14 سالہ بچے نے دل کی بیماری کا پتا لگانے والی اے آئی ایپ تیار کرلی
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
14 سالہ بچے نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والی ایپ تیار کی ہے جو سیکنڈوں میں دل کی بیماری کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ نوجوان سدھارتھ ننڈیالا نے اے آئی سے چلنے والی سمارٹ فون ایپ Circadian AI تیار کی ہے جو صرف آواز کی بنیاد پر 7 سیکنڈ میں دل کی بیماری کا پتا لگا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایپل کی اوپن اے آئی سے شراکت داری، نئے فیچرز کیا ہیں؟
سدھارتھ نندیالا دنیا کا سب سے کم عمر اے آئی پروفیشنل ہے، جس کے پاس Oracle اور ARM دونوں سے سرٹیفیکیشن ہیں، اس کی تیار کردہ Circadian AI میں مبینہ طور پر جدید الگورتھم استعمال کی گئی ہے، جو اسمارٹ فون کے ذریعے دل کی آوازوں کا تجزیہ کرتی ہے اور فوری تشخیص فراہم کرتی ہے، جس سے صارف کی جان بچ سکتی ہے۔
جدید ایپ کو امریکا میں 15 ہزار سے زیادہ مریضوں اور بھارت میں 700 مریضوں پر آزمایا گیا ہے، جس کی درستگی 96 فیصد ہے۔
This 14-year-old has made detecting heart-related problems easier! I am absolutely delighted to meet Siddharth Nandyala, a young AI enthusiast from Dallas and the world’s youngest AI-certified professional, holding certifications from both Oracle and ARM.
— N Chandrababu Naidu (@ncbn) March 17, 2025
بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے وزی اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو نے حال ہی میں 14 سالہ نوجوان سے ملاقات کے بعد کہا، ’میں سدھارتھ کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور انسانیت کے فائدے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی لگن سے بہت متاثر ہوں، اتنی چھوٹی عمر میں وہ ہم سب کے لیے ایک تحریک ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: سیم آلٹ مین نے اوپن اے آئی خریدنے کی ایلون مسک کی پیشکش ٹھکرادی
انہوں نے کہا کہ میں پورے دل سے اس کی صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کے لیے اپنے شوق کو آگے بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں اور اسے اس کی تمام کوششوں میں ہمارے مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔
سرکیڈین اے آئی نے گنٹور، انڈیا کے گورنمنٹ جنرل اسپتال میں سخت جانچ کی، جہاں اس نے دل کے حالات کی فوری اور درست طریقے سے شناخت کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ نوجوان اختراع کار نے حیدرآباد میں گلوبل آرٹیفیشل انٹیلیجنس سمٹ کے تازہ ترین ایڈیشن کے دوران اپنی ایجاد پیش کی، جہاں اس نے وضاحت کی کہ کس طرح ان کی ٹیکنالوجی مؤثر اور جامع انداز میں صحت کی دیکھ بھال کرسکتی ہے۔
حیدرآباد میں سربراہی اجلاس کے دوران سدھارتھ نندیالا نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا مقصد اس ٹول کو محدود طبی کوریج کے ساتھ کمیونٹیز تک پہنچانا ہے، جہاں تیزی سے تشخیص کا مطلب لوگوں کو موت سے بچانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: موبائل فون دل کی بیماری کی علامات بتائے گا
سدھارتھ نندیالا نے اپنی اسکول کی تعلیم ٹیکساس میں قائم لالر مڈل اسکول سے مکمل کی اور فی الحال وہ ڈلاس میں ٹیکساس یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس میں بیچلر آف سائنس کررہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آرٹیفیشل انٹیلیجنس امریکی شہری اے آئی ایپ بھارتی بیماری تشخیص دلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا رٹیفیشل انٹیلیجنس امریکی شہری اے ا ئی ایپ بھارتی دل کی بیماری اے ا ئی کے لیے
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔