Daily Ausaf:
2025-07-24@23:11:04 GMT

اپنی کایا پلٹنا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

سنسنی خیز کہانیاں خوب بکتی ہیں۔ جو چیزیں ہمارے وجود میں جتنی تھرتھلی مچاتی ہیں وہ ہمیں اتنا ہی زیادہ متاثر کرتی ہیں اور ان کے اثرات ہم پر تادیر قائم رہتے ہیں، بلکہ کچھ چیزیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ وہ زندگی بھر ہمارے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایسی کہانیاں اور حکایات وغیرہ لکھنے والے مصنفین ان سے ذاتی طور پر گزرے ہوتے ہیں یا ان کا تخیل اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ ایسی کہانیاں خود تخلیق کر لیتے ہیں۔
یہ کہانیاں زندگی کا ایسا تجربہ بیان کرتی ہیں کہ جس سے لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ کایا پلٹنے کو انگریزی زبان میں ’’ٹرانسفارم‘‘ (Transform) کہتے ہیں۔ انگریزی کا لفظ ٹرانسفارم بہت خوبصورت اور متاثرکن ہے جس کا مطلب یکسر تبدیل ہو جانا ہے یعنی ایک چیز یا رویئے کا کسی دوسری چیز یا رویئے میں بدلنا ٹرانسفارم کہلاتا ہے۔ اس انگریزی لفظ کا متبادل لفظ ’’کنورٹ (Convert)‘‘ بھی ہے جس کا مفہوم بھی کسی چیز یا فرد کے تبدیل ہونے جیسا ہی ہے مگر جو تاثر سننے اور پڑھنے والے پر لفظ ٹرانسفارم قائم کرتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ٹرانسفارم یا کایا پلٹنے کے الفاظ کو قسمت کے بدلنے کے اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ٹرانسفارم یا کایا پلٹنے کا عمل چند ایسے خاص واقعات اور تجربات سے جڑا ہوتا ہے کہ جس کے بعد انسان ناچاہتے ہوئے بھی خود کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جن کے گہرے اثرات اس کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیتے ہیں۔ ایسے واقعات یا تجربات ان لوگوں کے لئے کسی رحمت سے کم نہیں ہوتے جو ان کے لئے کوئی ’’انقلابی تبدیلی‘‘ لے کر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ بری عادات کا شکار ہوتے ہیں یا ان کی زندگی منفی اور غیرتعمیری سرگرمیوں سے بھری پڑی ہوتی ہے مگر ایک دن یا لمحہ ایسا آتا ہے کہ کبھی ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے، وہ کوئی اچھی کتاب پڑھتے ہیں، ان کی ملاقات کسی متاثرکن شخصیت سے ہوتی ہے یا خود ہی کسی موڑ پر ان کی سوچ ایسی بدلتی ہے کہ مستقبل میں ان کی زندگی ایک نیا جنم لے کر ابھرتی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے اچانک ان کی کایا پلٹ گئی ہو۔
اپنی روزمرہ کی زندگی میں آپ نے بہت سے ایسے برے، ظالم اور نشہ وغیرہ کے عادی لوگوں کو دیکھا ہو گا اور ان میں سے بعض کو یکسر بدلتے بھی دیکھا ہو گا۔ ہمارے کچھ شوبز کے لوگ، گلوکار اور کھلاڑی وغیرہ دینی خدمت کے کام کرنے لگے تو خود ان کی زندگی ٹرانسفارم ہو گئی یعنی ان کی کایا (اور قسمت) پلٹ گئی۔ وہ زندگی کے ایک شعبے سے نکل کر زندگی کے دوسرے شعبے میں آ گئے اور خوب نام اور عزت کمائی۔ تاریخ میں ایسی بے شمار شخصیات کا ذکر ملتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کی مصروفیات اور معمولات کو مکمل طور پر تبدیل کیا۔ اس میں ایک شخصیت بنو امیہ کے اسلامی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی بھی ہے جو شہزادے تھے تو مکمل طور پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے اور جب ’’اسلامی خلافت‘‘ کا بوجھ کندھوں پر آن پڑا تو بالکل سادہ زندگی اختیار کر لی اور پوری زندگی ایک ہی لباس میں گزار دی۔
اسی طرح بدھ مت کا بانی بدھا بھی ایک شہزادہ تھا جس کو کسی ایک واقعہ نے ایسا تبدیل کیا کہ اس کی’’کایا پلٹ گئی‘‘ اور اس نے شہزادگی کو چھوڑ کر اپنی بقیہ پوری زندگی غوروفکر اور انسانوں کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔ تصوراتی دنیا کا ایک اپنا الگ ہی رنگ ہوتا ہے۔ سنی سنائی کہانیوں میں الجھنے کی بجائے اپنے من کی دنیا میں ڈوبنا ایک زیادہ بہتر اور گہرا ’’روحانی تجربہ‘‘ ہے جس کے بارے علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ، ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔‘‘ انسان کے اندر کی دنیا ایک مکمل جہاں ہے۔ مجھے ایسی کیفیات بہت اچھی لگتی ہیں جو مجھے خود سے بیگانہ کر دیتی ہیں اور مجھے میرے اندر کی دنیا سے روشناس کراتی ہیں۔ ایسی کیفیات خود کو بدلنے اور اپنی کایا پلٹنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ میں بچپن میں خود کو ٹرانسفارم کرنے کے لئے بزرگوں اور عالم فاضل لوگوں کی محفل میں بیٹھا کرتا تھا یا سوچنے اور غوروفکر کرنے کے لئے ویرانے میں نکل جایا کرتا تھا۔ اس وجہ سے میں تنہائی کو بھی بہت پسند کرتا ہوں۔ اس دوران میں خود کو وقت دیتا ہوں، اپنے ماضی اور حال سے باتیں کرتا ہوں اور ان کی روشنی میں اپنے مستقبل کی کچھ پرچھائیاں دیکھ لیتا ہوں۔
تنہائی کا ایک حیرت انگیز فائدہ یہ ہے اس سے بھرپور تجسس اور پراسراریت پیدا ہوتی ہے۔ اس دوران ہمارے ذہن میں عجیب و غریب قسم کی جستجو ابھرتی ہے کہ انسان خود ہی سوالات کرتا ہے اور خود ہی ان کے جوابات ڈھونڈتا ہے جس سے بعض اوقات اس کی دنیا بدل جاتی ہے یعنی وہ ٹرانسفارم ہو جاتا ہے اور اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ خود کو تبدیل کرنے والے ایسے نایاب لوگ نہ صرف اپنی کایا پلٹتے ہیں بلکہ کچھ قابل گوہر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی قسمت بھی بدل دیتے ہیں۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگی کی کایا خود پلٹتے ہیں۔ کایا پلٹنا یا خود کو ٹرانسفارم کرنا ایسا خوبصورت عمل ہے جس کے بعد انسان کو ’’اطمینان قلب‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ آپ مطالعہ کریں، مجبور لوگوں کی خدمت کریں اور اچھے لوگوں سے دوستی کریں آپ کی کایا پلٹنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا کے عظیم الشان لوگ وہی ہیں جو خود کو وقت دیتے ہیں جس سے انہیں پتہ چلتا رہتا ہے کہ ان کی زندگی کس طرف جا رہی ہے۔ ان کی زندگی کی سمت درست ہے یا غلط ہے؟ ایسے خوش نصیب لوگ نا صرف اپنی زندگی میں مثبت اور تعمیری تبدیلی لاتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کی زندگیاں بھی بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی پوری پوری زندگیاں اس نیک مقصد کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ان کی زندگی دیتے ہیں ہوتے ہیں کی دنیا ہوتا ہے ہیں کہ خود کو اور ان کے لئے

پڑھیں:

دو عورتیں دو دنیائیں

بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے مگر اس کی سنگینی اور بے رحمی نے ہر حساس دل کو مضطرب کردیا ہے۔

ایک عورت جس نے اپنی پسند سے شادی کر لی، اس کو اور اس کے شوہر کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور یہ فیصلہ اجتماعی طور پر جرگہ میں کیا گیا اور اس سفاکانہ عمل میں پچاس لوگ ملوث تھے۔ یہ محض کوئی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ صدیوں پر محیط جبر، جاہلیت اور قبائلی غیرت کے نام پر قائم ایک گھناؤنے کلچر کی بھیانک تصویر ہے۔

وہ عورت جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شاید جینے کی خواہش کی ،کسی مرد کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ کیا ،کسی کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا، اُسے ایک سبق بنانے کے لیے ظلم کی اس انتہا سے گزارا گیا جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

یہ واقعہ اونر کلنگ کے نام پر ہوا، ایک ایسا لفظ جو مہذب دنیا میں کبھی قابلِ فخر نہ ہو سکتا تھا، مگر یہاں اسے غیرت کی چادر میں لپیٹ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس لفظ میں نہ عزت ہے نہ غیرت اور نہ ہی انصاف۔ یہ ایک ایسا سفاک عمل ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہے تاکہ ان پر اختیار باقی رکھا جا سکے تاکہ وہ ہر فیصلہ کسی مرد کے حکم سے جوڑ کر دیکھیں اور اپنی مرضی کو گناہ سمجھ کر اس کا گلا گھونٹ دیں۔

وہ پچاس مرد جو اس عورت کے گرد جمع تھے، وہ افراد نہ تھے، وہ اس سماج کی نمایندگی کر رہے تھے جو عورت کو انسان نہیں سمجھتا۔ ان کی آنکھوں میں خون تھا مگر افسوس کہ کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ اس عورت کا خون بھی سرخ ہے، اس کی چیخیں بھی انسان کی چیخیں ہیں اور اس کے وجود کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے وجود کا۔

 اس واقعہ کی سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک فرد کی ہلاکت نہیں بلکہ ایک پوری سوچ ،ایک پوری نسل کے گلے میں خوف کا طوق ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ اعلان ہے کہ عورت اگر زبان کھولے گی تو اسے دفن کر دیا جائے گا۔ وہ زبان جو زندگی سے محبت کرے، جس میں سوال پیدا ہوں، جس میں آزادی کا خواب جنم لے، اسے نوچ کر باہر نکال دیا جائے گا اور یہ سب کچھ اس سماج کی خاموشی کی چھاؤں میں ہوتا ہے جہاں لوگ حقیقت دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ سچ سن کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ظالم کی طاقت سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

یہ معاملہ قانون سے کہیں زیادہ اخلاق کا ہے، یہ جنگ عدالتی نظام سے پہلے ضمیر کی ہے، اگر ایک سماج میں پچاس مرد مل کر ایک عورت کو مار سکتے ہیں اور کوئی شخص آواز نہیں اٹھاتا تو یہ صرف قاتلوں کی سزا کا سوال نہیں بلکہ پورے سماج کے ضمیرکی موت ہے۔ اس عورت کا جسم جس پر ظلم ہوا اب تو مٹی تلے ہے، مگر سوال زندہ ہے۔ کیا عورت مرد کی ذاتی ملکیت ہے؟ کیا اس کی زندگی کا فیصلہ صرف وہی کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ میں طاقت ہے؟ کیا اس کے خواب، اس کی خواہشیں، اس کی شناخت بے معنی ہے؟ ہم کب تک ان سوالوں سے منہ موڑتے رہیں گے؟

یہ واقعہ بلوچستان کا ہے مگر اس کی گونج پورے ملک میں سنی جانی چاہیے۔ یہ ایک علاقائی مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی المیہ ہے۔ اگر ہم اسے صرف ایک قبائلی رسم کے طور پر دیکھ کر نظر انداز کریں گے تو ہم ظلم کے شریک ہوں گے۔ جب بھی کسی عورت پر ظلم ہوتا ہے پوری انسانیت زخمی ہوتی ہے اور جب انسانیت کو چپ کرا دیا جائے تو صرف قبریں آباد ہوتی ہیں، زندگی نہیں۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو ترقی کا زینہ تو بنایا مگر وہ تعلیم کہاں ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے؟ وہ شعور کہاں ہے جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرات دیتا ہے؟ ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کس لیے ہیں، اگر وہاں سے ایسے لوگ نکلتے ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھتے ہیں؟ ہمیں اپنے بچوں کو صرف مضامین نہیں پڑھانے بلکہ انصاف، برابری اور احترامِ انسانیت کا شعور بھی دینا ہوگا۔ جب تک ہم ان بنیادوں کو نہیں چھیڑتے تب تک صرف قانون بنانے یا مذمت کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔

ہمیں اس عورت کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، کیونکہ اگر ہم آج نہ بولے تو کل یہ خاموشی ہمارے گھروں تک پہنچے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت کا وقار اس کی آزادی، اس کی حفاظت صرف عورتوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کا معاملہ ہے۔ اگر ایک عورت کی عزت محفوظ نہیں تو کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اگر ایک عورت کی آزادی پامال ہوتی ہے تو پورا سماج قید ہے۔ ہمیں عدالتوں میں صرف انصاف نہیں سماج میں تبدیلی بھی لانی ہے۔

ہمیں اس سوچ کو دفن کرنا ہوگا، جو غیرت کو قتل سے جوڑتی ہے جو مردانگی کو جبر سمجھتی ہے، جو عورت کو جسم، عزت یا صرف خاندان کی ناموس مانتی ہے۔ عورت انسان ہے، مکمل انسان اور اس کی زندگی، اس کے فیصلے، اس کے خواب، اسی قدر اہم ہیں جتنے کسی مرد کے۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم صرف تحریریں لکھتے رہیں گے، بینرز اٹھاتے رہیں گے مگر کچھ بدلے گا نہیں۔

آخر میں صرف ایک سوال رہ جاتا ہے وہ پچاس مرد اب کہاں ہیں؟ کیا وہ اب بھی آزاد ہیں؟ کیا وہ فخر سے اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں؟ اور ہم کہاں ہیں؟ کیا ہم اب بھی اپنی مصروف زندگیوں میں گم ہیں یا اس عورت کی تکلیف کو اپنا دکھ سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ واقعہ صرف ایک فرد کی موت نہیں، ایک سماج کی روح پر لگنے والا زخم ہے، اگر ہم نے اس زخم پر مرہم نہ رکھا تو کل یہ زخم ناسور بن جائے گا جو ہمارے پورے سماج کو چاٹ جائے گا۔

ایک طرف ہم اس جوڑے اور اپنے سماج کی جہالت کو رو رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا کی ریاست لوزیانا کی الیسہ کارسن ہے جس کا نام نہ صرف سائنسی دنیا میں ابھر کر سامنے آیا ہے بلکہ وہ لاکھوں نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کے لیے ایک امید، ایک خواب اور ایک مثال بن چکی ہے، اس کی عمر ابھی بیس کے پیٹے میں ہے مگر وہ دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہے جو ناسا کی مستقبل کی خلائی مہمات کے لیے خصوصی تربیت حاصل کر رہی ہے اور یہ امکان ظاہرکیا جا رہا ہے کہ وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بنے گی۔

الیسہ کی کہانی صرف خلا میں جانے کی خواہش سے شروع نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسے بچپن سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نے محض تین سال کی عمر میں خلا نورد بنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ لمحہ اس کی زندگی کا رخ متعین کرنے والا بن گیا۔ اُس نے کم عمری سے ہی فلکیات، فزکس اور خلا سے متعلق علوم میں دلچسپی لینا شروع کردی اور سات سال کی عمر میں ناسا کے اسپیس کیمپ میں شرکت کی۔ بعد ازاں وہ واحد انسان بنی جس نے دنیا کے تمام بڑے اسپیس کیمپس میں شرکت کی ہے۔

 الیسہ نے اپنی تعلیم کا رخ بھی انھی خوابوں کے مطابق رکھا۔ اس نے فلکیات، بیالوجی، فزکس اور دیگر سائنسی مضامین میں مہارت حاصل کی اور مختلف زبانیں سیکھیں تاکہ کسی بھی بین الاقوامی مشن میں آسانی سے شامل ہو سکے۔ الیسہ ناسا کی جانب سے مریخ پر بھیجے جانے والے مشن کا حصہ ہونا چاہتی ہے۔

 یہ حقیقت قابل غور ہے کہ مریخ پر جانے کا مشن کوئی سیر و تفریح کا سفر نہیں ہوگا۔ یہ ایک نہایت کٹھن، خطرناک اور غیر یقینی سفر ہوگا جس میں واپسی کا کوئی وعدہ نہیں۔ یہ مشن کئی مہینوں پر محیط ہوگا جس میں انسان کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہوگا جہاں سختیاں ہوں گی اور زمین سے مختلف ماحول ہوگا۔ وہاں جانے کے لیے جسمانی طاقت سے بڑھ کر ذہنی طاقت درکار ہوگی اور الیسہ ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

الیسہ نہ صرف سائنسی میدان میں خود کو منوا رہی ہے بلکہ وہ نوجوان نسل خاص طور پر لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ خواب بڑے دیکھو اور ان کے پیچھے لگے رہو۔ وہ اکثر تعلیمی اداروں سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرتی ہے جہاں وہ اپنی کہانی سنا کر دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص کشش ہے جو نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے بشرطیکہ ارادہ پختہ ہو اور محنت مسلسل ہو۔

الیسہ کی زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے گرد گھومتا ہے کہ وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرے۔ مریخ پر قدم صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ یہ پوری انسانیت کی فتح ہوگی۔ اگر وہ اس سفر میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ نہ صرف سائنس میں ایک نیا سنگِ میل عبور کرے گی بلکہ زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں بھی ایک نئی راہ کھولے گی۔الیسہ کارسن کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ اگر خواب سچے ہوں اور ارادے مضبوط تو آسمان بھی چھوٹا پڑ سکتا ہے۔ اس کی کہانی اس دنیا کے ہر اس بچے لڑکی یا نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے جو کسی بڑی منزل کی خواہش رکھتے ہیں۔ مریخ پر انسان کے قدم رکھنے سے پہلے ہی الیسہ نے ہمارے دلوں پر اپنی سوچ عزم اور جدوجہد سے جگہ بنا لی ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے اور دنیا اس کی کامیابی کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔

کیسا تضاد ہے ہم اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سے زندگی کا ساتھی نہیں چنے دیتے اور ایسا کرنے پر جان سے مار دیتے ہیں اور مہذب معاشرے اپنی بیٹیوں کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس پر فخر کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • شوہر کے بدترین جنسی تشدد کا شکار ہونے والی بیوی زندگی کی بازی ہار گئی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!
  • دو عورتیں دو دنیائیں
  • معروف ترک ڈرامے کورولس عثمان کے مرکزی کردار نے اپنی راہیں جدا کرلیں
  • دیامر میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، نظامِ زندگی مفلوج
  • اسرائیل کیخلاف تمام آپشنز زیر غور ہیں، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ
  • گیلے کپڑے سے سولر پلیٹس صاف کرنے پرنوجوان زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا