کہاں سے لاؤں ایسے جہاندیدہ لوگ
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
نجانے کیوں یہ تین اپریل کا دن اور شب پاکستانی سیاسی تحریک کے دلسوز واقعات اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ عوام ابھی تک چار اپریل بھٹوکی عدالتی پھانسی کے واقعے کو ہی نہ بھول پائے ہیں کہ اس برس کمیونسٹ تحریک اور ڈی ایس ایف طلبہ تحریک کے ہر اول دستے کے اہم رہنما ڈاکٹر ہارون کے انتقال کی خبر نے سب دوستوں کو غمگین کردیا۔
ابھی دوست ڈاکٹر ہارون کی سیاسی و طلبہ تحریک کے دنوں کو یاد کر رہے تھے کہ سوئیڈن سے رات گئے افسوسناک خبر آگئی کہ آمر جنرل ضیا کے خلاف لائلپورکی صحافی تحریک کا اہم ساتھی اور ترقی پسند شاعر مسعود قمر اپنی پیدائش کے دن مٹی کی یادوں میں آشفتہ سر جھکائے مٹی حوالے ہو چلے۔ وہ ہر اس شہنشاہ کا ازلی مزاحمت کار تھا جو شاہ جبر اور طاقت کے بل بوتے پر عوام کی مرضی کے خلاف عوام پر حکمرانی کرے۔
مجھے لائلپور کا وہ زمانہ ہے جب روس میں گورباچوف کے گلاسنوسٹ اور پریسترائیکا کا بھوت پاکستان کے سکہ بند نظریاتی افراد پر اپنے اثرات ڈال رہا تھا اور سوشلسٹ کھال پہنے ہوئے بہت سے تونگر بے نقاب ہو رہے تھے، مگراسی دوران لائلپورکے نظریاتی دوست اس سارے معاملے پر سنجیدگی سے غور و فکر کر رہے تھے۔ ڈاکٹر تنویر شیخ کی نگرانی میں تعمیر ہونے والے کامریڈ عزیزکا شاہکارگھر مارکسزم میں پیش آنے والے واقعات اور چیلنجز کے غور و فکر کا مسکن رہا کرتا تھا، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ہم خیال دوست سر جوڑکر از سرنو سیاست کرنے کے نئے زاویے کی تلاش میں گھنٹوں ایک ایک نکتے پر بحث کرتے تھے۔
اس دوران اکثر لائلپور کی سیاست، ادب صحافت اور ٹریڈ یونین سیاست پرگفتگو رہتی۔ ٹریڈ یونین اور ادبی سرگرمیوں میں ان دنوں امجد سلیم بہت متحرک رہا کرتے اور بعد کو امجد سلیم نے لکھنے پڑھنے کے عمل کی چھپائی کو باقاعدہ اوڑھنا بچھونا کر لیا جب کہ امجد سلیم کا لاہور میں بھی تحرک لائلپور کی سرگرمیوں ایسا ہی ہے، یوں تو لائلپورکی مزدور تحریک اور کمیونسٹ سیاسی تحریک میں ڈاکٹر تنویر شیخ، کلثوم جمال، عاصم جمال اور عزیز احمد نے ہمیشہ متحرک کردار ادا کیا، مگر دوسری جانب لائلپور شہر کی کمیونسٹ دوستیاں بھی ہمیشہ قابل رشک رہیں۔ دوستوں کی کوئی محفل لائلپور کے صحافی و ادیب مسعود قمرکے ذکر بنا مکمل نہیں ہوتی تھی۔
مسعود قمر لائلپور میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک متحرک کامریڈ کی زندگی کو صحافت کی بلندی اور ضیا کے جبر کے خلاف 1978 کی ملک گیر صحافتی تحریک کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے لائلپور سے گرفتاری دی اور بقول ’’ احفاظ الرحمن‘‘ اس صحافتی تحریک میں مسعود قمر ایک منفرد کردار کے طور پر ابھرکر سامنے آئے، انھیں رہا کردیا گیا، مگر انھوں نے گھر جانے کے بجائے دوبارہ گرفتاری پیش کردی، مسعود پر بار بار شدید تشدد کیا گیا مگر وہ اندر سے مضبوط رہے، اس کے بعد یہ بھی ایک منفرد پہلو ہے کہ تحریک ختم ہونے کے بعد تمام ساتھیوں کو رہا کردیا گیا، لیکن مسعود قمر کی باغیانہ روش کے باعث حکام ایک طویل عرصے بعد ہی، ہائی کورٹس کی مداخلت کے باعث انھیں رہا کرنے پر مائل ہوئے۔ یہ ہی نہیں بلکہ مسعود قمر کی باغیانہ کمیونسٹ صفات کی بنا پر اس وقت کے حکمران نے انھیں سویڈن میں جلاوطن ہونے پر مجبورکیا۔
مسعود قمر پکے مارکسسٹ ہونے کی نشانیاں اکثر اپنی تخلیقات/ نظم میں دیتے ہوئے آپ ان کی بے چین و مضطرب روح کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
صرف اور صرف پاؤں رکھنے والا مسافر
کبھی منزل پہ پہنچ نہیں پاتا
اس کے تھیلے میں
سب کچھ ہوتا ہے
سوائے مسافرت کے!
ماں جیسی ریاست کے تصور میں مسعود قمر کی دلسوزی اور احتجاج اپنے پورے مارکسسٹ نظریے کے ساتھ اس کے ’’ بارش بھرا تھیلا‘‘ میں اس کے وطن کا کرب ملے گا۔
دن بھر مزدور
میرے جسم پہ
سفیدی کرتا رہتا ہے
مزدور، طالب علم اور لاپتہ افراد کے ورثا
اپنے احتجاجی کیمپوں کی میخیں
میرے ہاتھوں میں گاڑتے رہتے ہیں
میں تھک جاتا ہوں
میں گر پڑتا ہوں!
مسعود قمر جنوری 2023 میں اپنی کتابیں میرے اور تنویر شیخ کے حوالے کر گیا اور وعدہ کیا کہ وہ اپنی آیندہ کتاب کی رونمائی شہر شہرکرے گا، جس کا مسودہ اس کے لائلپوری دوست اور سانجھ پبلی کیشن کے امجد سلیم کے پاس ہو تبھی تو قمر نے 2 اپریل کو سرورق کی تصویر امجد سلیم کو بھیجی تھی، امجد اور لائلپور اب مسعود قمرکوکہاں ڈھونڈیں گے؟شایدکہ سب دوست مل کر مسعود قمرکو واپس لے آئیں۔
تلاش تو طلبہ تحریک کے اس بہادر اور بے خوف ڈاکٹر ہارون کو بھی دوست کر رہے ہیں جس نے اپنے ساتھیوں ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ساتھ کمیونسٹ فکر طلبہ تنظیم کو پورے ملک کے طلبہ کا حوصلہ بنایا تھا، ریاست کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر طلبہ حقوق حاصل کیے تھے، ڈاکٹر ہارون کے نظریے کی استقامت ہی تو تھی کہ جبر کی ریاست میں عوام کی آوازکا استعارہ تھا۔ ڈاکٹر ہارون احمد، شاہد حسین کا اطمینان تھا کہ وہ اس وقت تک نہیں مرسکتا جب تک ڈاکٹر ہارون زندہ ہیں۔
اب ڈاکٹر ہارون کی نظریاتی ہلچل اور فکر سمٹ کر انسانی حقوق کا چولا پون کر جدوجہد اور حقوق کی جنگ لڑنے سے اپاہج ہو چکی ہے، سول سوسائٹی کے چوغے میں انسانی حقوق کے نعرے ہیں، مزدور حقوق کی آوازیں اور فنڈز ہیں مگر نہیں ہے تو وہ نظریاتی سنجیدگی اور سیاسی رکھ رکھاؤ جو ڈاکٹر ہارون نے ہزاروں ذہنی اپاہجوں میں پیدا کردیا تھا۔ ڈاکٹر ہارون اور ان کے سارے نظریاتی ساتھی آج بھی جمہورکے دشت کو صحرا ہونے سے کسی نہ کسی طرح بچائے ہوئے ہیں، صرف اپنے نظریات کی استقامت اور اس کی سچائی پر۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر ہارون امجد سلیم تحریک کے
پڑھیں:
ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
فاروق بھائی، فلم دیکھیں گے؟
برادرِ محترم ڈاکٹر خلیل طوقار نے یہ سوال پوچھا تو میں چونک گیا۔ احباب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر خلیل طوقار سنجیدہ فکر ادیب اور محقق ہیں اتنے سنجیدہ کہ افسانہ و ناول کو بھی ان کی توجہ پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ پس منظر تھا جب انھوں نے فلم دیکھنے کی دعوت دی تو میں چونکا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اعلان کے مطابق ہفتہ ترکیہ منایا جا رہا تھا۔
ترکیہ کی قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر عالمی استعماری طاقتوں نے نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے بلکہ استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں ترکیہ کی آزادی ہی داؤ پر لگ گئی۔
یہ بڑا مشکل زمانہ تھا، مگر ترکیہ کی قومی فوج نے غازی مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں استعماری قوتوں کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی اور اپنے ملک کی آزادی برقرار رکھی۔ اکتوبر 1915 میں چناق قلعے کا معرکہ ہوا جس میں اتحادی فوج کو فیصلہ کن شکست ہوئی، اور 29 اکتوبر 1923 کو غازی مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو دارالحکومت قرار دے کر جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کیا۔ ہمارے ترک بھائی یہ دن بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ اسی تاریخی پس منظر پر مبنی وہ فلم تھی جسے دیکھنے کی دعوت مجھے ڈاکٹر خلیل طوقار نے دی۔
فلم کا نام ہے آخری خط۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کی فضائیہ کے ایک بہادر پائلٹ صالح کی سرفروشی اور محبت کی کہانی ہے۔ ترکیہ میں میرا آنا جانا بہت رہا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران استقلال جادہ سی پر جانا ہمیشہ ایک خوش گوار تجربہ رہا۔ وہاں ہر وقت ہزاروں سیاح مٹرگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان ہی گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے ترکیہ کی فلم انڈسٹری سے بھی تعارف ہوتا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے ہیں، جیسے کبھی ہماری فلموں کے ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایک فلم کا نام یاد ہے بابا میراثی۔ یہ نام دیکھ کر میں چونکا کہ کیا ترکیہ میں بھی میراثی ہوتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہاں میراثی سے مراد صاحبِ میراث ہے، نہ کہ ہمارے روایتی قصہ گو۔ہمارا میراثی تو امتدادِ زمانہ سے بے حال ہو چکا ہے، ورنہ ماضی میں وہ عزت دار شخص تھا جو خاندان کے شجرے کا ریکارڈ رکھا کرتا تھا۔ اگر آج بھی کوئی برگزیدہ میراثی مل جائے تو وہ اپنی بے نظیر یادداشت کے سہارے ایسے دل چسپ انداز میں شجرہ سناتا ہے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
بات کسی اور طرف جا نکلی۔ استقلال جادہ سی میں فلموں کے اشتہار دیکھ کر میری رائے بنی تھی کہ ترکیہ کی فلمیں بھی ہماری فلموں جیسی ہی ہیں۔ اگر کبھی ترکیہ میں کوئی فلم دیکھنے کا موقع ملتا تو شاید یہ خیال بدل جاتا، مگر ایسا کوئی موقع میسر نہ آ سکا۔ اب کئی برس کے بعد ڈاکٹر خلیل طوقار کی دعوت پر یہ فلم دیکھی تو اندازہ ہوا کہ ترکیہ کی فلم انڈسٹری تو معیار کے اعتبار سے ہالی ووڈ کو شرماتی ہے۔فلم دیکھ کر دوہری خوشی ہوئی: ایک فلم کے اعلی معیار کی، اور دوسری وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کی۔ اگر انھوں نے ہفت ترکیہ منانے کا اعلان نہ کیا ہوتا تو شاید یہ فلم دیکھنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
کچھ عرصہ قبل سردیوں کی ایک خوش گوار شب ڈاکٹر خلیل طوقار نے عشائیے کا اہتمام کیا۔ ان کے مہمان دو تھے: برادرِ محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان سطور کا لکھنے والا۔ ڈاکٹر طوقار ترکیہ کے ثقافتی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان شاخ کے سربراہ ہیں۔ پاکستان ان کے لیے اجنبی ملک نہیں ۔وہ اس کے داماد بھی ہیں اور فرزندِ اردو بھی۔ انھوں نے گزشتہ پینتیس چالیس برس میں اردو زبان و ادب کو مالا مال کر دیا ہے۔ تیس چالیس کتابوں کے مصنف ہیں اور ہندکو زبان کی گرامر بھی انھوں نے مرتب کی ہے۔
یوں وہ پاکستان میں ہوں یا ترکیہ میں، ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن وہ چوں کہ ایک سرکاری اسائنمنٹ پر یہاں ہیں، اس لیے انھیں بھی یہ احساس تھا اور ہمیں بھی کہ جیسے ہی وہ واپس جائیں گے، ان کے دم قدم سے قائم یہاں تہذیبی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ یہی احساس تھا جس نے اس رات کے کھانے کو یادگار بنا دیا، کیونکہ اسی نشست میں تجویز ہوا کہ پاک ترکیہ دوستی اور ثقافتی رشتوں میں مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے۔
یہ تنظیم آج بنے یا کل، ان ہی باتوں میں کافی وقت گزر گیا یہاں تک کہ ڈاکٹر یوسف خشک شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر خیرپور جا پہنچے۔ اس پیش رفت نے احساسِ زیاں کو بڑھا دیا۔ یوں مشاورت کا دائرہ وسیع کر دیا گیا جس میں جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر مجیب میمن، ڈاکٹر زاہد مجید، محترمہ نعیم فاطمہ علوی، ڈاکٹر محمد کامران اور ڈاکٹر صدف نقوی سمیت دیگر احباب شامل ہوئے۔ مکمل اتفاقِ رائے سے دوست کے نام سے پاک ترکیہ فرینڈشپ فورم قائم کیا گیا۔اس فورم کے قیام کا اعلان 30 اکتوبر کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا جو ہفتہ ترکیہ کے سلسلے میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شہر کی مختلف جامعات اور کالجوں کے اساتذہ و طلبہ امڈ آئے۔
ہفت ترکیہ کی تقریبات بھرپور رہیں۔ پی این سی اے کے تعاون سے ترک موسیقی کی محفل ہوئی، فلم شو کا ذکر آ چکا۔ لوک ورثہ میں بحیرہ اسود کے معروف رقص ہورون کا مظاہرہ ہوا۔ ترکوں کے مختلف خطوں میں الگ الگ رقص رائج ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت اور روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیبی مظاہر میں نظم و ترتیب کے کیا معنی ہیں۔ ہورون ان سب سے بڑھ کر ہے۔
ہفتہ ترکیہ ہر اعتبار سے کامیاب اور شاندار رہا، پاکستانیوں اور ترک بھائیوں، سب نے مل کر ہفت ترکیہ پورے جوش و خروش سے منایا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں چھ تصویری نمائشوں کے علاوہ خیر پور اور جامعہ کراچی میں ایک ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ ان مواقع پر حاضرین کی تواضع ترک کافی سے کی گئی۔ اس گہما گہمی کے پیچھے ایک بڑی قوت محرکہ یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی تھی جس کے ان تھک سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں جو ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد تشریف لائے ہیں۔ ترکیہ کے تمام سفیر متحرک ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کے عوامی انداز نے ترک سفارت خانے کو بہت متحرک کر دیا ہے یہی سبب ہے کہ اس ہفتے کی رونقیں صرف وفاقی دارالحکومت میں نہیں بلکہ خیرپور کی شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی جیسے دور دراز علاقوں میں بھی دیکھی گئیں۔ہم اب تک یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر آبنائے باسفورس کے اساطیری پل کو پاکستان کے رنگ میں رنگا دیکھتے آئے تھے مگر اس بار پورا پاکستان ترکیہ کے رنگ میں رنگا گیا۔