Express News:
2025-06-09@22:16:36 GMT

کہاں سے لاؤں ایسے جہاندیدہ لوگ

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

نجانے کیوں یہ تین اپریل کا دن اور شب پاکستانی سیاسی تحریک کے دلسوز واقعات اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ عوام ابھی تک چار اپریل بھٹوکی عدالتی پھانسی کے واقعے کو ہی نہ بھول پائے ہیں کہ اس برس کمیونسٹ تحریک اور ڈی ایس ایف طلبہ تحریک کے ہر اول دستے کے اہم رہنما ڈاکٹر ہارون کے انتقال کی خبر نے سب دوستوں کو غمگین کردیا۔

ابھی دوست ڈاکٹر ہارون کی سیاسی و طلبہ تحریک کے دنوں کو یاد کر رہے تھے کہ سوئیڈن سے رات گئے افسوسناک خبر آگئی کہ آمر جنرل ضیا کے خلاف لائلپورکی صحافی تحریک کا اہم ساتھی اور ترقی پسند شاعر مسعود قمر اپنی پیدائش کے دن مٹی کی یادوں میں آشفتہ سر جھکائے مٹی حوالے ہو چلے۔ وہ ہر اس شہنشاہ کا ازلی مزاحمت کار تھا جو شاہ جبر اور طاقت کے بل بوتے پر عوام کی مرضی کے خلاف عوام پر حکمرانی کرے۔

مجھے لائلپور کا وہ زمانہ ہے جب روس میں گورباچوف کے گلاسنوسٹ اور پریسترائیکا کا بھوت پاکستان کے سکہ بند نظریاتی افراد پر اپنے اثرات ڈال رہا تھا اور سوشلسٹ کھال پہنے ہوئے بہت سے تونگر بے نقاب ہو رہے تھے، مگراسی دوران لائلپورکے نظریاتی دوست اس سارے معاملے پر سنجیدگی سے غور و فکر کر رہے تھے۔ ڈاکٹر تنویر شیخ کی نگرانی میں تعمیر ہونے والے کامریڈ عزیزکا شاہکارگھر مارکسزم میں پیش آنے والے واقعات اور چیلنجز کے غور و فکر کا مسکن رہا کرتا تھا، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ہم خیال دوست سر جوڑکر از سرنو سیاست کرنے کے نئے زاویے کی تلاش میں گھنٹوں ایک ایک نکتے پر بحث کرتے تھے۔

اس دوران اکثر لائلپور کی سیاست، ادب صحافت اور ٹریڈ یونین سیاست پرگفتگو رہتی۔ ٹریڈ یونین اور ادبی سرگرمیوں میں ان دنوں امجد سلیم بہت متحرک رہا کرتے اور بعد کو امجد سلیم نے لکھنے پڑھنے کے عمل کی چھپائی کو باقاعدہ اوڑھنا بچھونا کر لیا جب کہ امجد سلیم کا لاہور میں بھی تحرک لائلپور کی سرگرمیوں ایسا ہی ہے، یوں تو لائلپورکی مزدور تحریک اور کمیونسٹ سیاسی تحریک میں ڈاکٹر تنویر شیخ، کلثوم جمال، عاصم جمال اور عزیز احمد نے ہمیشہ متحرک کردار ادا کیا، مگر دوسری جانب لائلپور شہر کی کمیونسٹ دوستیاں بھی ہمیشہ قابل رشک رہیں۔ دوستوں کی کوئی محفل لائلپور کے صحافی و ادیب مسعود قمرکے ذکر بنا مکمل نہیں ہوتی تھی۔

مسعود قمر لائلپور میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک متحرک کامریڈ کی زندگی کو صحافت کی بلندی اور ضیا کے جبر کے خلاف 1978 کی ملک گیر صحافتی تحریک کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے لائلپور سے گرفتاری دی اور بقول ’’ احفاظ الرحمن‘‘ اس صحافتی تحریک میں مسعود قمر ایک منفرد کردار کے طور پر ابھرکر سامنے آئے، انھیں رہا کردیا گیا، مگر انھوں نے گھر جانے کے بجائے دوبارہ گرفتاری پیش کردی، مسعود پر بار بار شدید تشدد کیا گیا مگر وہ اندر سے مضبوط رہے، اس کے بعد یہ بھی ایک منفرد پہلو ہے کہ تحریک ختم ہونے کے بعد تمام ساتھیوں کو رہا کردیا گیا، لیکن مسعود قمر کی باغیانہ روش کے باعث حکام ایک طویل عرصے بعد ہی، ہائی کورٹس کی مداخلت کے باعث انھیں رہا کرنے پر مائل ہوئے۔ یہ ہی نہیں بلکہ مسعود قمر کی باغیانہ کمیونسٹ صفات کی بنا پر اس وقت کے حکمران نے انھیں سویڈن میں جلاوطن ہونے پر مجبورکیا۔

 مسعود قمر پکے مارکسسٹ ہونے کی نشانیاں اکثر اپنی تخلیقات/ نظم میں دیتے ہوئے آپ ان کی بے چین و مضطرب روح کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
صرف اور صرف پاؤں رکھنے والا مسافر
کبھی منزل پہ پہنچ نہیں پاتا
اس کے تھیلے میں
سب کچھ ہوتا ہے
سوائے مسافرت کے!
ماں جیسی ریاست کے تصور میں مسعود قمر کی دلسوزی اور احتجاج اپنے پورے مارکسسٹ نظریے کے ساتھ اس کے ’’ بارش بھرا تھیلا‘‘ میں اس کے وطن کا کرب ملے گا۔
دن بھر مزدور
میرے جسم پہ 
سفیدی کرتا رہتا ہے
مزدور، طالب علم اور لاپتہ افراد کے ورثا
اپنے احتجاجی کیمپوں کی میخیں
میرے ہاتھوں میں گاڑتے رہتے ہیں
میں تھک جاتا ہوں
میں گر پڑتا ہوں!

مسعود قمر جنوری 2023 میں اپنی کتابیں میرے اور تنویر شیخ کے حوالے کر گیا اور وعدہ کیا کہ وہ اپنی آیندہ کتاب کی رونمائی شہر شہرکرے گا، جس کا مسودہ اس کے لائلپوری دوست اور سانجھ پبلی کیشن کے امجد سلیم کے پاس ہو تبھی تو قمر نے 2 اپریل کو سرورق کی تصویر امجد سلیم کو بھیجی تھی، امجد اور لائلپور اب مسعود قمرکوکہاں ڈھونڈیں گے؟شایدکہ سب دوست مل کر مسعود قمرکو واپس لے آئیں۔

تلاش تو طلبہ تحریک کے اس بہادر اور بے خوف ڈاکٹر ہارون کو بھی دوست کر رہے ہیں جس نے اپنے ساتھیوں ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ساتھ کمیونسٹ فکر طلبہ تنظیم کو پورے ملک کے طلبہ کا حوصلہ بنایا تھا، ریاست کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر طلبہ حقوق حاصل کیے تھے، ڈاکٹر ہارون کے نظریے کی استقامت ہی تو تھی کہ جبر کی ریاست میں عوام کی آوازکا استعارہ تھا۔ ڈاکٹر ہارون احمد، شاہد حسین کا اطمینان تھا کہ وہ اس وقت تک نہیں مرسکتا جب تک ڈاکٹر ہارون زندہ ہیں۔

اب ڈاکٹر ہارون کی نظریاتی ہلچل اور فکر سمٹ کر انسانی حقوق کا چولا پون کر جدوجہد اور حقوق کی جنگ لڑنے سے اپاہج ہو چکی ہے، سول سوسائٹی کے چوغے میں انسانی حقوق کے نعرے ہیں، مزدور حقوق کی آوازیں اور فنڈز ہیں مگر نہیں ہے تو وہ نظریاتی سنجیدگی اور سیاسی رکھ رکھاؤ جو ڈاکٹر ہارون نے ہزاروں ذہنی اپاہجوں میں پیدا کردیا تھا۔ ڈاکٹر ہارون اور ان کے سارے نظریاتی ساتھی آج بھی جمہورکے دشت کو صحرا ہونے سے کسی نہ کسی طرح بچائے ہوئے ہیں، صرف اپنے نظریات کی استقامت اور اس کی سچائی پر۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر ہارون امجد سلیم تحریک کے

پڑھیں:

ڈاکٹر، مگر کونسا؟

آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!

ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔

پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔

ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ  اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔

ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔

یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔

ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری  آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔

ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔

جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟

آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔

ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟

جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔

ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔

اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔

اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔

وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔

ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس

ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی

ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔

اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری  لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟

باقی آئندہ

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ایم بی بی ایس تشخیص ڈاکٹر طب علاج میڈیسن میڈیکل

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے حلوہ پوری اورسری پائے دنیا کے 100 بہترین ناشتوں کی فہرست میں شامل
  • کے پی کو 700 ارب روپے دہشتگردی کے خلاف ملے، وہ کہاں گئے؟ گورنر
  • عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن بھی سی ڈی اے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی انتھک محنت جاری
  • ڈیرہ اسماعیل خان: گاڑی کھائی میں گرنے سے 4 افراد جاں بحق
  • شہباز شریف کا ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ٹیلیفونک رابطہ، علاقائی، عالمی پیشرفت پر تبادلہ خیال
  • صدر اور وزیراعظم سمیت اہم شخصیات نے نماز عید کہاں ادا کی؟
  • فیصل آباد: عید کے موقع پر افسوسناک واقعہ، دیرینہ دشمنی پر 3 افراد قتل
  • آج ملک میں کہاں گرمی کی لہر، کہاں آندھی اور کہاں بارش ہوگی؟
  • وزیراعظم سمیت اہم شخصیات نے عید کی نماز کہاں ادا کی؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟