قومی ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے ورک لوڈ مینجمنٹ کے تاثر مسترد کرتے ہوئے بدستور تینوں طرز کی کرکٹ میں حصہ لینے کا عزم ظاہر کردیا۔

کرکٹ پاکستان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں قومی ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے مستقبل میں خود کو صرف وائٹ بال کرکٹ تک محدود رکھنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نے کبھی کسی طرز کی کرکٹ کو چھوڑنے کا نہیں سوچا، جب سے میں کھیل رہا ہوں یہی ذہن میں رہا کہ پاکستان کیلیے اچھا پرفارم کروں، اس میں مجھے کافی عزت بھی ملی۔

اس سوال پر کہ صرف ایک سیریز کے بعد پاکستان ٹیم کی کپتانی واپس لے لی گئی تھی اسے دل پر تو نہیں لیا؟ اس پر فاسٹ بولر نے مذاق میں کہا کہ میرا دل میرے پاس ہے ہی نہیں، انھوں نے کہا کہ قومی قیادت اعزاز کی بات اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ یہ موقع ملا تھا، بطور کھلاڑی پرفارم کرنے کے بعد جب آپ کپتان بنیں تو فخر محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ملک کیلیے کچھ کیا، ٹیم کوئی میچ جیتے، یا کوئی بیٹنگ یا بولنگ میں اچھا کھیل پیش کرے مجھے بچپن سے ہی یہ دیکھ کر خوشی ہوتی تھی،پاکستان کیلیے کسی بھی شعبے میں کچھ کرنا قابل فخر بات ہے۔

ایک سوال پر شاہین آفریدی نے کہا کہ شاہد آفریدی کا داماد ہونے کی وجہ سے فوائد حاصل ہونے کی جو لوگ باتیں کرتے ہیں انھیں کرکٹ کی کوئی سمجھ نہیں ہو گی، میری ان سے کرکٹ پر کوئی بات ہی نہیں ہوتی، نہ شاہد آفریدی کا میری کرکٹ سے کوئی تعلق ہے، وہ پاکستان کیلیے بہترین پرفارم کرنے والے عظیم کرکٹر ہیں، ان کو دیکھ کر مجھے کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا، مشورے دینا کوئی بُری بات نہیں، البتہ کرکٹ پر ہم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو میرے یا پاکستان ٹیم کیلیے نقصان دہ ہو، ہماری ہمیشہ پاکستان کی ترقی کیلیے مثبت بات ہی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عاقب جاوید کی عدم موجودگی کا لاہور قلندرز کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، کھلاڑی ہی میدان میں پرفارم کرتے ہیں، ہمارے پاس بہت اچھا کوچنگ اسٹاف موجود ہے، پلیئرز 7،8 سال سے ایک ساتھ کھیلتے چلے آ رہے ہیں،امید ہے کارکردگی میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔

شاہین آفریدی نے کہا کہ فخر زمان اگر آدھے فٹ بھی ہوں تو سب پر بھاری ہیں، اب تو وہ مکمل فٹ ہو چکے، فخر ہمارے اہم کھلاڑی ہیں، قلندرز کو ان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوں گی، وہ ہمیشہ سے اس ٹیم کے ساتھ ہیں، ان کے مشورے بھی ملتے رہتے ہیں۔

فاسٹ بولر نے کہا کہ حارث رؤف وائٹ بال کرکٹ میں کافی عرصے سے پاکستان کے بہترین بولر ہیں، انسان پر کبھی ایسا بیڈ پیچ آتا ہے جس میں کارکردگی اچھی نہیں رہتی،گزشتہ برس بدقسمتی سے وہ آغاز میں ہی انجرڈ ہو گئے تھے جس کی وجہ سے لاہور قلندرز کی بولنگ کا توازن متاثر ہوگیا تھا، حارث ایک فائٹر کرکٹر ہیں ، ہمیں ان سے خاصی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ اچھی کارکردگی پیش کریں گے۔

قلندرز نے ٹائٹل کی جانب نگاہیں مرکوز کرلیں

گزشتہ برس ٹیم 10 میں سے صرف ایک میچ ہی جیت کر آخری نمبر پر رہی تھی، البتہ اس بار بہتر کارکردگی کی امید ہے، کپتان شاہین آفریدی نے کہا کہ لاہور قلندرز کے پلیئرز نئے سیزن کیلیے بہت پُرجوش ہیں، ہماری تیاریاں بھی اچھے انداز میں جاری ہیں، گزشتہ برس ہم زیادہ بہتر کھیل پیش نہیں کر سکے تھے لیکن یہ کھیل کا حصہ ہے، البتہ اس بار خامیوں کو دور کر کے ایونٹ میں حصہ لیں گے۔

پی ایس ایل میں اپنے عزائم کے حوالے سے شاہین آفریدی نے کہا کہ اب تک میں نے جتنی بار بھی لیگ میں حصہ لیا پہلے کبھی نہیں سوچا کہ کتنی وکٹیں لینی ہیں کیا کرنا ہے، میں ہمیشہ صرف اپنی ٹیم کے کام آنا چاہتا ہوں، یہی میرے لیے سب سے اہم بات ہوتی ہے۔
انھوں نے لاہور قلندرز کو پی ایس ایل کی سب سے خطرناک ٹیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ دیگر پر میں نے اتنا غور نہیں کیا اور ان کا مجھے علم نہیں ہے، اگر آپ اپنی ٹیم پر زیادہ توجہ دیں تو اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔

ٹیم کی ضرورت کیلیے لاہور قلندرز کے بعض میچز میں جلد بیٹنگ کرتا ہوں

گزشتہ سال لاہور قلندرز کے بعض میچز میں جلد بیٹنگ کیلئے جانے پر ہونے والی تنقید پر شاہین آفریدی نے کہا کہ میں ٹیم کی ضرورت کیلیے ایسا کرتا ہوں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ میں جب بھی بیٹنگ کیلیے گیا ہماری ٹیم کے 30 ،40 رنز پر 4،5 پلیئرز آؤٹ ہو چکے ہوتے تھے، میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میچ کو فنش کرنے والے بیٹرز مشکل وقت میں آکر وکٹ گنوا دیں، بولنگ یا بیٹنگ جو بھی ہو جب ٹیم کو ضرورت ہو تو میری کوشش خود آگے بڑھ کر ذمہ داری قبول کرنے کی ہی ہوتی ہے، اگر میں دبائو کو خود جھیلوں تو ٹیم کیلیے یہ اچھا ہوتا ہے، میری وکٹ گر بھی گئی تو ٹیم کو اتنا نقصان نہ ہوگا لیکن اگر کچھ رنز بن گئے تو حریف پر پریشر پڑ سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ میرا آل رائونڈر بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، پہلے میری ذمہ داری بولنگ کرنا ہے،پھر اس کے بعد بیٹنگ آتی ہے۔

اگر ٹیم فتح نہ حاصل کرے تو انفرادی کارکردگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا

شاہین آفریدی نے کہا کہ گذشتہ برس راسی وین ڈر ڈوسین نے بہت اچھا کھیل پیش کیا تھا،خود میں نے بھی14 وکٹیں لی تھیں لیکن اگر ٹیم نہ جیتے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ہمیں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں امپیکٹ پلیئرز چاہیئں، اگر ٹیم بناتے ہوئے آپ اپنے اہم پلیئرز کو دوبارہ منتخب کریں تو کافی فائدہ ہوتا ہے، اس بار ہمارے پاس سیم بلنگز وغیرہ واپس آئے ہیں، یہ ہماری ٹیم کیلیے اچھی علامت ہے۔

بیٹے کی پیدائش کے بعد زندگی اور بھی خوبصورت ہوگئی

انہوں نے کہا کہ جب میں ٹیسٹ میچ کھیل رہا تھا تب میرا بیٹا پیدا ہوا، مجھے پتا بھی نہیں تھا، فیملی نے وہ وقت اکیلے گزارا، جب میں میچ کھیلنے جاؤں تو بیٹے کے ساتھ ویڈیو کال کرتا ہوں، بڑا اچھا وقت گزرتا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: لاہور قلندرز پاکستان کی فاسٹ بولر انھوں نے نہیں ہو ٹیم کے ٹیم کی کے بعد

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • بابراعظم کی فارم واپس آنے سے ڈریسنگ روم کا اعتماد بحال ہورہا ہے، شاہین شاہ آفریدی
  • بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایک مرتبہ ایشیا کپ کی ٹرافی کی ڈیمانڈ کردی
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • انٹرنیشنل میری ٹائم نمائش، کراچی کے شہریوں کیلیے ٹریفک پلان جاری
  • چیئر مین پی سی بی کا ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کامیابی پر قومی ٹیم کیلئے اہم پیغام
  • ویلڈن گرین شرٹس! ٹی20 سیریز جیتنے پر محسن نقوی کی قومی ٹیم کو مبارکباد
  • سندھ حکومت نے نئی نمبر پلیٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع کردی
  • محمد عامر کو کپتانی مل گئی، ابو ظہبی ٹی10 لیگ میں کوئٹہ کیولری کی قیادت کریں گے
  • بچوں کا ٹیلنٹ اجاگر کرنے پر  پاک فوج کو سلام: شاہد آفریدی