رائٹس ایکٹوسٹس کی حالیہ گرفتاریوں کے خلاف بی این پی کا احتجاج چھٹے روز میں داخل ، بلوچستان میںوائی فائی پھر بند، حکومتی وفد اور سردار اختر مینگل کے درمیان بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا
ہمارے جائز مطالبات پر مذاکرات کے لیے کل جو حکومتی وفد آیا تھا، ان کے پاس آزادانہ بات کرنے کا اختیار نہیں تھا، وہ ’پیغام رساں‘ تھے اور ان کے پاس کوئی پاور نہیں تھی، اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل آج (جمعرات) کو احتجاج کے اگلے مرحلے کا اعلان کریں گے جبکہ رائٹس ایکٹوسٹس کی حالیہ گرفتاریوں کے خلاف ان کا احتجاج چھٹے روز میں داخل ہو گیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز حکومتی وفد اور سردار اختر مینگل کے درمیان بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔سردار اختر مینگل نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دھرنے پر پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف وڈھ سے کوئٹہ تک ’لانگ مارچ‘ کا اعلان کیا تھا۔دھرنا اس وقت لک پاس پر جاری ہے ، جہاں ظہور احمد بلیدی، بخت محمد کاکڑ اور سردار نور احمد بنگلزئی پر مشتمل صوبائی حکومت کا وفد بی این پی-مینگل کے سربراہ سے مذاکرات کے لیے پہنچا تھا، لیکن انہیں دھرنا ختم کرنے پر راضی نہ کر سکا تھا۔آج سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ 3 اپریل ( جمعرات) کو شام 5 بجے نئے احتجاجی سلسلے کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جائز مطالبات پر مذاکرات کے لیے کل جو حکومتی وفد آیا تھا، ان کے پاس آزادانہ بات کرنے کا اختیار نہیں تھا، مزید کہنا تھا کہ وہ ’پیغام رساں‘ اور ان کے پاس کوئی پاور نہیں تھی، جو ‘ان لوگوں کے پاس ہے جو اس صوبے کو حقیقی معنوں میں کنٹرول کرتے ہیں‘۔سربراہ بی این پی مینگل کا کہنا تھا کہ ہم 3 اپریل 2025 کو احتجاج کے اگلے مرحلے کا اعلان کریں گے ، مزید کہا کہ اگر انہیں (حکومت) یقین ہے کہ وہ ان مذاکرات سے ہماری توجہ ہٹا سکتے ہیں، تو یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر غلط اندازہ لگایا ہے۔ ایک علیحدہ پوسٹ میں سردار اختر مینگل نے لکھا کہ پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کا ’بلیک آؤٹ‘ ہو چکا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کل رات سے بلوچستان میں تمام سیلولر نیٹ ورکس اور وائی فائی بند کر دیے گئے ، اس بلیک آؤٹ کا واحد مقصد مظلوموں کی آواز کو خاموش کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سینئر اراکین دھرنے میں شامل ہونے جا رہے تھے ، لیکن ان کو منزل تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ خندقیں کھودی گئی ہیں، مزید کنٹینر رکھے گئے اور فورسز کے اضافی دستے تعینات کر دیے گئے ، حکومت اپنے داغ دھونے کے لیے جو بھی کوشش کرتی ہے وہ اسے مزید داغدار کر دیتی ہے ۔ واضح رہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے جمعہ کی صبح تقریباً 9 بجے سردار اختر مینگل کے آبائی قصبے وڈھ سے کوئٹہ کے لیے مارچ شروع کیا تھا۔26 مارچ کو بی این پی۔مینگل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے 250 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا، جبکہ مارچ کے شرکا مستونگ کے قریب پہنچے تھے تو ایک خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا تھا، تاہم سردار اختر مینگل اور دیگر محفوظ رہے تھے ۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے، 4، 5 گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر رہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں، ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا، مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ملاقات ہونے سے کلیئرٹی ہوتی ہے، یہ لوگ کلیئرٹی نہیں چاہتے، سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئیں، یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، ملاقات نہیں دیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں، میں چاہوں تو جیل جاسکتا ہوں لیکن جیل توڑنے سے کیا ہوگا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پہاڑی تودے اور مٹی آئی تھی، بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا، ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے، متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے، ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، صوبے میں فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں لیکن کوئی خاطرخواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانا چاہیے تھی ،نہیں نبھائی، میں اس پر سیاست نہیں کرتا، ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھےاس لیے ملنے نہیں دے رہے ان کا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں، حکومت کی میں بات ہی نہیں کرتا، کیا آپ کو لگتا ہے یہ شہباز شریف کی یا مریم کی حکومت ہے، حکومت تو ان کی ہے نہیں۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ 4 اکتوبر کو بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا سب نے آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا اور 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کرکے واپس لوٹا تھا، 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کرکے گولیاں چلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت سیلاب سے نمٹنے کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے، سردار سلیم حیدر خان
  • ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے . جسٹس محسن اختر کیانی
  • شوبز انڈسٹری بدل گئی ہے، اب ڈرامے بنا کر خود کو لانچ کیا جارہا ہے، غزالہ جاوید کا انکشاف
  • لکسمبرگ کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • حب چوکی پر بس سے اسمگل شدہ سامان نکل آیا، ضبط کرنے پر ٹرانسپورٹرز کا احتجاج، کسٹم کی ہوائی فائرنگ
  • 26 نومبر احتجاج کیس،عامرکیانی ، عمران اسماعیل کی بریت درخواستوں پر سرکار کو نوٹس
  • ایشیا کپ، اگلے چند گھنٹوں میں پی سی بی اپنا مؤقف دے گا
  • خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی نجکاری اور پنشن اصلاحات کیخلاف ملازمین کا سڑکوں پر آنے کا عندیہ
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
  • مالدیپ کا پارلیمانی وفد اسپیکر عوامی مجلس کی قیادت میں پاکستان پہنچے گا