امریکی مارکیٹ 5 سال کی کم ترین سطح پر، عالمی منڈی میں بھونچال
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
نیویارک(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف کے اعلان کے بعد امریکی مارکیٹ پانچ سال کی کم ترین سطح تک گر گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ملک کی بڑی کمپنیوں کے ٹریلین ڈالر بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں اور ماہرین نے شدید کسادبازاری کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔
جمعرات کو ملک کے تمام شعبہ جات ہی نقصان میں جاتے دیکھے گئے اور کووڈ 19 کے بعد سے پانچ سال میں پہلی بار امریکہ کی تجارتی مارکیٹس ایک روز میں سب سے بڑے ڈراپ کے ساتھ بند ہوئیں۔
امریکہ سمیت دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی دیکھی گئی۔ ایس اینڈ پی 500 انڈیکس میں 4.
جمعے کو کاروبار کے آغاز پر جاپان کا نکی 225 انڈیکس 1.8 فیصد گر گیا ہے۔
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے تمام ممالک پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کی ہے جبکہ متعدد مخصوص ممالک سے درآمدات پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کیے ہیں جن میں اعلی تجارتی شراکت دار چین اور یورپی یونین بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب امریکہ میں بینک، اشیائے خورونوش، ملبوسات، فضائی اور ٹیکنالوجی سے وابستہ کمپنیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
متعدد ماہرین نے ٹیرف کو متوقع سے بھی زیادہ بدترین قرار دیا ہے اور سرمایہ کار ان کمپنیوں میں سے اپنے شیئرز نکال رہے ہیں جن کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ وہ نئے ٹیکسوں سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں یہ ٹیکس براہ راست صارف تک منتقل ہو گا، اگر صارفین قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اپنے اخراجات میں کمی کرتے ہیں تو کمپنیوں کی پیداوار کم ہو گی، جس سے معاشی ترقی رک سکتی ہے۔
صارفین کی جانب سے خرچ کیے جانے والے پیسے امریکی معشیت کا تقریباً 70 فیصد بنتے ہیں۔
فچ ریٹنگز کے سربراہ اولو سونولا کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک گیم چینجر ہے، صرف امریکی نہیں بلکہ عالمی معیشت کے لیے اور بہت سے ممالک ممکنہ طور پر کساد بازاری کا شکار ہوں گے۔‘
ڈاؤ جانز میں ایک سینیئر مبصر کا کہنا ہے کہ ایس اینڈ پی 500 انڈیکس میں 4.8 فیصد کے ڈراپ کے ساتھ 2 کروڑ ڈالر کی قدر بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے۔
نئے ٹیرفز سے متاثر ہونے والی ایئر لائنز
اگرچہ ایئرلائنز معاشی لحاظ سے ایک مضبوط سال کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں تاہم موجودہ حالات میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کساد بازاری کے پیش نظر لوگ اپنے سفری بجٹ میں کمی لائے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یونائیٹڈ ایئرلائنز کے کاروبار میں 15.6 فیصد کمی آئی ہے جبکہ امریکن ایئرلائنز کو 10.2 فیصد اور ڈیلٹا ایئرلائنز کو 10.7 فیصد کی کمی آئی۔
کپڑے اور جوتوں کے برانڈز پر ٹیرف پالیسی کے اثرات
کپڑے اور جوتے بنانے والی کمپنیوں کا سامان زیادہ تر امریکہ سے باہر تیار ہوتا ہے اور نئے اقدام کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کو اس سامان پر محصول یا درآمدی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
جوتوں کے مشہور برانڈ نائیکی کا کاروبار 14.4 فیصد تک کم ہوا ہے۔ اسی طرح انڈر آرمر کے کاروبار میں 18.8 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ لولومن، رالف لورن اور لیوی سٹراس کے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔
ایمازون کے کاروبار میں 9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ ٹارگٹ، بیسٹ بائے، ڈالر ٹری اور کوہل کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنیوں پر اثرت
کمپیوٹرز بنانے اور بیچنے والی کمپنیوں کے علاوہ سمارٹ فون اور ٹیکنالوجی سے جڑی دوسری مصنوعات تیار کرنے والے ایسے ادارے ہیں جو دوسرے ممالک سے پرزے اور دیگر سامان منگواتے ہیں جبکہ بعض کمپنیاں تو اپنی پوری پروڈکٹ ہی ملک سے باہر تیار کرتی ہیں اور بعد میں اسے درآمد کرتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کے لیے نئے ٹیرف کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب بھی سامان امریکہ لائیں گے تو ان کو ٹیرف ادا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق ایپل کے منافع میں 9.2 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ایچ پی، ڈیل اور نویڈیا بھی متاثر ہوئی ہیں۔
مالیاتی ادارے اور بینکس پر اثرات
کساد بازری کے پیش نظر عام لوگ اپنے اخراجات میں کمی لا رہے ہیں اور سروسز کا استعمال بھی کم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بینکس بھی کافی متاثر ہوئے ہیں اور ویلز فارگو کے کاروبار میں 9.1 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے جبکہ بینک آف امریکہ اور جے پی مورگن بھی کافی متاثر ہوئے ہیں۔
ریستورانوں پر ٹیرف کے اثرات
اپنے معاشی مستقبل کے حوالے سے پریشان امریکیوں میں پہلے سے ہی ریستورانوں میں کھانے پینے کے رجحان میں کمی دیکھی گئی تھی۔ نئے ٹیکسز کے بعد سے سٹاربکس، کریکر بیرل، چیز کیک فیکٹری سمیت دوسری کمپنیوں کو منافع میں شدید کمی کا سامنا ہے۔
مزیدپڑھیں:بیوی کی انسٹاگرام ویڈیو نے شوہر کو نوکری سے معطل کرادیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے کاروبار میں فیصد کی کمی ئی ہے جبکہ ہیں اور گئی ہے کے بعد
پڑھیں:
پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
اسلام آباد:پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران ریکارڈ 26.7 ارب ڈالرکے غیر ملکی قرضے حاصل کیے، جن میں سے تقریباً نصف حصہ پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع (رول اوور) پر مشتمل ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 3.4 ارب ڈالر (یعنی کل قرضوں کا 13 فیصد) ترقیاتی منصوبوں کیلیے وصول ہوئے جبکہ باقی قرضے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلیے لیے گئے۔
یہ صورتحال قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر قرضے آمدنی پیدا نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون کے اختتام پر 14.5 ارب ڈالر تھے، جو کہ بنیادی طور پر انہی قرضوں کے رول اوور اور نئی ادائیگیوں کا نتیجہ ہیں، جو ملک کی بیرونی مالیاتی خودمختاری کو مزیدکمزورکرتے ہیں۔
حکومت کو 11.9 ارب ڈالر براہِ راست قرض کی صورت میں ملے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2.1 ارب ڈالر اداکیے گئے جبکہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے مجموعی طور پر 12.7 ارب ڈالر کے رول اوور کیے گئے۔
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 4 فیصد شرح سود پر دیے جبکہ چین نے 6 فیصد سے زائد شرح سود پر 4 ارب ڈالر رکھوائے۔ یو اے ای نے بھی 3 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک میں رکھوائے۔
چین نے 484 ملین ڈالر کی گارنٹی شدہ رقم اثاثے خریدنے کیلیے دی جبکہ حکومت 1 ارب ڈالر کے یوروبانڈز اور پانڈا بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے مہنگے تجارتی قرضے حاصل کرکے اس کمی کو پورا کیا، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی بھی شامل تھی۔
اے ڈی بی نے 2.1 ارب ڈالر، آئی ایم ایف نے 2.1 ارب، ورلڈ بینک نے 1.7 ارب اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 716 ملین ڈالر کے قرضے دیے۔ سعودی عرب نے 6 فیصد سود پر 200 ملین ڈالر کا تیل فنانسنگ معاہدہ بھی دیا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کا قرضہ برائے جی ڈی پی تناسب اور مجموعی مالیاتی ضروریات اب ناقابل برداشت سطح سے تجاوز کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں (2026-2028) کے دوران پاکستان کو 70.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت ہوگی جبکہ قرض واپسی کی صلاحیت پر مسلسل خطرات منڈلا رہے ہیں۔