قرض جان لڑانے سے نہیں بہتر منصوبہ بندی سے ادا ہو گا!
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کو اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پرکم وبیش 3 ؍ارب ڈالر مل جائیں گے
جس سے حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف ،وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے دیگر رفقائے کار کو آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدے کو بہت بڑا کارنامہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام سے ان حقائق کو چھپا یا جارہا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اس ملک کے عوام کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی ،
عوام کو یہ تو بتایاجارہاہے کہ اگلے مالی سال کا بجٹ آئی ایم کے ساتھ مشاورت کے ساتھ بنایا جائے گا لیکن یہ نہیں بتایا جارہاہے کہ یہ پاکستانی حکام صرف اس بجٹ کے خدوخال تیار کریں گے جبکہ حقیقی معنوں میں بجٹ تجاویز آئی ایم ایف کے حکام تیار کریں گے جس پر حکومت کومن وعن عمل کرنا ہوگا اور اس مقصد کیلئے آئی ایم ایف کی ٹیم جلد ہی پاکستان پہنچ جائے گی جس کی مہمانداری کے بھاری اخراجات بھی اس غریب قوم کی حلق سے نوالہ چھین کر پورے کئے جائیں گے،
شہباز شریف یہ کہہ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگراموں سے معاشی استحکام تو آتا ہے لیکن قومیں ترقی نہیں کرتیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے ترقی بھی ممکن ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ قرضوں کی یہ رقم ارکان اسمبلی ،بیوروکریٹس اور اشرافیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں بھاری اضافوں اور لمبی لمبی لگژری گاڑیوں او ر سامان تعیش پر ضائع کرنے کے بجائے اسے پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ جب قرض کی رقم ملک میں پیداوار میں اضافے پر خرچ کی جائے گی تو یقینا برآمدات میں اضافہ ہوگا، زرمبادلہ ملک میں آئے گا تو قرض سے جان چھڑانے میں مدد ملے گی اور پھر عوام کو ریلیف دینے کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن قرض کی رقم قرضوں کی ادائیگی اور حکومتی اللے تللوں پر خرچ کی جاتی رہے گی تو اس سے وزیراعظم کے مطابق وقتی معاشی استحکام کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم نے بتایا ہے کہ پچھلے تین ہفتوں میں 34 ارب روپے خزانے میں آئے، یہ وہ رقم تھی جو بینکوں کی جانب سے عدالت سے اسٹے آرڈر لینے کے نتیجے میں پھنسی ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے اس رقم کی وصولی پر آئی ایم ایف کی ٹیم کو شاباشی دے کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ رقم ان کی کاوشوں سے خزانے میں آئی ہے جبکہ وزیراعظم کو اس پر ایف بی آر کی ٹیم کی سرزنش کرنی چاہئے تھی کہ انھوں نے رقم کی وصولی کے حوالے سے قرض نادہندگان کو ریلیف دینے کیلئے ایسے قانونی سقم چھوڑے کہ انھیں عدالتوں کے پیچھے چھپ کر خزانے کو اتنے عرصے تک بھاری رقم سے محروم کیے رکھا ۔وزیراعظم ،وزیرخزانہ اور ان کی ٹیم کے ارکان اور ان کی ایما پر بعض نام نہاد اقتصادی ماہرین اور میڈیا میں ان کے مبینہ طورپر تنخواہ دار ہم نواؤں نے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب کچھ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ اس ملک کے پسے اور کچلے ہوئے عوام کو مزید کچلنے کے وعدوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
دراصل یہ معاہدہ پہلے سے طے شدہ معاہدے کا تسلسل ہے جس کے تحت ملنے والی رقم سے معیشت کو ٹریک پر رکھنے میں مدد ملے گی،اور ادائیگیوں کے توازن اور معاشی اصلاحات کو یقینی بناتا ممکن ہوسکے گا ۔ جب تک حکومت آئی ایم ایف کی شرائط سے انحراف نہیں کرتی، اس وقت تک معیشت پٹری پر رہنے کی توقع ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اقتصادی اشاریے بہتر ہونے کی خبریں ملی ہیں لیکن اس کے باوجود وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے بلند بانگ دعووں کے باوجو مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ شرح سود میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور 23فیصد شرح سود کم ہوکر 12 فیصد تک آگئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم یہ دعویٰ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے، جو معاشی استحکام کے لیے خوش آیند امر ہے لیکن ابھی تک عملی طورپر کسی بھی غیرملکی سرمایہ کاری کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ہیں ۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ خطے کی مہنگی ترین بجلی ہے جو کہ ہماری معیشت کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک میں بجلی پاکستان کے مقابلے میں سستی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ان ممالک میں جا رہی ہے اور پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔ گو حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک مضبوط پیکیج تیار کر رہی ہے، جس کا جلد عوامی سطح پر اعلان کیا جائے گا، تاہم اس میں کئی چیلنجز درپیش ہیں،اور حکومت کی سطح پر کئے گئے بعض اعلانات سے ظاہرہوتا ہے کہ آئی ایم ایف صرف ایک روپیہ فی یونٹ رعایت دینے کو تیار ہواہے ظاہر ہے کہ بجلی کے نرخ میں صرف ایک روپے یونٹ کی کمی سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ اس سے قبل توقع کی جا رہی تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کو قوم سے خطاب میں بجلی کے نرخوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے، تاہم ایساکوئی اعلان نہیں کیا گیا جس سے وزیراعظم کی بے بسی کااظہار ہوتاہے۔
حکومت نے 15 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا جائے گا تاکہ عوام کو بجلی کے نرخ میں رعایت دی جاسکے حالانکہ اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں 13 روپے فی لیٹر کمی کی تجویز دی تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ اس ممکنہ مالیاتی مارجن کو بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ بعد ازاں حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نہ کرکے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ پورا کرنے کے بجائے پر پیٹرولیم لیوی پر 10 روپے اضافے کا فیصلہ کیا۔ اس صورت حال میں اس ملک کے مفلوک الحال عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ دنیا بھر میں بجلی کے نرخ کم ہیں، تو پاکستان میں بجلی اتنی مہنگی کیوں ہے ؟
اگر بجلی کی بنیادی قیمت میں کمی کردی جائے اور بلوں پر لگائے گئے 13 قسم کے ٹیکسوں کاخاتمہ کردیا جائے تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی سے اچھی خاصی بچت شروع ہو چکی ہے، لیکن یہ بچت عوام تک ریلیف کی شکل میں منتقل ہونا تا حال شروع نہیں کی گئی۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ بجلی کے ٹیرف اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کیے بغیر معیشت کا پہیہ کسی صورت نہیں چل سکتا ،نہ ہی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے اور نہ ہی برآمدات میں اضافے کے ذریعے قرضوں سے چھٹکارا پانا ممکن ہے ،شہباز شریف پنجاب کے روایتی انداز میں بڑھک مارتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ قرضوں سے نجات کیلئے جان لڑادوں گا حالانکہ انھیں یہ اچھی طرح معلوم ہوگا کہ قرضوں سے نجات جان لڑانے سے نہیں قابل عمل منصوبہ سازی اور سرکاری اللے تللے ختم کرنے سے ہی ممکن ہے۔
عوام کے لیے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا حکومت اپنے وعدے پر عمل کر پائے گی یا یہ محض ایک اور سیاسی اعلان ثابت ہوگا؟ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے یہ وعدے کب حقیقت بنیں گے۔اس وقت تک تو حقیقت یہ ہے کہ عوام سے پیٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر متعدد ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں جس میں 70 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی اور 20 روپے فی لیٹر تک کسٹمز ڈیوٹی بھی شامل ہے، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کے مارجن سمیت دیگر چارجز اس کے علاوہ ہیں۔
اگر ٹیکس اور ڈیوٹیاں ختم ہو جائیں تو پٹرول عوام کو 120روپے فی لیٹر مل سکتا ہے مگر حکمرانوں نے حکومت چلانے کے لیے بجلی گیس کے بلوں کی ساتھ ساتھ پیٹرول کا سہارا لے رکھا ہے، جس کے باعث غریب عوام پس رہے ہیں۔ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے باعث عام شہریوں کے لیے علاج مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ مختلف دواؤں کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ ایول انجکشن کی قیمت میں دیکھا گیا، جس کی قیمت 432 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے کردی گئی یعنی 233 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جس نے عام آدمی کے لیے علاج مزید مشکل بنا دیا ہے۔جن افراد کو بلند فشار خون، حرکت قلب اور شوگر سمیت دیگر امراض لاحق ہیں اور ان امراض کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات روز بہ روز مہنگی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کے لیے ان دواؤں کا خریدنا مشکل تر ہوگیا ہے۔
حکومت کو زندگی بچانے والی دواؤں کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کرنے کی کوئی فکر نہیں کیونکہ ارباب حکومت اور ان کے لواحقین کو تو بیرون ملک علاج معالجے کیلئے بھی اپنی جیب سے کچھ خرچ نہیں کرناپڑتا،لیکن اس گرانی کے سبب اب دوائیں کم آمدنی والے طبقے کے مریضوں کی قوت خرید سے باہر ہو رہی ہیں۔ غریب کی تنخواہ کا نصف سے زائد حصہ اور معمر لوگوں کی پنشن کی کم وبیش پوری رقم دواؤں کی خریداری اور علاج معالجے و طبی ٹیسٹوں کی مد میں ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے گھر کے روز مرہ اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ملک میں مہنگائی میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی رفتار ایک علیحدہ چیز ہے جو یہ ظاہرکرتی ہے کہ مہنگائی کس طرح بڑھ رہی ہے، مگر مہنگائی کم ہونا دوسرا پہلو ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیزوں کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوئی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ مہنگائی کو قابو کرنا خالصتاً انتظامیہ کا معاملہ ہے جس میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ کا تدارک کیا جاتا شامل ہے۔
یہ تمام معاملات گڈ گورننس میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ متبرک ماہ رمضان میں قیمتیں آسمان کو چھوتی رہیں اور ارباب اختیار سب اچھا ہے اور مہنگائی کم ہورہی ہے کی گردان کرکے حلق سکھاتے رہے۔ کیاارباب اختیار کونہیں معلوم کہ مہنگائی کرنے یعنی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے لیے ذخیرہ اندوز مافیاز باقاعدہ منصوبہ بندی کر تی ہے اور اپنی اس قبیح حرکت کوکامیاب بنانے کیلئے انتظامیہ اور ارباب اختیار کے بعض بااثر لوگوں کو بھی خاموشی اختیار کئے رکھنے یا محض نمائشی اقدامات پر اکتفاکرنے کیلئے حصہ بقدر جثہ قیمت ادا کرتی ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا میکانزم موجود ہی نہیں ہے۔نہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو دیکھا جاتا ہے اور نہ گزشتہ ماہ کی قیمتوں کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر رمضان المبارک کے دوران پھلوں کی پیداوار میں کمی نہیں ہوئی مگر ا ن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا کیونکہ فروخت کنندہ پر کوئی چیک نہیں تھا اورچیک رکھنے کے ذمہ داروں کو مبینہ طورپر ان کا حصہ پہلے ہی اداکیاجاچکاتھا، دکاندار منہ مانگی قیمتیں مانگ رہے تھے اور دووقت کی روٹی سے محروم روضہ دار افظار کیلئے پانی پر گزارا کرنے پر مجبور تھے۔
چینی کی برآمد کی اجازت لینے کیلئے شوگر ملز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ملکی کھپت کے لیے مقامی اسٹاک موجود ہے مگر اب چینی کی قیمت ایک سو تیس روپے کی بجائے ایک سو ستر روپے فی کلو ہوگئی اور ارباب اختیار نے جن کو غالباان کا حصہ مل چکاہے چینی کی سرکاری قیمت 164 روپے مقرر کرکے یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ حکومت نے عوام کے بہترین مفاد کے تحت چینی کی قیمت 130 روپے کے بجائے 164 روپے کردی ہے ،ارباب اختیار کو معلوم ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
حالانکہ شوگر ملز نے چند مقامات پر اپنے اسٹالز لگا کر شناختی کارڈ پر ایک سو تیس روپے فی کلو چینی دینے کا اعلان کیا تھا جس سے ظاہرہوتاہے کہ شوگرملز مالکان 130 روپے کلو چینی فروخت کرنے پر آمادہ تھے لیکن ایسی صورت میں ارباب اختیار کو شاید وہ کچھ نہ مل سکتا جو چینی کے نرخ164 روپے مقرر کرنے پر مل سکتاہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامی صلاحیتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ملکی سطح پر قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہو رہی۔ مارکیٹ میں گندم کی قیمت کم ہو رہی ہے مگر مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم ہونے کے باوجود آٹے سے تیار شدہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے اگر ایک مرتبہ بڑھ گئے تو پیٹرول کے نرخ کم ہونے کے باوجود کرائے کم نہیں کیے جاتے۔ بجلی کی قیمت میں حکومت اگر کوئی ریلیف دیتی ہے تو اس کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ تمام عوامل گڈ گورننس کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔پاکستان کی معیشت میں اتنا دم ہے کہ حکومت چاہے تو عوام کو اچھا خاصا ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے’ اسی طرح بجلی کے نرخ بھی کم ہو سکتے ہیں’ اگر حکومت اپنے اخراجات کو نہ بڑھاتی تو با آسانی عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے اچھا خاصا بجٹ پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں،مراعات میں صرف کر دیا۔
اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہی ریلیف عوام کو ٹرانسفر کیا جا سکتا تھا۔اس سے وزیراعظم کی عوام سے ہمدردی اور دلچسپی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Back To Home
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں کمی آئی ایم ایف کے آئی ایم ایف کی ارباب اختیار روپے فی لیٹر کرنے کی کوشش سرمایہ کاری بجلی کے نرخ میں اضافہ کی وجہ سے حکومت نے کمی نہیں کو ریلیف میں بجلی عوام کو ہیں اور کی قیمت مل سکتا ہوئی ہے نہیں ہو کرنے کے کے ساتھ نہیں کی جائے گا رہے ہیں چینی کی ملک میں کی ٹیم ہیں کہ گی اور رہی ہے کیا جا کے لیے ہے اور ہو رہی اور ان گیا ہے
پڑھیں:
سونا فی تولہ11 ہزار 7 سو روپے سستا ۔۔۔قیمت کہاں تک جاپہنچی،کنواروں کے لیے خوشی کی خبرآگئی
کراچی(نیوز ڈیسک) سونے کی قیمت میں تیزی کا تسلسل ٹوٹنے کے بعد ریکارڈ کمی ہوگئی۔صرافہ مارکیٹوں کے مطابق عالمی و مقامی سطح پر سونے کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی، 24 قیراط فی تولہ سونا 11 ہزار 7 سو روپے سستا ہو کر 3 لاکھ 52 ہزار روپے کی سطح پر آگیا۔10 گرام سونے کی قیمت 1 ہزار 31 روپے کمی سے 3 لاکھ 1 ہزار 783 روپے ریکارڈ ہوئی جبکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 116 ڈالر کی بڑی کمی سے 3338 ڈالر ہوگئی۔واضح رہےگزشتہ روز قیمتوں میں اضافے کے باعث مقامی صرافہ بازاروں میں فی تولہ سونے کی قیمت 3 لاکھ 57 ہزار 800 روپے اور دس گرام سونے کی قیمت 3 لاکھ 6 ہزار 755 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
مزیدپڑھیں:انسٹا گرام نے ٹک ٹاک کیپ کٹ کے مقابلے میں صارفین کو اچھی خبر سنا دی