوجی کارروائیوں کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد خفیہ طور پر تہران سے رابطہ کیا اور یقین دلایا کہ وہ امریکی فوج کے ساتھ تعاون نہیں کرینگے۔ رپورٹ کے مطابق ان تینوں ممالک نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ وہ امریکی افواج کو ایران کیخلاف ممکنہ حملے کیلئے اپنے اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا ٹرمپ کے دباؤ کے درمیان عرب ممالک خاموشی سے ایران کی حمایت کر رہے ہیں؟ خیال رہے کہ ٹرمپ نے ایران کیخلاف دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران نے ان کے خط پر عمل نہیں کیا تو ایسی بمباری کی جائے گی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے ٹرمپ کی دھمکی پر کہا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل نے کوئی شرارت کی تو انہیں سخت جواب دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کیخلاف ایران کی نے ایران کے ساتھ
پڑھیں:
بمبار بمقابلہ فائٹر جیٹ؛ اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل بمبار میں کیا فرق ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے دوران امریکا کے بی-2 اسٹیلتھ بمبار کے استعمال سے دنیا میں بمبار سسٹم کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور رپورٹس کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک جدید بمبار سسٹمز کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکا کا بی-2 بمبار اپنی ہیبت اور جدت کے اعتبار سے دنیا کا خطرناک ترین بمبار مانا جاتا ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر 13.6 ٹن جی بی یو-57 مواد گرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران کا انتہائی محفوظ تصور کیا جانا والا جوہری مرکز فردو کو تباہ کردیا ہے جبکہ ایران نے اس کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی تھی۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد متعدد ممالک کی جانب سے جدید بمبار طیاروں کے حصول کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن فائٹر جیٹ اور طویل رینج کا ٹیکٹیکل یا اسٹریٹجک بمبار میں کیا فرق ہے؟ آئیے جانتے ہیں؛
فائٹر جیٹس اور بمبار کو مختلف مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے، فائٹر جیٹس بنیادی طور پر فضائی بالادستی، فضا سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے اور فوجی بیسز، زیرزمین بنکرز اور کمانڈ سینٹرز اور بحری اہداف تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
دوسری جانب فائٹر جیٹ کا بنیادی مقصد دشمن کے جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے، اپنی فضائی حدود کے دفاع اور فضائی بالادستی قائم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فائٹر جیٹس عام طور پر بمبار طیاروں سے تیز رفتار ہوتے ہیں اور ساتھ ہی جوہری اور روایتی ہتھیاروں پر مشتمل میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں اور سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر دور دشمن کے اہداف پر حملے کرسکتے ہیں۔
اسی طرح بمبار طیارے قدرے سست ہوتے ہیں ایک پرواز میں 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک پرواز کرسکتے ہیں۔
گوکہ اسٹریٹجک یا ٹیکٹیکل بمبار کے ڈیزائن اور آرکیٹکچر میں بنیادی طور پر بڑا فرق نہیں ہوتا بلکہ اصل فرق دونوں بمبار طیاروں میں ہتھیار لے جانے کی صلاحیت ہے کیونکہ اسٹریٹجک بمبار روایتی مواد لے جاتا ہے جیسا کہ ہیوی بم وغیرہ۔
دوسری طرف ٹیکٹیکل بمبار جوہری بمبار گرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بمبار دونوں روایتی اور ٹیکٹیکل جوہری بم گرانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے تین ممالک امریکا، روس اور چین کے پاس جدید بمبار طیارے ہیں اور اس کی وجہ جدید بمبار طیاروں پر ہونے والے اخراجات ہیں، اسی لیے یہ تین ممالک تک محدود ہے۔
مزید بتایا گیا کہ امریکا کے پاس بی-2 اسپرٹ اور بی-21 ریڈر، روس کے پاس ٹی یو-160 جیسے جدید بمبار ہیں اور چین کے پاس ایچ-20 بمبار ہیں۔