یورپی سول ایوی ایشن ٹیم کی پہلی بار پاکستان آمد کا فیصلہ، پی آئی اے کی بحالی کی امیدیں روشن
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی کوششیں رنگ لانے لگی ہیں اور تاریخ میں پہلی بار یورپی یونین کی ہدایت پر یورپ کی سول ایوی ایشن ٹیم اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کرے گی دو ارکان پر مشتمل یہ ٹیم اسلام آباد ایئرپورٹ پر پاکستان کے سیکیورٹی ریگولیٹرز کو ٹریننگ اور سرٹیفیکیشن فراہم کرے گی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق یورپی ماہرین کی جانب سے پاکستانی ریگولیٹرز کو جدید یورپی معیار کے مطابق ای ٹی ڈی اور ای ڈی ڈی پر خصوصی تربیت دی جائے گی یہ پیش رفت پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے نہایت اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ایوی ایشن ساکھ کو بحال کرنے میں مدد ملے گی یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس فروری کے آغاز میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی سات رکنی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں برطانوی سول ایوی ایشن اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے اہلکار شامل تھے اس ٹیم نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن اور سول ایوی ایشن کا تفصیلی آڈٹ مکمل کیا تھا اس آڈٹ میں مثبت نتائج سامنے آنے کی صورت میں نہ صرف پی آئی اے بلکہ تمام پاکستانی ایئر لائنز پر دو ہزار بیس سے عائد یورپی پابندی کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے یورپی ٹیم کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تصور کیا جا رہا ہے جس سے پاکستان کی ہوابازی صنعت میں نئی روح پھونکے جانے کی امید کی جا رہی ہے
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سول ایوی ایشن پاکستان کی
پڑھیں:
جرمن چانسلر کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ برلن چاہتا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے کیونکہ عالمی سیاست کے موجودہ منظرنامے میں ترکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہاکہ انہوں نے صدر اردوان کو بتایا ہے کہ وہ یورپی سطح پر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کوپن ہیگن معیارات پر بھی بات ہوئی ہے، ہم ایک نئے جغرافیائی سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں بڑی طاقتیں عالمی سیاست کی سمت طے کر رہی ہیں، ایسے میں یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی تمام خارجہ و سیکیورٹی امور میں ایک اہم فریق ہے اور جرمنی اس کے ساتھ سیکیورٹی پالیسی کے میدان میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی پیش رفت مثبت اشارہ ہے اور پہلی بار پائیدار امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے غزہ میں قیامِ امن کے لیے ترکی، قطر، مصر اور امریکا کے کردار کو سراہا تے ہوئے کہا کہ یہ عمل ان ممالک کے بغیر ممکن نہیں تھا، جرمنی اس امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جرمن افسران کو پہلی بار اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک سول-ملٹری سینٹر میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی موجودگی اور حماس کے بغیر گورننس سسٹم قائم کیا جانا ضروری ہے۔
مرز نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ردعمل آیا، وہ اس کا حقِ دفاع ہے، اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت یہ عمل پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔
ترک صدر اردوان نے اس موقع پر کہا کہ ماس کے پاس نہ بم ہیں، نہ ایٹمی ہتھیار، مگر اسرائیل ان ہتھیاروں سے غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جرمنی کو کیا یہ سب نظر نہیں آرہا،چانسلر مرز نے ترکی کی جانب سے یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ طیارے ہماری مشترکہ سیکیورٹی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ تعاون دفاعی و صنعتی شعبے میں نئے مواقع پیدا کرے گا، دونوں ممالک نے ٹرانسپورٹ، ریلویز اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے مزی کہاکہ ہم نیٹو اتحادی ہیں اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی یورپ و اٹلانٹک خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے نیٹو کی متفقہ حکمتِ عملی پر سختی سے عمل ضروری ہے، ترکی اور جرمنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے منجمد اثاثوں سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یورپی یونین و امریکا اس ضمن میں مشترکہ پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ایک سوال پر مرز نے کہا کہ جرمنی اور یورپ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک آزاد اور کھلا معاشرہ ہے جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں آئین کے تحت برابر تحفظ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔