Express News:
2025-07-26@07:10:50 GMT

قومی اعزازات

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

لگتا ہے کہ ہم نے تہیّہ کرلیا ہے کہ ہر شعبے کو بے انصافی اور اقرباء پروری کے کانٹوں سے اس طرح بھر دینا ہے کہ عوام کا اعتماد اٹھ جائے۔ بددیانتی یا کرپشن صرف پیسے لینے کا نام نہیں، کوئی عہدہ یا اعزاز غیر مستحق افراد میں بانٹ دینا بھی بددیانتی ہے۔

خالقِ کائنات کا واضح حکم ہے کہ "امانتیں انھیں سونپو جو اس کے حقدار ہیں" یہاں امانتوں سے مراد حکومتی عہدہ یا ذمّے داری بھی ہے اور انعام اور اعزاز بھی۔ اس بار جو ایوارڈ دیے گئے ان میں سب سے زیادہ تنقید سرکاری افسروں اور حکومت کے حمایتی لکھاریوں کو ایوارڈ دینے پر ہو رہی ہے۔

ملک کے پڑھے لکھے افراد اور دانشور بجا طور پر سوال کررہے ہیں کہ ہر سرکاری محکمہ زوال پذیر ہو اور کارکردگی گراوٹ کا شکار ہو تو پھر انھی محکموں کے سربراہوں کو کونسی "اعلیٰ کارکردگی" پرسب سے بڑے ایوارڈ دیے گئے ہیں؟ اقرباء پروری اور بری گورننس کی مثالیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اسی سوچ اور طرزِ عمل نے ہمارے ملک کو زوال سے دوچار کیا ہے۔

ایک بار مجھے بھی ایوارڈ ملا تھا۔ اس کی روداد بھی سن لیجیے۔ 2008میں شہبازشریف صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو انھوں نے مجھے گوجرانوالہ تعیّنات کردیا۔ میں اپنے ہوم ڈسٹرکٹ میں تعینات نہیں ہونا چاہتا تھا مگر انھوں نے کہا کہ وہاں خطرناک ڈاکوؤں اور اغواکاروں کی حکمرانی قائم ہوچکی اور عوام کی جانیں اور مال محفوظ نہیں ہیں اس لیے آپ کو وہاں بھیجا جارہا ہے۔ جو کچھ سنا تھا، آکر دیکھا تو حالات اس سے زیادہ ابتر تھے، اغواء برائے تاوان ایک انڈسٹری بن چکا تھا، ہر کھاتے پیتے شخص کو بھتّے کی پرچی موصول ہوتی، اگر وہ بھتّہ دینے میں تاخیر کرتا تو اس کے گھر پر فائرنگ ہوتی۔ ہر شخص خوفزدہ تھا، نہ بچے محفوظ تھے نہ طالبات اور نہ ٹیچرز۔ صنعتکار، بڑے دکاندار اور ڈاکٹر ہر روز اغواء ہوتے تھے۔ بہت سے صنعتکار اپنی ملیں بیچ کر باہر چلے گئے تھے اور کچھ جا رہے تھے۔

بلاشبہ پورے علاقے پر خطرناک ترین ڈاکوؤں اور اغواکاروں کے منظّم گروہوں کی حکمرانی تھی۔ ان حالات میں مجھے پولیس کی کمان سونپی گئی۔ میں نے رزقِ حلال کھانے والے جرأتمند افسروں پر مشتمل ٹیم تیار کی اور پھر اس ٹیم پر واضح کیا کہ اس ملک کا ایک بھی شہری عدمِ تحفّظ کی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلا گیا تو اس کے ذمّے دار ہم ہوں گے اور ہمیں قومی مجرم کے طور پر یاد کیا جائے گا" تمام افسران ایک قومی جذبے کے تحت میدان میں اترے اور اس ٹیم نے چار بانچ مہینوں میں سنگین جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور گوجرانوالہ ڈویژن کو امن کا گہوارہ بنادیا۔ عام لوگ خود آکر بتانے لگے کہ ڈاکے اور اغواء ختم ہوگئے ہیں۔ گلی محلوں کے غنڈے بھی غائب ہوگئے ہیں، اسکول یا کالج جانے والی طالبات اور ٹیچرز پر کوئی آوازے کسنے کی جرأت نہیں کرتا، اب کسی کا بچہ اغواء نہیں ہوتا اور کسی کو بھتّے کی پرچی نہیں آتی، حتٰی کہ دیہاتوں میں چارے کی چوری ختم ہوگئی ہے۔

" میری تعیناتی کے ایک سال بعد وزیرِاعلیٰ شہبازشریف گوجرانوالہ آئے تو وہاں ممبرانِ اسمبلی کے علاوہ بزنس انڈسٹری کے نمایندوں، وکلاء، خواتین اور نوجوانوں کے وفود سے علیحدہ علیحدہ ملے، ہر جگہ لوگوں نے دل سے پولیس کے لیے محبّت اور ستائش کا اظہار کیا۔ ہر طبقۂ فکر کے لوگ تحفظ اور انصاف ملنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ وزیرِاعلیٰ کے منہ سے جونہی پولیس کا نام نکلتا تو لوگ تالیاں بجانا شروع کردیتے آخر میں چیف منسٹر نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ "میں یہاں حیرت انگیز انقلاب دیکھ رہا ہوں کہ پولیس کے لیے گالیوں کی جگہ تالیوں نے لی ہے" وزیراعلیٰ کے دورے کے آخر میں اُس وقت کے آئی جی شوکت جاوید صاحب نے کہا کہ ہم نے اس قابلِ فخر کارنامے پر ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کو ستارۂ امتیاز دینے کی سفارش کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا "He deserves the highest award" (ڈی آئی جی سب سے بڑے ایوارڈ کا مستحق ہے) کیا۔ چند روز بعد تحریری طور پر بھی یہ سفارش کیبنٹ ڈویژن کو بھیج دی گئی۔ بہرحال میں وہ ایوارڈ لینے ہی نہیں گیا نہ مجھے کوئی دلچسپی تھی۔ 23 مارچ کو ایوارڈ وصول کرنے والے ہی بتاسکتے ہیں کہ انھوں نے کون سے کارنامے سرانجام دیے جس سے عوام بالکل باخبر رہے۔

2012میں شیخوپورہ کو وزیرستان کہا جانے لگا تھا، وہاں بھی خطرناک ترین مجرموں کی حکمرانی قائم تھی، لوگ دن کے وقت اغواء کرلیے جاتے یا ان کی گاڑیاں چھین لی جاتیں۔ انھوں نے سڑک پر بورڈ لگا رکھے تھے "پولیس کا داخلہ منع ہے" ان حالات میں وزیرِاعلیٰ نے اصرار کرکے مجھے شیخوپورہ کی کمان دی۔ اللہ کے فضل وکرم سے دو مہینوں میں ہی شیخوپورہ کا امن بحال ہوا اور لوگ بے خوف ہو کر سفر اور کاروبار کرنے لگے اور خواتین اپنے بچّوں سمیت رات کو بھی پارکوں میں سیر کے لیے جانے لگیں۔ انھی دنوں ایک روز سابق گورنر غلام مصطفٰے کھر صاحب کا فون آیا، کہنے لگے "چیمہ صاحب! میں آپ کو نہیں جانتا مگر آپ نے امن بحال کرنے اور اسلحے پر پابندی لگانے کا جو حیرت انگیز کام کردیا ہے وہ ساٹھ سالوں میں نہیں ہوسکا۔ آپ اس علاقے کے محسن ہیں اور آپ کے اس کارنامے کو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے‘‘۔

2012-13میں ملک کا ایک اہم اور حساس محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ شدید بحران کا شکار ہوگیا۔ آٹھ لاکھ درخواست گذار چھ سے آٹھ مہینوں سے مارے مارے پھر رہے تھے مگر انھیں پاسپورٹ نہیں مل رہے تھے، اوورسیز پاکستانیوں نے کئی جگہوں پر پاکستانی سفارتخانوں کا گھیراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ عالمی میڈیا کی منفی رپورٹنگ سے ملک کی ساکھ اور امیج بری طرح مجروح ہورہے تھے۔ اس سنگین قومی بحران کو حل کرنے کے لیے 2013میں قائم ہونے والی نگران حکومت نے مجھے خصوصی طور پر بلایا اور پاسپورٹ کے محکمے کا سربراہ مقرر کردیا۔

اللہ کی خاص مدد سے اور محکمے کے نوجوان ورکروں کے مشنری جذبے کے ساتھ کی گئی دن رات کی محنت کے نتیجے پر صرف تین مہینوں میں اس بحران پر قابو پالیا گیا، جس سے ملک کے لاکھوں گھرانے متاثر ہورہے تھے اور جو ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا تھا۔ اس بحران پر قابو پانے پر ہر طرف سے تعریف وتحسین کی گئی مگر ہمارے لیے یہی بات خوشی اور فخر کا موجب تھی کہ ہمارے ہاتھوں ایک قومی بحران پر قابو پالیا گیا اور ایک ڈوبا ہوا اہم قومی ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔

اس سے اگلے سال ایوارڈ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو ممبران کی اکثریت نے کہا کہ "موٹروے پولیس اور سکل ڈویلپمنٹ کی کامیابیاں بھی غیر معمولی ہیں مگر صرف پاسپورٹ بحران پر قابو پالینا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ ذوالفقار چیمہ کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جانا چاہیے" بہرحال پوری سروس کی کامیابیاں ملا کر مجھے ستارۂ امتیاز دیا گیا، ایوانِ صدر میں پہنچا تو وہاں اُس وقت کے کیبنٹ سیکریٹری بھی شیروانی پہنے ہوئے نظر آئے، وہ بھی ایوارڈ لینے آئے تھے،مجھے دیکھ کر تھوڑا سا جھینپے مگر چونکہ صاف گو انسان تھے اس لیے کہنے لگے "مجھے تو آپ کی وجہ سے ایوارڈ مل رہا ہے۔

میرے کولیگز نے کہا کہ اگر پولیس افسر کو ایوارڈ مل رہا ہے تو ایک ڈی ایم جی کے افسر کو بھی ضرور ملنا چاہیے" مجید نظامی صحافت کا سب سے معتبر نام تھا، نظامی صاحب کو شعبۂ صحافت میں اور ملکۂ ترّنم نورجہاں کو شعبۂ موسیقی میں ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔ کیا 23 مارچ کو ہلالِ امتیاز کی ریوڑیاں اُچکنے والوں کا اپنے اپنے شعبے میں وہی مقام ہے جو صحافت میں مجید نظامی اور موسیقی میں نورجہاں کا تھا؟ حکمرانوں نے اپنے چہیتوں کو نوازنا ہو تو انھیں اپنی جیب سے کیش دے دیا کریں، مگر قومی ایوارڈز کو بے توقیر نہ کریں۔

ایوارڈ کمیٹی، بیوروکریٹوں کے بجائے پروفیشنلز اور مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہونی چاہیے۔ عمران خان کی حکومت میں بھی "پیاروں" کو ایوارڈز سے نوازا گیا تھا‘ اور اِس بار بھی میرٹ اور انصاف کو روند ڈالا گیا ہے، اب اس ایوارڈ کا حامل ہونا باعثِ عزّت نہیں رہا لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنا ایوارڈ واپس کردوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کو ایوارڈ نے کہا کہ انھوں نے رہے تھے کے لیے

پڑھیں:

جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟

اداکارہ علیزہ شاہ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں کیونکہ وہ اُن تمام سینیئر فنکاروں کو بے نقاب کر رہی ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔

علیزہ نے شازیہ منظور، جگن کاظم اور یاسر نواز جیسے سینیئرز کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی انہوں نے منسا ملک کے ساتھ پیش آنے والے ایک جھگڑے کا بھی ذکر کیا، جس میں علیزہ نے ایک سین میں منسا کو دھکا دیا اور تھپڑ مارا۔

اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں علیزہ نے جگن کاظم پر گرتی ہوئی اداکاری کی نقل اُتارنے کا الزام بھی لگایا۔

جگن کاظم کی معذرت

اس تنقید کے بعد سینیئر اینکر اور میزبان جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی مانگی۔ انہوں نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی۔

ویڈیو میں جگن کاظم نے کہا کہ ’میں براہِ راست علیزہ بیٹا سے مخاطب ہوں۔ میں تمہیں بیٹا اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ تم میرے بیٹے کی عمر کی ہو۔ اگر میری کسی بات سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔

View this post on Instagram

A post shared by Social Diary Magazine Official (@socialdiarymag)

 

جگن کاظم نے کہا کہ علیزہ، مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ وہ ویڈیو تمہیں ناگوار گزری۔ تم نے کہا کہ تم مجھے عزت دیا کرتی تھیں، یہ بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔

جگن کاظم کا کہنا تھا کہ بحیثیت سینیئر مجھے تمہارے لیے ایک مثالی شخصیت ہونا چاہیے تھا، میں کبھی بھی کسی نوجوان پر برا اثر ڈالنا نہیں چاہتی۔ میں تم سے دل سے معافی مانگتی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ویڈیو 4 سال پرانی تھی اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا معاملہ بن جائے گا، لیکن اب میں سمجھ گئی ہوں کہ یہ اہم تھا۔ تم مجھے میسج کر دیتیں تو میں فوراً معذرت کر لیتی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی کوئی غلطی کرتی ہوں، فوراً معافی مانگ لیتی ہوں، چاہے وہ میرے اہلِ خانہ ہوں یا دوست۔ مجھے واقعی نہیں معلوم تھا کہ تمہیں دکھ پہنچا ہے یا لوگ تمہیں ٹرول کر رہے ہیں۔

جگن کاظم نے کہا کہ میں سب کی طرف سے معذرت کرتی ہوں جو اس میں شامل تھے۔ اب جب مجھے یہ ویڈیو بنانے کا موقع ملا تو میں نے ضروری سمجھا کہ معذرت کروں۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ تم نے یہ معاملہ عوامی سطح پر اٹھایا ہے، اس لیے میں بھی عوامی طور پر معذرت کر رہی ہوں۔ جب میں انڈسٹری میں آئی تھی تو میرے ساتھ بھی بُرا سلوک ہوا تھا، اس لیے مجھے تمہاری کیفیت کا بخوبی اندازہ ہے۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور شوبز انڈسٹری میں ہمدردی، معافی اور رویے کی سنجیدگی سے متعلق ایک نئی بحث کا آغاز کر چکی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
  • ایف بی آر کی بدانتظامی سے قومی خزانے کو 397ارب کے نقصان کا انکشاف
  • ’مجھے فرق نہیں پڑتا‘، عمرہ وی لاگنگ پر تنقید کرنے والوں کو ربیکا خان کا جواب
  • مجھے تینوں بڑی جماعتوں نے آفر دی تھی، مگر میں نے جے یو آئی کا انتخاب کیا، فرخ خان کھوکھر
  • علم ہی نہیں تھا کہ شاہ رخ خان کے ساتھ پرفارم کرنا ہے، ہمایوں سعید نے یادگار واقعہ سنا دیا
  • شاہ رُخ اور پریتی کیساتھ ڈانس پرفارمنس، ہمایوں سعید نے یادگار قصہ سُنا دیا
  • مجھے فی الحال تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں، مجھے 5 اگست کی تحریک کا مومینٹم نظر نہیں آرہا :عمران خان
  • اداکارہ علیزے شاہ نے شوبز کو خیرباد کہہ دیا؟