Islam Times:
2025-06-18@11:03:58 GMT

غزہ پر جارحیت اور پاکستان میں بیداری

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

غزہ پر جارحیت اور پاکستان میں بیداری

اسلام ٹائمز: حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کیلئے دیگر مسلمان حکومتوں کیساتھ ملکر فوری جنگ بندی کیلئے سفارتکاری کرے اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے، جو ملک کے اندر رہتے ہوئے وطن کی جڑوں اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہیں۔ پس اب غزہ کے ساتھ یہ جذبہ اور یکجہتی فی الوقتی نہ ہو بلکہ غزہ پر جاری جارحیت کے خاتمہ تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنی چاہیئے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

عیدالفطر کے بعد سے پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر جوش میں آچکی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر غزہ میں ہونے والی خطرناک بمباری نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یاد دہانی کروا دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد جنگ ختم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی قتل عام ختم ہوا تھا۔ اگرچہ غزہ کے ساتھ ساتھ اس وقت لبنان، یمن اور شام بھی امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہا ہے لیکن بہرحال پاکستان میں ایک مرتبہ پھر تمام دھڑوں نے غزہ کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا جو کافی عرصہ سے غزہ پر ایک طریقہ سے خاموشی اختیار کرچکا تھا، اب دوبارہ سے غزہ میں ہونے والی جارحیت کو بیان کر رہا ہے۔ ایسے ہی حالات میں جیو نیوز نامی ٹی وی چینل پر کام کرنے والے ایک زرخرید غلام نے فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر بھی کر دیا تھا، لیکن اب چونکہ غزہ پر ہولناک بمباری سوشل میڈیا پر آشکار ہو رہی ہے تو اس طرح کے نیوز چینل بھی مجبوری میں غزہ کی خبریں دے رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی و مذہبی اعلیٰ قیادت بھی حرکت میں آئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بیان دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے پہلی مرتبہ سخت موقف لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ جب یہ عالمی ادارہ غزہ میں ظلم بند نہیں کروا سکتا تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے۔؟ بہرحال ہر طبقہ میں ایک مرتبہ پھر بیداری آئی ہے، چھوٹے چھوٹے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، بڑی بری ریلیوں اور جلسوں کے اعلانات بھی کر دیئے گئے ہیں۔ حماس کی اپیل پر سات اپریل کو عالمی ہڑتال کے عنوان سے پاکستان کے تاجروں نے حمایت بھی کر دی ہے، اب اگرچہ مکمل طور پر یہ ہڑتال کامیاب اس معنوں میں نہیں ہوئی ہے کہ بہت سے تاجروں نے دکانیں اور مارکیٹ کھول رکھی ہیں۔

لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور سیاست دانوں سمیت مذہبی رہنمائوں کو تشویش تو لاحق ہوئی ہے، لیکن اس تشویش سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہونا چاہیئے کہ ہم نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے غزہ کے معاملہ کو سردخانہ میں کیوں جانے دیا؟ آخر کیوں ہمارے احتجاج اور جلسوں میں کمی واقع ہوئی؟ آخر کیوں ہم نے امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کم کر دیا؟ کیا غزہ جنگ بندی معاہدے کا مطلب یہ بتایا گیا تھا کہ مسئلہ فلسطین حل ہوگیا ہے۔؟ ہرگز ایسا نہیں تھا۔ آج غزہ میں ہونے والی بمباری میں انسانی اعضاء بم دھماکوں کی شدت سے ہوا میں اڑتے نظر آرہے ہیں، شاید اس لئے کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھوں ہم اب بھی قتل ہو رہے ہیں اور تمھارے تعاون اور مدد کے منتظر ہیں۔

اس مرتبہ جو بیداری آئی ہے تو یہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس تحرک اور بیداری کو سست نہ ہونے دیں، اس بیداری کو مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا کا شکار نہ ہونے دیں ۔عوام کو حرکت میں رکھیں۔ یوتھ اور نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی وقفہ کے فلسطین کے لئے احتجاجی تحریک کے دائرہ کو وسعت دیں اور اس سلسلہ کو تھمنے نہ دیں۔ عوام کے تمام طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک مشترکہ رائے عامہ ترتیب دے کر حکومت کو قائل کریں کہ حکومتیں ایسے اقدامات کی طرف جائیں، جس سے مسئلہ فلسطین کی حمایت کو زیادہ سے زیادہ تقویت حاصل ہوسکے۔ حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے موثر اور جارحانہ سفارتکاری اپنائیں۔

اگرچہ پاکستان میں ایک مایوس سوچ اس لئے بھی جنم لے چکی ہے، کیونکہ پاکستان کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر کا سودا کر لیا ہے، کیونکہ کشمیر پر حکومت کی خاموشی اور سرد پالیسیوں نے عوام کے اذہان میں سوالات ابھار دیئے ہیں، تاہم عوام کو ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان جیسا ایٹمی ملک بھی فلسطینیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا اب سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام خود متحرک رہیں اور اپنے جذبہ کو سرد نہ ہونے دیں۔ جب تک غزہ پر جارحیت بند نہ ہو پاکستان کے عوام کو بیداری کا ثبوت دینا ہوگا اور احتجاج جاری رکھنا ہوگا۔ احتجاج کی کئی ایک اقسام ہیں، جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ این جی اوز اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش بروئے کار لائیں۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے دیگر مسلمان حکومتوں کے ساتھ مل کر فوری جنگ بندی کے لئے سفارتکاری کرے اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے، جو ملک کے اندر رہتے ہوئے وطن کی جڑوں اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہیں۔ پس اب غزہ کے ساتھ یہ جذبہ اور یکجہتی فی الوقتی نہ ہو بلکہ غزہ پر جاری جارحیت کے خاتمہ تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنی چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ذمہ داری ہے کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کی ذمہ داری جنگ بندی کے پاکستان کے کہ پاکستان کے ساتھ کے لئے غزہ کے کہ غزہ

پڑھیں:

بڑی طاقتوں میں تقسیم اسرائیل ایران جنگ بندی میں رکاوٹ

اسلام آباد(طارق محمودسمیر) ایران ،اسرائیل تنازعے پر بڑی طاقتوں میں تقسیم جنگ بندی میں بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں مزیدبڑھنے کاخدشہ موجود ہے، امریکی صدرٹرمپ کی طرف سے ایران کے معاملے پر بارہاموقف تبدیل کیاجارہاہے ، چند روز قبل صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیاپر ایک حوصلہ افزاء بیان جاری
کیا،جس میں انہو ںنے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے لئے کرداراداکرنے کاعندیہ دیتے ہوئے کہاہیکہ وہ اسرائیل اور ایر ان کے درمیان بھی ویسے ہی ڈیل کراسکتے ہیں ،جیسے انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرائی ،ان کے اس بیان سے اسرائیل اور ایران کے درمیان جلدجنگ بندی کی امیدپیداہوگئی تھی ، تاہم اگلے ہی روز ایک انٹرویومیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرح سے یوٹرن لیتے ہوئے یہ عندیہ دے دیا کہ امریکا ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہو سکتا ہیاور اب وہ ایران کو واضح طورپر دھمکیاں دے رہے ہیں اورجنگ بندی کے لئے شرائط پیش کررہے ہیں،اسی طرح جرمن چانسلر کی طرف سے بھی ٹرمپ کے موقف کی تائیدکرتیہوئے کہاجارہاہے کہ ایران کاایٹمی پروگرام روکناضرور ی ہے، ادھرروس اور چین کی طرف سے اسرائیل ،ایران کے درمیان جنگ بندی کے لئے اپناکرداراداکرنی کی پیشکش کی جارہی ہے لیکن امریکہ سمیت اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل کی وجہ سے اس پرٹھوس پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی،ٹرمپ ایک طرف اسرائیل ایران جنگ کو بڑھاوادینے کی باتیں کررہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان اوربھارت درمیان جنگ بندی کرانے کاکریڈٹ لیتے ہوئے امن کے نوبل امن ایوارڈکے بھی خواہشمندہیں ،جو ان کے دہرے معیارکو ظاہرکررہاہے،ٹرمپ اگرواقعی امن کے علمبردارہیں تو انہیں اس کا عملی ثبوت دیناچاہئیاوراسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے لئے چین اور روس کے ساتھ مل کر کوششیں کریں، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کیباعث دنیابڑی طاقتوں کی طرف دیکھ رہی ہے کیونکہ اگراس جنگ برقت نہ روکاگیاتو اس محاذ آرائی سے صرف اسرائیل اور ایران ہی متاثرنہیں ہوں گے بلکہ پورا خطہ لپیٹ میں آسکتاہے،اس لئے جنگ بندی اس وقت محض ایک آپشن نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے ،ایسی صورت حال میں صدرٹرمپ کی طرف سے اسرائیل ،ایران جنگ کاحصہ بننے کے بیانات دنیاکی پریشانی میں اضافے کاباعث ہیں، خدانخواستہ اگر امریکہ ایساکوئی اقدام اٹھاتاہے تو پھریہ اس کی سٹرٹیجک غلطی ہوگی اور اس سے تیسری عالمی جنگ چھڑسکتی ہے کیونکہ امریکہ کے جنگ میں کودنے کی صورت میں خطے کی وہ طاقتیں بھی اس لڑائی میں شامل ہوجائیں گی جو اس وقت جنگ بندی کی خواہاں ہیں ،لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکہ خصوصاًصدرٹرمپ کو غیرذمہ دارانہ بیانات دینے کی بجائے اسرائیل اورایران جنگ کے حوالے سے واضح اور دوٹوک مؤقف اختیارکرتے ہوئے یہ جنگ رکوانے کے لئے اپنامثبت کرداراداکرناچاہئے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کشمیرکی آزادی کے لیے ہر فورم پر بھر پور انداز میں لڑ رہا ہے،فیصل کریم کنڈی
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • بڑی طاقتوں میں تقسیم اسرائیل ایران جنگ بندی میں رکاوٹ
  • پاکستان‘ سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت
  • ایران کے خلاف جارحیت ناقابل قبول، حکومت کا مؤقف حق پر مبنی ہے، نواز شریف
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم دنیا متحد، مشترکہ اعلامیہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
  • ایرانی پارلیمنٹ پاکستان تشکر تشکرکے نعروں سے گونج اُٹھی
  • ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستان سے اظہارِ تشکر کے نعرے،ویڈیووائرل
  • ایران پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ہندوتوا اور یہود کی سازش، پاکستان کیخلاف فیک نیوز کا محاذ کھول دیا