گداگری، پیسہ بنانے کا شرمناک طریقہ… تسلیما لودھی
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
گدا گری ہمارے ملک میں ایک موذی بیماری کی شکل اختیارکرچکی ہے جس کا علاج ممکن ہونے کے باوجود بھی ناممکن نظر آرہا ہے۔ آج کل کے دور میں گداگری ایک مجبوری کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل ایک تنظیم یا گروہ کی شکل اختیارکرچکی ہے جوکہ ایک بڑا کاروبار بنتی جا رہی ہے،کچھ برس پہلے تک گداگر رمضان سے قبل ہی مختلف شہروں میں پھیل جایا کرتے تھے لیکن اب پورے سال ہی ان کا یہ کاروبار چلتا رہتا ہے۔
پاکستان میں مختلف اقسام کے بھکاری پائے جاتے ہیں جیسا کہ مختلف مقامات پرگندے کپڑوں میں عورتیں یا دس سے پندرہ سال کی عمرکے بچے بچیاں چھوٹے چھوٹے شیرخوار بچوں کوگود میں اُٹھائے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور دس روپے یا کسی کھانے پینے کی اشیاء کی ڈیمانڈ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یہ پہلے نمبر والے بھکاری ہوتے ہیں۔
دوسرے ایسے لوگ آپ کو سڑکوں پر دکھائی دیتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی سی اشیاء کو فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں، جیسا کہ پین، پونیاں، لاسٹک ، غبارے وغیرہ جیسی چیزیں بیچتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر ان سے کوئی چیز نہ خریدو تو وہ دس روپے یا آٹا روٹی کا مطالبہ کر دیتے ہیں، جب کہ کچھ بھکاری اچھے کپڑوں میں موجود بٹوے کے گر جانے کا بہانہ کر کے یا توکرائے کے پیسے مانگ رہے ہوتے ہیں یا پھر موٹر سائیکل پر موجود خاتون کے ساتھ پٹرول کے پیسے مانگ رہے ہوتے ہیں یا پھر کوئی گونگا بنا گلے میں چارٹس لٹکائے اور ساتھ میں وہیل چیئر پرکسی معذورکو بٹھائے، ہاتھ میں کسی نہ کسی ڈاکٹرکا نسخہ پکڑے کسی بیماری کا بتا کر دوائیاں دلوانے کا کہہ کر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں اگرچہ کوئی نہ کوئی انھیں دوائیاں دلوا بھی دیں تو یہ لوگ اُن دوائیوں کو کیش کروا لیتے ہیں۔
جیسے ہر پیشے کو اپنانے کے نَت نئے طریقے ہوتے ہیں ویسے ہی ہر پیشے میں مختلف قسم کے لوگ بھی بھرتی ہوتے ہیں، ہر شعبے میں اپ گریڈ اور لیولز ہوتے ہیں۔ ایسے ہی تیسرے نمبر پر اونچے لیول کے بھکاری بھی پائے جاتے ہیں۔ کہیں کسی خوبصورت اور اچھی خاندانی نظر آنے والی لڑکیوں کو کسی نہ کسی بزرگ کے ساتھ کسی سڑک پر چادر بچھا کر بٹھا دیا جاتا ہے یا پھر پوری فیملی بوڑھے والدین، دو بیٹیاں اچھے ملبوسات پہنے یا عبایوں میں فٹ پاتھ پر بیٹھی دکھائی دیتی ہیں جنھیں کسی ظالم بہو بیٹے یا بھائی بھاوج نے گھر سے نکال دیا ہوتا ہے۔ کبھی کسی فٹ پاتھ پر دو جوان میاں بیوی دو بچوں کو گودوں میں اُٹھائے الگ سے کسی فٹ پاتھ پر نظریں جھکائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
پوچھے جانے پر یہ لوگ ایک ہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ نوکری سے نکال دیا گیا تھا اورکرایہ نہیں دے سکے تو مالک مکان نے بھی گھر سے نکال دیا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اونچے طبقے والے بھکاری ہوتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا سو، دو سو، پانچ سو یا ہزار سے کچھ نہیں بنتا جب کہ لوگ واقعی میں ایسے بھکاریوں کو مجبور مان کر اُنھیں پانچ ہزار تک بھیک دیتے ہیں کہ جاؤ اپنے گھرکا کرایہ بھر دو یا وغیرہ وغیرہ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے بھکاری لوگوں سے پُکارکر پیسے نہیں مانگتے۔
بس سر جھکائے ایسے مجبور ہر لاچاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سامنے والا خود آ کر پوچھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بھائی کیا ہوا؟ یہاں کیوں ایسے بیٹھے ہو؟جب کہ اگر انھی جیسے لوگوں کوکبھی نوکری کے لیے کہا جائے تو کسی نہ کسی بات یا بیماری کا بہانہ بنا کر اُن سے جتنے ہو سکیں پیسے وصول کر لیتے ہیں، تاکہ دینے والے کو شک نہ ہو سکے۔
بھکاری ایک نوکری پیشہ آدمی یا کاروباری آدمی سے زیادہ دن بھر میں پیسے اکھٹے کر لیتے ہیں۔کونوں میں بیٹھے یہ نوٹوں کی گڈیاں گنتے لوگ رات کو سب کمائی اپنے ٹھیکیدار کو دیتے ہیں۔بے شک ملک کے حالات کافی حد تک خراب ہیں، لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہے نوکریاں بھی مشکل سے ہی مل رہی ہیں، کیونکہ ملکی معاشی حالات کی خرابی کی وجہ سے لوگ اپنا کاروبار پاکستان سے سمیٹتے جا رہے ہیں۔ کاروبار میں کمی کے باعث پانچ افراد کی جگہ ایک ہی بندہ کام کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایک طرف بڑھتی مہنگائی اور دوسری طرف نوکریوں کی کمی کی وجہ سے بھی لوگ اس پیشے کو اپنانے پہ مجبور ہیں۔ان پیشہ ورانہ بھکاریوں کی وجہ سے سفید پوش لوگ جو واقعی میں ضرورت مند ہیں اُنھیں بھی لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں بھی پیشہ ور بھکاری سمجھتے ہیں جس سے اُن لوگوں کا حق بھی مارا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ضرورت مند ہونے کے ساتھ ساتھ سفید پوش بھی ہوتے ہیں جو کہ فاقے کرتے کرتے جب مرنے کی ڈگر پر پہنچ جاتے ہیں تب مانگنے کے لیے نکلتے ہیں جب کہ پیشہ ور نہیں ہونے کی وجہ سے اُنھیں دیگر پیشہ ور بھکاریوں جیسے مانگنے کے طور طریقے نہیں آتے لیکن پھر بھی وہ مجبوری میں اپنے پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے سڑکوں پر بطورِ بھکاری نکل آتے ہیں۔
عزتِ نفس اجازت دے نہ دے لیکن پیٹ کو بھرنے کے لیے پھر جو حربے اپنا سکتا ہے ایسا شخص وہ اپناتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی عزتِ نفس کو پسِ پردہ ڈال کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مانگنے کا سلسلہ شروع اس لیے بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے عزیز و اقارب سے بھی نہیں مانگ سکتے، اس لیے اپنے عزیز و اقارب کے علاقوں سے کہیں دور ہی جا کر بھیک مانگتے ہیں، لیکن اگر معاشی طور پر مستحکم لوگوں کو اپنے ارد گرد یا اپنے رشتے داروں میں مستحقین افراد نظر آجائیں تو ایسے لوگوں کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے نہ پڑیں جب کہ گداگری کی شرح میں کسی حد تک کمی بھی آ سکتی ہے، ایسے لوگوں کو گداگر بننے سے بچایا بھی جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ایسے لوگوں کی بات کریں گے جو کہ بہ حالتِ مجبوری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں تو ایسے لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہوگا، جیساکہ مختلف ہنر مند لوگوں کی جگہ پڑھے لکھے نوجوانوں نے لے لی ہے جس کی وجہ سے ہنر مند لوگوں کا طبقہ بیروزگاری کا شکار ہوا اور بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا۔
مثال کے طور پرایک کمپنی ایک پڑھے لکھے الیکٹرک انجینئر کو نوکری دینے پر زیادہ ترجیح دیتی ہے نسبتا اُس شخص کے جس نے بچپن سے اس ہنر میں برسوں لگا دیے ہوں اور جس کے پاس ماسوائے اُس ہنرکے کچھ بھی نہ ہو تو اُس آدمی کے پاس بھیک مانگنے کے لیے کوئی چارہ نہیں رہتا۔ تو ہر کمپنی یا ادارے میں ہنر مند اور ان پڑھ لوگوں کا کوٹہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ لوگ گدا گری پر مجبور نہ ہوں یا اگر کسی کی نوکری کسی بھی وجہ سے چلی جائے تو حکومت کو اُس کی چند ماہ کے لیے اُجرت مقرر دے اور اُس پر نوکری کی تلاش کا بھی پریشر رکھے تاکہ اُسے بیٹھ کرکھانے کی عادت نہ ہو، جب کہ دوسری جانب وہ لوگ جن کا کوئی کمانے والا نہیں ہے اور اُن کی عمر بھی کمانے والی نہیں ہو تو حکومت ایسے بزرگوں اور بچوں کے ماہانہ اخراجات پورا کرنے کے لیے اُنھیں ایک بھرپور رقم یا راشن، دوا سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء فراہم کرے تاکہ ایسے لوگ گداگری جیسی لعنت میں ملوث نہ ہوں۔
اب آئی بات اُن لوگوں کی جنھوں نے گداگری اپنا پیشہ بنا رکھا ہے، ایسے گداگروں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے اُن کا ڈیٹا ہونا لازمی ہے جس سے اُن کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے ، تاکہ کارروائی اور اقدامات میں آسانی ہوسکے۔ حکومت کو چاہیے کہ پہلے ایسے گداگروں کو وارننگ دے اور پھر بھاری مالی جُرمانے عائدکرے، جیل میں اُن سے سخت سے سخت کام لیا جائے تاکہ اُنھیں محنت کرنے کی عادت ہو سکے،جب کہ دیگر اقدامات یا کارروائیوں میں ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایسے گداگروں کے خلاف عوام کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی جائے کہ گداگری جیسے کاروبار اور لعنت کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے عوام کو ایسے لوگوں کو پیسے دینے سے گریز کرنا ہوگا۔
اس حوالے سے ملک میں قائم این جی اوز بھی اپنا بہترکردار ادا کرسکتی ہیں کہ اگرکسی شخص کو غریبوں کے لیے کچھ کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے تو اپنے ارد گرد یا اپنے عزیز و اقارب میں سب سے پہلے دیکھے یا پھر ایسی این جی اوزکو دے جو واقعی میں غریبوں کی مدد کے لیے ہر وقت کوشاں رہتی ہیں۔ پاکستان سے گداگر نہیں،گداگری کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایسے لوگوں کو سب سے پہلے بھیک مانگ کی وجہ سے ایسے لوگ ہوتے ہیں لوگوں کا کے لیے ا ا نھیں سے لوگ ہیں جو ہیں کہ
پڑھیں:
یو این امدادی کوششوں میں اسرائیلی رکاوٹوں سے غزہ میں بھوک کا راج
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 مئی 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بھوک کا بدترین بحران پھیل چکا ہے جہاں پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچارہے اور اسے امداد فراہم کرنے کی کوششوں کو اسرائیلی حکام کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ غزہ دنیا میں 'بھوکا ترین علاقہ' بن گیا ہے۔
امدادی کارروائیوں کو جس قدر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اس کی نہ صرف دنیا بلکہ حالیہ تاریخ میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ Tweet URLانہوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں کیریم شالوم کی سرحد کھولے جانے پر امدادی سامان کے 900 ٹرک غزہ میں بھیجنے کی اجازت ملی تھی جن میں 600 سے بھی کم علاقے میں پہنچ سکے ہیں۔
(جاری ہے)
جن ٹرکوں سے سامان اتار کر لوگوں میں تقسیم کے لیے بھیجا گیا ہے ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ اسرائیلی حکام نے جن راستوں پر امداد لے جانے کی اجازت دی ہے وہ غیرمحفوظ ہیں جبکہ امدادی کارروائیوں کی منظوری بھی تاخیر سے ملتی ہے۔بھوک، مایوسی اور لوٹ مارجینز لائرکے نے کہا ہے کہ امداد کی جتنی مقدار غزہ میں پہنچ رہی ہے وہ لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔
بھوکے اور مایوس لوگ امدادی ٹرکوں کو راستے میں ہی روک کر امدادی سامان اتار لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ امداد انہی لوگوں کے لیے لائی جاتی ہے لیکن اسے تمام لوگوں کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے تحت تقسیم ہونا چاہیے۔بدھ کو بھوکے ہجوم نے دیرالبلح میں عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے امدادی گودام سے آٹا لوٹ لیا تھا۔
اس دوران دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔غزہ کی سرحد پر امداد کے ڈھیرترجمان نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کی جانب سے فراہم کردہ امداد کے ہزاروں صندوق غزہ کی سرحد پر پڑے ہیں جنہیں اجازت ملنے پر مختصر وقت میں غزہ کے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ امداد عالمی عطیہ دہندگان نے مہیا کی ہے جو اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کیے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے نجی ادارے 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کے زیراہتمام امداد کی فراہمی بھی شروع ہو گئی ہے جس میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں۔ منگل کو اس ادارے کی جانب سے امداد کی تقسیم کے موقع پر ہنگامہ آرائی میں 47 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
'متبادل' امدادی طریقہ ناکاممقبوضہ فلسطینی علاقے میں 'اوچا' کے سربراہ جوناتھن ویٹل نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے اس منصوبے میں دانستہ بہت قلیل مقدار میں امداد تقسیم کی جا رہی ہے۔
لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے وسطی و جنوبی غزہ میں چار مراکز قائم کیے ہیں جن کی حفاظت امریکہ کے نجی سکیورٹی ادارے کرتے ہیں۔ جو فلسطینی ان مراکز تک پہنچ جاتے ہیں انہیں خوراک مل جاتی ہے اور دیگر محروم رہتے ہیں۔جینز لائرکے نے کہا ہے کہ امداد کی تقسیم کا یہ 'متبادل طریقہ' ناکام ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے غیرجانبداری کے اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے جس کے تحت سبھی کو بلاتفریق مدد پہنچائی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے ابتری اور انتہائی خطرناک حالات نے جنم لیا ہے۔ اگر کوئی شخص امدادی مرکز سے مدد لینے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اسے باہر نکلتے ہی لوٹ لیا جاتا ہے۔
انہوں نے امدادی برادری کے مطالبے کو دہراتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے تمام راستے کھول کر لوگوں کو بڑے پیمانے پر مدد پہنچانے کی اجازت دے تاکہ ضرورت مند اپنے ٹھکانوں پر خوراک اور دیگر اشیا حاصل کر سکیں۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ اس وقت غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ علاقے میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں اور 18 مارچ کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد تقریباً 635,000 لوگوں کو دوبارہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔