غزہ پر جارحیت اور پاکستان میں بیداری
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کیلئے دیگر مسلمان حکومتوں کیساتھ ملکر فوری جنگ بندی کیلئے سفارتکاری کرے اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے، جو ملک کے اندر رہتے ہوئے وطن کی جڑوں اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہیں۔ پس اب غزہ کے ساتھ یہ جذبہ اور یکجہتی فی الوقتی نہ ہو بلکہ غزہ پر جاری جارحیت کے خاتمہ تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنی چاہیئے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
عیدالفطر کے بعد سے پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر جوش میں آچکی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر غزہ میں ہونے والی خطرناک بمباری نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یاد دہانی کروا دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد جنگ ختم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی قتل عام ختم ہوا تھا۔ اگرچہ غزہ کے ساتھ ساتھ اس وقت لبنان، یمن اور شام بھی امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہا ہے لیکن بہرحال پاکستان میں ایک مرتبہ پھر تمام دھڑوں نے غزہ کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا جو کافی عرصہ سے غزہ پر ایک طریقہ سے خاموشی اختیار کرچکا تھا، اب دوبارہ سے غزہ میں ہونے والی جارحیت کو بیان کر رہا ہے۔ ایسے ہی حالات میں جیو نیوز نامی ٹی وی چینل پر کام کرنے والے ایک زرخرید غلام نے فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر بھی کر دیا تھا، لیکن اب چونکہ غزہ پر ہولناک بمباری سوشل میڈیا پر آشکار ہو رہی ہے تو اس طرح کے نیوز چینل بھی مجبوری میں غزہ کی خبریں دے رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و مذہبی اعلیٰ قیادت بھی حرکت میں آئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بیان دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے پہلی مرتبہ سخت موقف لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ جب یہ عالمی ادارہ غزہ میں ظلم بند نہیں کروا سکتا تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے۔؟ بہرحال ہر طبقہ میں ایک مرتبہ پھر بیداری آئی ہے، چھوٹے چھوٹے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، بڑی بری ریلیوں اور جلسوں کے اعلانات بھی کر دیئے گئے ہیں۔ حماس کی اپیل پر سات اپریل کو عالمی ہڑتال کے عنوان سے پاکستان کے تاجروں نے حمایت بھی کر دی ہے، اب اگرچہ مکمل طور پر یہ ہڑتال کامیاب اس معنوں میں نہیں ہوئی ہے کہ بہت سے تاجروں نے دکانیں اور مارکیٹ کھول رکھی ہیں۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور سیاست دانوں سمیت مذہبی رہنمائوں کو تشویش تو لاحق ہوئی ہے، لیکن اس تشویش سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہونا چاہیئے کہ ہم نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے غزہ کے معاملہ کو سردخانہ میں کیوں جانے دیا؟ آخر کیوں ہمارے احتجاج اور جلسوں میں کمی واقع ہوئی؟ آخر کیوں ہم نے امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کم کر دیا؟ کیا غزہ جنگ بندی معاہدے کا مطلب یہ بتایا گیا تھا کہ مسئلہ فلسطین حل ہوگیا ہے۔؟ ہرگز ایسا نہیں تھا۔ آج غزہ میں ہونے والی بمباری میں انسانی اعضاء بم دھماکوں کی شدت سے ہوا میں اڑتے نظر آرہے ہیں، شاید اس لئے کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھوں ہم اب بھی قتل ہو رہے ہیں اور تمھارے تعاون اور مدد کے منتظر ہیں۔
اس مرتبہ جو بیداری آئی ہے تو یہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس تحرک اور بیداری کو سست نہ ہونے دیں، اس بیداری کو مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا کا شکار نہ ہونے دیں ۔عوام کو حرکت میں رکھیں۔ یوتھ اور نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی وقفہ کے فلسطین کے لئے احتجاجی تحریک کے دائرہ کو وسعت دیں اور اس سلسلہ کو تھمنے نہ دیں۔ عوام کے تمام طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک مشترکہ رائے عامہ ترتیب دے کر حکومت کو قائل کریں کہ حکومتیں ایسے اقدامات کی طرف جائیں، جس سے مسئلہ فلسطین کی حمایت کو زیادہ سے زیادہ تقویت حاصل ہوسکے۔ حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے موثر اور جارحانہ سفارتکاری اپنائیں۔
اگرچہ پاکستان میں ایک مایوس سوچ اس لئے بھی جنم لے چکی ہے، کیونکہ پاکستان کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر کا سودا کر لیا ہے، کیونکہ کشمیر پر حکومت کی خاموشی اور سرد پالیسیوں نے عوام کے اذہان میں سوالات ابھار دیئے ہیں، تاہم عوام کو ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان جیسا ایٹمی ملک بھی فلسطینیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا اب سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام خود متحرک رہیں اور اپنے جذبہ کو سرد نہ ہونے دیں۔ جب تک غزہ پر جارحیت بند نہ ہو پاکستان کے عوام کو بیداری کا ثبوت دینا ہوگا اور احتجاج جاری رکھنا ہوگا۔ احتجاج کی کئی ایک اقسام ہیں، جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ این جی اوز اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش بروئے کار لائیں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے دیگر مسلمان حکومتوں کے ساتھ مل کر فوری جنگ بندی کے لئے سفارتکاری کرے اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے، جو ملک کے اندر رہتے ہوئے وطن کی جڑوں اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہیں۔ پس اب غزہ کے ساتھ یہ جذبہ اور یکجہتی فی الوقتی نہ ہو بلکہ غزہ پر جاری جارحیت کے خاتمہ تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنی چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ذمہ داری ہے کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کی ذمہ داری جنگ بندی کے پاکستان کے کہ پاکستان کے ساتھ کے لئے غزہ کے کہ غزہ
پڑھیں:
خلا کی فتح، زمین کی محرومی
اسلام ٹائمز: ریاست کو، اداروں کو، اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خلا میں تیرتا ہوا سیارہ اس وقت تک قوم کی حقیقی جیت نہیں کہلا سکتا جب تک زمین پر انصاف، روزگار، خوراک اور عزت نہ ہو۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک طرف تو ہم چین کیساتھ مل کر خلا میں پرواز کریں، اور دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں، یہ صرف تضاد نہیں، بلکہ ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے۔ قومیں صرف اوپر اُڑ کر نہیں بنتیں، وہ نیچے مضبوط ہو کر پرواز کرتی ہیں۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری
چین کی سرزمین پر جیسے ہی PRSS-02 نامی پاکستانی سیٹلائٹ فضا کی بلند ترین تہہ میں داخل ہوا، پاکستان کیلئے ایک اور ’تاریخی لمحہ‘ رقم ہو چکا تھا۔ یہ کوئی عام مصنوعی سیارہ نہ تھا، بلکہ وہ خواب تھا جو کئی برسوں سے سرکاری دفاتر کی فائلوں میں دبا سسک رہا تھا، کبھی بجٹ کی کٹوتی کی نذر، کبھی نیت کی کمی کا شکار، لیکن اس بار خواب نے محض پرواز نہیں بھری، بلکہ خلا میں جا کر یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان اب صرف زمین پر محدود نہیں رہا۔ یہ سیٹلائٹ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے، زمین کی تصویریں اتارنے یا کسی ایک ادارے کی تحقیق کیلئے نہیں، بلکہ ایک بڑی سوچ کی علامت ہے۔ وہ سوچ جو یہ باور کروا رہی ہے کہ پاکستان مغربی کیمپ کی اجارہ داری سے نکل کر ایک نئے جغرافیائی، سائنسی اور اسٹریٹیجک بلاک میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ بلاک نہ صرف تعاون کی بنیاد پر کھڑا ہے بلکہ مشترکہ ترقی اور خودمختاری کی راہ دکھاتا ہے۔ جب مغربی ادارے پاکستان کو محض قرضوں، شرائط، اور اصلاحات کے خول میں قید کرنے کی کوشش کرتے رہے، چین وہ واحد طاقت بن کر سامنے آیا جس نے نہ صرف تعاون کا وعدہ کیا، بلکہ اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ PRSS-02 اسی اعتماد، اسی دوستی اور اسی سائنسی اشتراک کا مظہر ہے۔ یہ پاکستان کے اُن انجینئرز، سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کی محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے سرخیوں کے بغیر، خاموشی سے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
مگر خلا کے اس سفر کیساتھ زمین پر ایک اور خاموش خبر بھی اتری اور وہ چین سے حاصل کیے گئے جدید Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹر کی پاکستان میں باضابطہ شمولیت سے متعلق ہے۔ یہ محض عسکری سازوسامان کی خریداری نہیں، بلکہ ایک ٹھوس پیغام ہے کہ پاکستان اب اپنی عسکری خودمختاری کے فیصلے صرف واشنگٹن یا ماسکو میں نہیں، بلکہ اسلام آباد اور بیجنگ میں بھی کر رہا ہے۔ Z-10ME جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کا حامل ہے، اور اس کی شمولیت سے پاکستان کا دفاعی نظام نہ صرف مزید مضبوط ہوا ہے بلکہ سفارتی طور پر بھی پاکستان نے دنیا کو یہ جتلا دیا ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتا۔ برسوں سے ہم امریکی شرائط اور روسی پابندیوں کے بیچ الجھے رہے، مگر اب وہ خلا چین کی شراکت سے پُر ہوتا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی سیاسی طعنہ زنی یا شرائط کے۔ یہ دونوں خبریں، سیٹلائٹ کی پرواز اور ہیلی کاپٹر کی شمولیت، بظاہر سائنس و دفاع کے دائرے تک محدود لگتی ہیں، مگر ان کا اصل اثر معاشی، سفارتی اور قومی اعتماد کے دائرے تک جاتا ہے۔ یہ اس اعتماد کی واپسی ہے جسے دہائیوں سے زنگ لگتا رہا۔ یہ بدلتا ہوا تناظر صرف پاکستان ہی نہیں، پورے خطے میں ایک نئی صف بندی کا پتہ دے رہا ہے۔
ایران جیسے ممالک بھی اسی اعتماد سے چین کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، ایران بھی چین سے جدید فضائی دفاعی نظام اور جنگی طیاروں کی خریداری کیلئے پیشرفتہ مذاکرات میں مصروف ہے۔ اگرچہ یہ پیشرفت براہِ راست پاکستان سے متعلق نہیں، لیکن یہ ظاہر کرتی ہے کہ چین خطے میں کئی ممالک کیساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کو نئے انداز سے مستحکم کر رہا ہے اور یہ بدلتی ہوئی عالمی صف بندی کا ایک اور اشاریہ ہے۔ اسی دوران، ایک اور قدرے غیرنمایاں لیکن بڑی خبر آئی، امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان سے درآمدات پر صرف 19 فیصد ٹیرف عائد کرے گا، جبکہ بھارت سے 25 فیصد۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بعض خوش فہم افراد نے اس اعلان کو ایک بڑی کامیابی سمجھ کر جشن منایا، گویا واشنگٹن نے IMF کے بدلے ہمارے آم، کپاس اور چاول خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ٹیرف میں رعایت نہیں، بلکہ ہماری غیر مساوی معیشت کی ایک خاموش چارج شیٹ ہے۔ دنیا ہمیں اب بھی تجارتی طور پر کمزور سمجھتی ہے، اسی لیے ہمیں رعایت دی جاتی ہے، مسابقت نہیں۔ اگر ہماری معیشت واقعی طاقتور اور آزاد ہوتی، تو یہ فرق ہی ختم ہو چکا ہوتا۔ جبکہ درحقیقت پاکستان ایک مقروض ملک ہے، اور اب اس کیساتھ امریکہ نے "مائننگ" کے نام پر ایک بڑا معاہدہ کیا ہے، جس پر راقم سمیت کئی لوگ انگشت بدندان ہیں کہ ایک طرف چین کا پُر خلوص تعاون اور دوسری طرف امریکہ سے معاہدہ، یہ خیال عام ہے کہ اگر یہ معاہدہ چین کے ساتھ ہوتا تو زیادہ مؤثر اور باہمی مفاد کا حامل ہوتا۔ اس معاہدے کے اصل مقاصد اور اسرار تو فی الحال عوام کے سامنے نہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اب پاکستان سے "خریدنے" نہیں، "کمانے" کی نیت سے آیا ہے۔ ایسے میں تو ٹیرف مکمل طور پر ختم ہونے چاہئیں تھے۔
آپ ایک ملک سے معدنیات نکالنے جا رہے ہیں، جس کی معیشت پہلے ہی قرضوں میں دبی ہوئی ہے، تو وہاں سے درآمدات پر ٹیکس کیوں؟ یہ رعایت نہیں، بلکہ اخلاقی ذمہ داری ہونی چاہیے تھی۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے ہمارا میڈیا خوش کن سرخیوں میں لپیٹ کر پیش کر رہا ہے، جب کہ زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے۔ تو سوال وہی ہے جو زمین پر رہتا ہے یعنی کیا PRSS-02 اور Z-10ME جیسے سنگِ میل عام پاکستانی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لا سکیں گے؟ یا یہ صرف اسٹیبلشمنٹ، پالیسی سازوں اور میڈیا کے لیے ایک وقتی واہ واہ کا سامان ہیں؟ کیا وہ کسان جو بادلوں کو دیکھ کر فصل کا اندازہ لگاتا ہے، کبھی سیٹلائٹ سے حاصل کردہ موسمیاتی ڈیٹا سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ کیا وہ نوجوان جو خواب دیکھتا ہے کہ خلا میں کام کرے گا، کبھی ان اداروں تک پہنچ پائے گا جہاں یہ خواب حقیقت میں ڈھلتے ہیں؟ ہم ایک ایسا ملک بن چکے ہیں جہاں بڑی کامیابیوں پر تالیاں بجتی ہیں، مگر ان کے اثرات زمین پر موجود عوام کی زندگی میں اترتے نظر نہیں آتے۔ ہمارا ٹیکس نظام اب بھی عام شہری کی ہڈیوں میں دراڑ ڈال رہا ہے، تعلیمی ادارے خود کشمکش کا شکار ہیں، اور صحت کا شعبہ اب بھی پلاسٹک کی بوتلوں میں آکسیجن ڈال کر گزارا کر رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ خلا میں سیارہ بھیجنا ہماری صلاحیت کا ثبوت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ Z-10ME جیسے آلات سے ہماری عسکری دفاع مضبوط ہوا ہے۔ مگر اصل کامیابی تب ہوگی جب ان فتوحات کا عکس تعلیم، معیشت، صحت، اور انصاف میں نظر آئے گا۔
ریاست کو، اداروں کو، اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ خلا میں تیرتا ہوا سیارہ اس وقت تک قوم کی حقیقی جیت نہیں کہلا سکتا جب تک زمین پر انصاف، روزگار، خوراک اور عزت نہ ہو۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک طرف تو ہم چین کیساتھ مل کر خلا میں پرواز کریں، اور دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں، یہ صرف تضاد نہیں، بلکہ ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے۔ قومیں صرف اوپر اُڑ کر نہیں بنتیں، وہ نیچے مضبوط ہو کر پرواز کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم ’کامیابیاں‘ گنوانے کے ساتھ اُن ’کمیوں‘ کا بھی احتساب کریں جنہیں برسوں سے نظر انداز کیا گیا۔ اور یہ مان لیں اگر ہم خلا میں پہنچ سکتے ہیں تو زمین پر بھی بہت کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔ مگر یہ تب ہوگا، جب ہم نیت کریں گے۔ جب ہم نعرے نہیں، نظام بدلیں گے اور جب ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ "ہاں، یہ سیٹلائٹ عام آدمی کی زندگی میں بھی کچھ بدل چکا ہے۔"