دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی، یہ سوچ کر عدالت فیصلہ نہیں کر سکے گی، جسٹس جمال خان مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ اگر کوئی سویلین کسی فوجی تنصیب کو نقصان پہنچائے، ٹینک چوری کرے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے، سوال ٹرائل کا ہے۔
وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ قانون بنانے والوں نے طے کرنا ہے ٹرائل کہاں ہوگا، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے،تفتیش کون کرتا ہے، طریقہ کار کیا ہوگا، یہ جاننا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: لارجر بینچ پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا، جسٹس امین الدین خان کے ریمارکس
خواجہ حارث کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت آرمڈ فورسز خود بھی سویلین کی گرفتاری کر سکتی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے،
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کے مطابق آئین پاکستان نے بذات خود کورٹ مارشل کے لیے منفرد اختیار سماعت دے رکھا ہے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جرم کی نوعیت سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے، عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کا موقف
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں پھر یہ بتا دیں، جس پر خواجہ حارث بولے؛ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب جاری رکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیکل 175 آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال خان مندوخیل خواجہ حارث سپریم کورٹ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتیں ملٹری ٹرائل وزارت دفاع.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آرٹیکل 175 جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال خان مندوخیل خواجہ حارث سپریم کورٹ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتیں ملٹری ٹرائل وزارت دفاع فوجی عدالتوں میں سویلینز جسٹس جمال خان مندوخیل سویلینز کا ٹرائل خواجہ حارث وزارت دفاع کے مطابق تھا کہ
پڑھیں:
9 مئی کیس: شاہ محمود قریشی بری، یاسمین راشد و دیگر کو رہنماؤں 10، 10 سال قید
شاہ محمود قریشی—فائل فوٹولاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ، شیر پاؤ پل کیس کا فیصلہ جاری کر دیا، عدالت نے کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا۔
اسی کیس میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے حمزہ عظیم پاہٹ، رانا تنویر اور اعزاز رفیق کو بھی مقدمے سے بری کر دیا۔
عدالت کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد اور میاں محمود الرشید سمیت دیگر ملزمان کو 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
عدالت نے عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چوہدری اور عظیم پاہٹ کو بھی 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی۔
چیئرمین PTI بیرسٹر گوہر کا ردِعملپاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئی ہیں، عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔
پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر آج کے فیصلوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ عدالتیں ناکام ہو گئی ہیں، آج متنازع فیصلوں میں ایک نئے فیصلے کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی اور ساتھیوں نے کہا تھا کہ شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے، آئین و قانون کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک کیس میں مختلف جگہوں پر ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر پنجاب سمیت پی ٹی آئی کے 3 اراکین پارلیمنٹ کو سزا ہوئی۔
9 مئی کیس میں انصاف کا بول بالا ہوا ہے، بیرسٹر عقیلمسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر عقیل نے ملک نے کہا ہے کہ 9 مئی کیس میں انصاف کا بول بالا ہوا ہے، یہ کبھی وکیل پیش نہیں کرتے تھے، کبھی خود پیش نہیں ہوتے تھے۔
’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ تمام شواہد پیش کیے گئے، تمام تقاضے پورے کیے گئے، فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے، فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو کہتے ہیں فیصلہ منظور نہیں۔