اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) ماہرین کے مطابق، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے غیر ملکی فری لانسرز کو قانونی طور پر کام کرنے اور ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے کے لیے خصوصی پروگرام متعارف کرائے ہیں۔ تاہم، سخت ویزا پالیسیوں اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث پاکستانی فری لانسرز کے لئے ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

ڈیجیٹل نومیڈ ویزا کیا ہے؟

متحدہ عرب امارات کا ڈیجیٹل نومیڈ ویزا حاصل کرنے والے پاکستانی خالد حسین میر کہتے ہیں یہ ویزا فری لانسرز اور ڈیجیٹل ورکرز کو کسی دوسرے ملک میں رہتے ہوئے بین الاقوامی کلائنٹس یا کمپنیوں کے لئے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے اور بغیر مقامی ملازمت کی شرط کے قانونی رہائش فراہم کرتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ عالمی منڈیوں تک رسائی، بہتر بینکنگ سہولیات، نیٹ ورکنگ کے مواقع اور مستحکم کام کے ماحول کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

خالد حسین کے مطابق، یہ پاکستان میں محدود ادائیگی کے گیٹ ویزا، بینکنگ پابندیوں اور انٹرنیٹ سنسرشپ جیسے چیلنجز کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے، جس سے عالمی ادائیگیوں کی وصولی اور کاروبار کو وسعت دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ بین الاقوامی کلائنٹس کے ساتھ اعتماد اور ساکھ میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

کون سے ممالک نومیڈ ویزا فراہم کرتے ہیں؟

خالد حسین میر کے مطابق، متعدد ممالک پاکستانی فری لانسرز کو ڈیجیٹل نومیڈ ویزا کی سہولت فراہم کرتے ہیں، جن میں متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، پرتگال، اسپین، ایسٹونیا، یونان، کروشیا اورجارجیا شامل ہیں۔

زیادہ تر ممالک ویزا کے لیے چھ ماہ کا بینک اسٹیٹمنٹ، کم از کم چھ ماہ کے لیے درست پاسپورٹ، دور دراز کام کا ثبوت، پولیس کلیئرنس، اور ہیلتھ انشورنس کا تقاضا کرتے ہیں۔ تاہم، ہر ملک کی شرائط مختلف ہو سکتی ہیں۔ نومیڈ ویزا کا حصول کیوں مشکل؟

اسلام آباد کے نوجوان فری لانسر فرحان یونس کے مطابق، پاکستانی فری لانسرز کو ویزا حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ انکم پروف اور ٹیکس اسٹیٹس جیسے غیر واضح دستاویزی تقاضے ہیں، جنہیں خود تیار کرنا پڑتا ہے، جس سے عمل مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹیکس قوانین کی غیر یقینی صورتحال اور دوہرے ٹیکس کے مسائل ویزا درخواست دہندگان کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ریموٹ ورک اور فری لانسنگ کے لیے واضح قانونی فریم ورک نہ ہونے کے باعث ویزا پراسیس مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے کئی فری لانسرز درخواست دینے سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کی کمزور درجہ بندی

خالد حسین میر کے مطابق، پاکستانی پاسپورٹ کی کمزور حیثیت اور حالیہ ملک بدری کے واقعات ویزا کے حصول کو مزید دشوار بنا دیتے ہیں۔

سخت جانچ پڑتال، سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کے الزامات، اور پاکستان میں آن لائن کام پر بار بار عائد کی جانے والی پابندیاں فری لانسرز کے لیے ایک مستحکم اور سازگار کام کے ماحول کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

فرحان یونس کے مطابق، سیاسی عدم استحکام، بیوروکریسی کی پیچیدگیاں، سکیورٹی خدشات اور اقتصادی مشکلات پاکستانی شہریوں کے لیے بین الاقوامی ویزا کے حصول کو دشوار بنا رہی ہیں۔

کئی ممالک فری لانسرز کو ویزا دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں، جبکہ ویزا ملنے کے بعد بھی بعض خطوں میں پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی ٹیلنٹ کا مستقبل

معروف سیاسی ماہرِ معیشت خالد محمود رسول کے مطابق، پاکستان میں آئی ٹی گریجویٹس کی بڑی تعداد اور ضروری مہارتوں کے باعث ایک مضبوط فری لانسر کمیونٹی ابھر کر سامنے آ رہی ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

آئی ٹی سیکٹر کی ترقی روایتی صنعتوں سے مختلف ہے، جہاں ریموٹ ورکنگ اور اوپن کمپیٹیشن کے رجحانات غالب ہیں، جو پاکستانی فری لانسرز کے لیے عالمی مواقع فراہم کرتے ہیں۔

راولپنڈی کی فری لانسر عروج فاطمہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کلائنٹس کم لاگت میں معیاری کام کے حصول کے لیے پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک کو ترجیح دیتے ہیں، جو نہ صرف فری لانسرز کے لیے بہتر آمدنی کے مواقع پیدا کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی کمپنیوں کو کم لاگت میں معیاری کام فراہم کرتے ہیں۔

عروج فاطمہ کے مطابق، اگر انٹرنیٹ اور بنیادی سہولیات کے مسائل حل ہو جائیں تو پاکستان میں فری لانسنگ کا شعبہ مزید ترقی کر سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت میں نجی شعبے کا کردار؟

ماہرِ معیشت خالد محمود رسول کے مطابق، پاکستان کی معیشت میں نجی شعبہ فعال کردار ادا نہیں کر رہا، جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ان کے مطابق دولت کی تخلیق کی حوصلہ شکنی سخت حکومتی پالیسیوں، پیچیدہ ٹیکس نظام اور دیگر عوامل کی وجہ سے کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر پیچیدہ پالیسی سازی اور ماضی کے غیر مستحکم معاشی حالات نے نجی شعبے کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے تو نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ناگزیر ہے۔

پاکستان ایشیائی ممالک سے پیچھے؟

خالد محمود رسول کے مطابق، پاکستان میں قدرتی کاروباری صلاحیت کو وہ ترقی نہیں ملی جو دیگر ایشیائی ممالک میں دیکھنے کو ملی، جس کی وجہ سے ملکی معیشت میں ایس ایم ایز اور بڑی صنعتوں کا حصہ 25 فیصد سے کم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کاروباری ماحول کو آسان اور مارکیٹ کو آزاد رکھا جاتا تو نجی شعبہ زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ٹی ایک منفرد صنعت ہے جو روایتی ماڈلز سے مختلف ہے۔ چونکہ اس شعبے میں ریموٹ ورکنگ عام ہے اور خدمات انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں فراہم کی جا سکتی ہیں، اس لیے یہ اوپن کمپیٹیشن ماڈل پر چلتا ہے، جہاں مہارت کی بنیاد پر عالمی مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔

ادارت جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی فری لانسرز فری لانسرز کے لیے فراہم کرتے ہیں فری لانسرز کو بین الاقوامی پاکستان میں خالد حسین کے مطابق

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • بھارتی وفد کو لندن میں منہ کی کھانی پڑی، پاکستان مخالف ایجنڈا ناکام ہوگیا؛ شیری رحمان
  • امریکا کا دورہ مکمل، پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • امریکہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا
  • امریکا کا دورہ مکمل: پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • امریکا کا دورہ مکمل: پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا
  • ’کرپٹو کڈنیپنگز‘، ڈیجیٹل کرنسی کا تاریک پہلو
  • انکار کیوں کیا؟
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟
  • وزیرخزانہ کی ڈیجیٹل اثاثوں کیلئے قانونی فریم ورک جلد نافذ کرنے کی ہدایت
  • فہد ہارون کی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے ملاقات، ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے علاقائی ترقی پر زور