تمام آبادی کا علاج نہیں کرسکتے ٹیلی میڈیسن پرجانا چاہیے، مصطفیٰ کمال
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
وفاقی وزیرصحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ تمام آبادی کا علاج نہیں کرسکتے جدید دنیا کو سامنے رکھ کر ٹیلی میڈیسن پر جانا چاہیے۔
اسلام آباد میں پمز اسپتال کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیرصحت مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ بنیادی مرکز صحت نہ ہونے کے باعث لوگ بڑے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ گھر کی دہلیز پر دوا اور ڈاکٹر مہیا کرنا ہے۔ تمام آبادی کا علاج نہیں کرسکتے جدید دنیا کو سامنے رکھ کر ٹیلی میڈیسن پرجانا چاہیے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 2.
مزید پڑھیں: اصل مسئلہ ملکی معیشت کے خراب ہونے کا ہے مصطفی کمال
وفاقی وزیر صحت کا مزید کہنا تھا کہ صحت کا شعبہ اللہ کی مخلوق سے منسلک ہے۔ انسان جب تکلیف میں ہوتا ہے تو اسپتالوں کی طرف آتا ہے۔ غریب سرکاری اسپتالوں میں آتا ہے جبکہ امیر پرائیوٹ اسپتال جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب پمز کے دورے میں مریضوں نے وزیر صحت کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ ایک مریض نے کا کہنا تھا کہ یہاں میڈیسن نہیں مل رہی اور بیڈ میسر نہیں ہیں۔ گزشتہ ماہ ایکسرے کی فلمز ختم تھیں مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں کے چکر لگوائے گئے۔
ایک شخص نے کہا کہ میرا بھائی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے آئی سی یو میں بیڈ نہیں مل رہا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پمز نے رانا عمران سکندر نے کہا کہ کینسر کے مریض کو آئی سی یو میں بیڈ نہیں دے سکتے۔ مصطفیٰ کمال نے مریضوں کو ہرممکن سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا
پڑھیں:
کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
—فائل فوٹووزیر اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو قومیں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوتی ہیں وہ اسپورٹس میں سیاست کو لے آتی ہیں۔
عطاء اللّٰہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ان کے 6 جہاز گر گئے، وہ جنگ بھی ہار گئے، یہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کی کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں نہ کوئی عزت ہوتی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایشین کرکٹ کونسل معاملہ سلجھانے کے لیے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عزت دار لوگ ہیں، ہم جنگ جیتے ہیں، ہم کھیل کے میدان میں بھی یقین رکھتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں اسپورٹس مین اسپرٹ زندہ رہنی چاہیے، میچ ریفری کو صرف ریفری کے طور پر ایکٹ کرنا چاہیے تھا۔