2025ء کا عید سیل سیزن بدتر اور تباہ کن قرار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 اپریل2025ء) 2025ء کا عید سیل سیزن بدتر اور تباہ کن قرار، "ہوشربا اور ناقابلِ برداشت مہنگائی عوام کی عید کی خوشیاں نگل گئی، بازاروں میں عید کا 70 فیصد سامان فروخت ہی نہ ہو سکا"۔ تفصیلات کے مطابق رواں برس عید الفطر کا سیزن تاجروں کے لیے مایوس کن رہا جب کہ خریداری کی شرح میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی۔ گزشتہ برسوں کی طرح تاجروں کا 2025ء عید سیل سیزن بھی انتہائی مایوس کن ثابت ہوا۔
ہوشربا مہنگائی، کساد بازاری اور قوتِ خرید میں حوصلہ شکن کمی نے تاجروں کے کاروبار اور غریب و متوسط طبقے کی عید کی خوشیاں منانے کے خواب بکھیر دیے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بھی تاجر خریداروں کی راہ تکتے رہے اور صرف ایک سال میں عید پر فروخت ہونے والے سامان کی قیمتوں میں 40 تا 50فیصد اضافہ ہوا۔(جاری ہے)
عید الفطر سے قبل ہونے والی خریداری گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 تا 30 فیصد کم رہی۔
عید پر فروخت کے لیے گوداموں میں جمع کیا گیا 60تا 70فیصد سامان دھرا کا دھرا رہ گیا اور تاجروں کے مطابق رواں سال بمشکل 15ارب روپے کا مال فروخت ہوسکا۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے بتایا کہ تباہی سے دوچار کاروبار، محدود آمدنی اور تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہوئی ہوشربا اور ناقابلِ برداشت مہنگائی عوام کی عید کی خوشیاں بھی نگل گئی۔ انہوں نے کہا کہ قوتِ خرید نہ ہونے کے سبب عید کی زیادہ تر خریداری خواتین اور بچوں کے ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، پرس، کھلونے، ہوزری، آرٹیفیشل جیولری اور زیبائش کے سستے سامان تک محدود رہی جب کہ بیشتر خریداروں نے خواہشات کے برعکس صرف ایک سوٹ خریدنے پر ہی اکتفا کیا۔ تاجروں نے عید سیل کے حوالے سے سال 2025کو 2024 سے بھی بدتر اور تباہ کن قرار دیا ہے۔ عید شاپنگ کے حوالے سے مخصوص اور معروف تجارتی علاقوں کلفٹن، ڈیفنس، صدر، طارق روڈ، حیدری، گلشنِ اقبال، ناظم آباد، ملیر، لانڈھی، گلستانِ جوہر، لیاقت آباد، بہادر آباد، جوبلی، جامع کلاتھ، اولڈ سٹی اور دیگر علاقوں کی 200 سے زائد مارکیٹیں عید کی روایتی خریداری کی منتظر رہیں۔ عتیق میر نے کہا کہ ملک میں کسی غیرمتوقع سیاسی و معاشی بحران کے اندیشوں کا شکار تاجر مال منجمد ہوجانے کے خوف سے زیادہ اسٹاک جمع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ موجودہ صورتحال سے تاجروں کے لیے کاروباری و گھریلو اخراجات پورا کرنا مشکل اور ادھار پر لیے گئے مال کی ادائیگیوں کے لالے پڑگئے ہیں۔ انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حسبِ روایت رواں سال بھی ماہِ رمضان میں مصنوعی مہنگائی مافیا اور موقع پرستوں نے مہنگائی کی روک تھام کے حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچاکر غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ دی اور ان کے لیے زندگی کی بنیادی سہولیات کا حصول مشکل ترین بنادیا۔ تاجر رہنما نے شہر میں امن و امان کے ذمے دار اداروں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک میں پولیس، ڈاکو اور لٹیرے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔ جو لٹیروں سے بچ گیا وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ پارکنگ مافیا نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور میئر کراچی کے احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے پارکنگ فیس وصول کی جاتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ مقامی و غیر مقامی گداگروں کی فوجِ ظفر موج شہر میں دندناتی رہی جن کی روک تھام کے لیے سرکاری سطح پر کوئی بھی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تاجروں کے عید سیل کہا کہ کے لیے عید کی
پڑھیں:
مہنگائی کا دباؤ کم؛ 2024ء میں ملکی مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی، اسٹیٹ بینک
کراچی:اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا دباؤ کم ہونے سے 2024ء میں مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔
بینک دولت پاکستان نے اپنی سالانہ نمائندہ اشاعت مالی استحکام کا جائزہ برائے سال 2024ء جاری کر دی ہے۔ یہ جائزہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ، 1956ء کی سیکشن 39 (3) کے تقاضوں کے مطابق تیار اور شائع کیا گیا ہے۔
رپوڑٹ کے مطابق 2024 کے دوران مجموعی معاشی حالات میں خاصی بہتری آئی۔مالیاتی صورت حال میں بہتری، روپیہ اور ڈالر کی مستحکم مساوات، معاشی سرگرمی میں اضافے اور بیرونی کھاتے کے توازن میں بہتری سے ہوتی ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق معاشی ماحول میں تبدیلی کے ساتھ مالی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ بھی کم ہوگیا۔ بینکاری کے شعبے نے مستحکم کارکردگی دکھائی اور اپنی مالی مضبوطی برقرار رکھی جب کہ بینکوں کی بیلنس شیٹ میں 2024ء کے دوران 15.8 فیصد اضافہ ہوا۔
اسی طرح مالی شعبہ بینکوں، مائیکروفنانس بینکوں، ترقیاتی مالیاتی اداروں مالی مارکیٹ کے انفرا اسٹرکچر سمیت مالی شعبے کے مختلف اجزا کی کارکردگی خطرات کی جانچ کو پیش کیا گیا اور کارپوریٹ شعبے کی مالی صحت کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اثاثوں میں توسیع سرمایہ کاری اور قرضوں دونوں کی وجہ سے ہوئی، جس سے نجی شعبے کے قرضوں میں مستحکم بحالی دیکھی گئی۔