پانی کے ضیاع پر کارروائی ضروری، حکومت واٹر ایمرجنسی نافذ کرے: لاہور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ کے تدارک سے متعلق درخواستوں پر پاکستان ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) سے رپورٹ طلب کرلی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے شہری ہارون فاروق سمیت دیگر کی اسموگ کے تدارک کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر پی ڈی ایم اے سے رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے ریمارکس دئیے چولستان میں واٹر کرائسس سیچویشن ہے۔ حکومت کو چاہیے واٹر ایمرجنسی نافذ کرے۔ اخبار میں اشتہار دینے سے صرف اخبار والوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ واٹر ویسٹیج کے حوالے سے کافی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ میں کورٹ سے نکلی ہوں یونیورسٹی روڈ پر ہائیڈریٹس ابل رہے تھے۔ پی ایچ اے واٹر کو منٹین نہیں کر رہے۔ شہروں میں ٹیوب ویل کے حوالے سے ٹائم ٹیبل بنانے کی ضرورت ہے۔ پی ایچ اے کی پانی کی وائیلیشن بہت ہے۔ ریس کورس کو نہری پانی سپلائی کرنے والے موگے بند ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پانی کے ضیاع پر کریک ڈاؤن کرنا ضروری ہے۔ بڑی سوسائیٹیوں کو پانی کے حوالے سے فائنل نوٹیفکیشن دیں۔ جہاں پائپ سے گاڑی دھلتی نظر آئے اس سوسائٹی کو سیل کردیں۔ پی ایچ اے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ میرے پاس آئیں۔ لاہور کا پانی بہت تیزی سے نیچے جا رہا تھا۔ ہم نے بہت محنت سے اس کا لیول رکوایا ہے۔ اس محنت کو ضائع نہیں ہونے دینا۔ ایک عرصے بعد موسم بدل رہا ہے۔ بلڈنگ میں واٹر ریسائیکل پلانٹ لگائیں جائیں۔ بلڈنگز میں چھوٹا ریسائیکل پلانٹ لگے گا تاکہ پانی دوبارہ استعمال ہو۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کے حوالے سے
پڑھیں:
پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
لاہور:پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا اور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران پنجاب میں خواتین پر ہونے والے 4 سنگین جرائم ، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن نظامِ انصاف کی ناکامی نے متاثرہ خواتین کو انصاف سے دور رکھا۔
رپورٹ کی تیاری کے لیے ایس ایس ڈی او نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے تحت دستیاب ڈیٹا اکٹھا کیا اور اسے اضلاع کی آبادی کے تناسب سے کرائم ریٹ کے فارمولے کے ذریعے تجزیہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق لاہور میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 532 واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے بعد فیصل آباد میں 340 اور قصور میں 271 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے باوجود سزا کے تناسب انتہائی کم رہا۔
لاہور میں صرف 2 اور قصور میں 6 ملزمان کو ہی مجرم قرار دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے قصور میں فی لاکھ 25.5 اور پاکپتن میں 25 واقعات رپورٹ ہوئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے اور دیہی اضلاع میں خواتین کو خطرات لاحق ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے جرائم میں فیصل آباد سرِ فہرست رہا جہاں 31 واقعات پیش آئے، جب کہ راجن پور اور سرگودھا میں 15-15 کیسز رپورٹ ہوئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں کسی کو سزا نہیں دی گئی، تاہم فی صد آبادی کے حساب سے راجن پور میں 2.9 اور خوشاب میں 2.5 فی صد کے تناسب نے اس رجحان کی شدت کو اجاگر کیا۔
اغوا کے حوالے سے لاہور میں 4,510 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 5 ملزمان کو سزا ہوئی۔ فیصل آباد میں 1,610، قصور میں 1,230، شیخوپورہ میں 1,111 اور ملتان میں 970 شکایات درج ہوئیں، لیکن کسی کو بھی عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی۔آبادی کے تناسب سے لاہور کا کرائم ریٹ فی لاکھ 128.2، قصور 115.8 اور شیخوپورہ 103.6 رہا۔
گھریلو تشدد کے کیسز میں گجرانوالہ نے سبقت لے لی جہاں 561 شکایات موصول ہوئیں، جب کہ ساہیوال میں 68 اور لاہور میں 56 مقدمات درج ہوئے۔ ان تمام واقعات میں بھی سزاؤں کا تناسب صفر رہا اور فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے گجرانوالہ میں 34.8 اور چنیوٹ میں 11 کے اعداد و شمار نے اس نوعیت کے جرائم کی سنگینی کو واضح کر دیا۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیّد کوثر عباس نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس نے رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنایا ہے مگر عدالتوں میں کیسز کا مؤثر تعاقب نہ ہونے کے باعث سزائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے پاس وہ واقعات بھی پہنچتے ہی نہیں جو متاثرین رپورٹ نہیں کرا پاتے یا روک دیے جاتے ہیں اور اس لیے عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات ناگزیر ہیں تاکہ خواتین بروقت ویمن سیفٹی ایپ اور ورچوئل پولیس اسٹیشن کے ذریعے اپنے کیس درج کرا سکیں۔
ایس ایس ڈی او کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز شاہد خان جتوئی نے بتایا کہ اغوا کے پیچھے انسانی اسمگلنگ، جبری تبدیلی مذہب، تاوان اور زیادتی جیسے سنگین جرائم چھپے ہیں جن کے لیے فوری ریاستی مداخلت درکار ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ رپورٹ میں شامل نقشہ جات اور ضلعی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کئی چھوٹے اضلاع بڑے شہروں سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔
رپورٹ کو ایک ہنگامی وارننگ قرار دیتے ہوئے ایس ایس ڈی او نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس، عدلیہ اور متعلقہ ادارے مشترکہ طور پر فوری اصلاحات کریں، قانونی عملدرآمد کو مؤثر بنائیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔