آخری معرکہ! مایوس ہیں نہ محروم ہیں ہم
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اے ایمان والو!ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب وہ سفر میں یا جہادمیں گئے کہ اگریہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے ۔ (سورہ آل عمران: 156) لیکن اصل بات یہ ہے کہ : کرِہ اللہ انبِعاثہم فثبطہم و قِیل اقعدوا مع القعِدِین اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، اس لئے انہیں سست پڑا رہنے دیا اور کہہ دیا گیا کہ جو (اپاہج ہونے کی وجہ سے) بیٹھے ہیں، ان کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔ (سورہ توبہ: 46) خدا ہمیں ایسی بیوقوفانہ ’’دانشمندی‘‘سے بچائے اور جب تک جسم میں جان ہے، اہل حق کے ساتھ کھڑا ہونے، ان کی مدد کرنے، ان کے لئے آواز بننے اور (بوقت مجبوری)ان کے غم میں رونے کی توفیق بخشے ۔ آمین
مشہور عرب تجزیہ نگار ادھم الشرقاوی اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ اسرائیل کے وجود کا خاتمہ قرآنی حقیقت اور نبوی وعدہ سے ثابت ہے اس لئے سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کا زوال ہوگا یا نہیں بلکہ سوال صرف یہ ہے کہ اسرائیل کا زوال کب ہوگا میرا یہ مذہب نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزات کا انتظار کیا جائے بلکہ میرا ایمان ہے کہ معجزات اسی وقت ظہور پذیر ہوتے ہیں جب اہل ایمان اپنی حتی الوسع جدوجہد کر لیں جب مومن پوری قوت کے ساتھ باطل پر جھپٹتا ہے آخری حد تک جاتا ہے حق پر ڈٹ جاتا ہے اور جب وہ شکست کے بالکل دھانے پر ہوتا ہے تب معجزہ رونما ہوتا ہے قرآن کریم سے یہ حقیقت ثابت ہے کہ مادی وسائل کی جنگ عقیدے کی جنگ سے مختلف ہوتی ہے وسائل کی جنگ میں جس کی قوت زیادہ ہو وہی غالب آتا ہے لیکن عقیدہ کی جنگ میں ضروری نہیں کہ سامان ضرب و حرب برابر ہوں نہ ہی اسباب کا موازنہ کیا جاتا ہے جتنے بھی سرکشوں کو اللہ نے تباہ کیا انہیں ان کی قوت اور جبر کے عروج کے وقت میں کیا جب اللہ نے فرعون کو ہلاک کیا تو اس کی قوت کم کرکے ہلاک نہیں کیا بلکہ ایسے وقت میں ہلاک کیا جب وہ طاقت کے نشے میں اعلان کر رہا تھا ’’انا ربکم الاعلی‘‘ کہ میں تمہارا بڑا رب ہوں، اس وقت جب اس کی طاقت کا عروج اور اس کی بہت بڑی فوج کا دبدبہ تھا اسے غرق کیا اللہ نے جب نمرود کو ہلاک کیا تو اسے کمزوری کے حالات میں ہلاک نہیں کیا بلکہ اس وقت ہلاک کیا جب وہ اپنی طاقت اور سلطنت کے گھمنڈ میں ’’انا احی و امیت ‘‘کا دعویٰ کر رہا تھا کہ موت اور زندگی کا مالک میں ہوںجب اللہ نے قوم عاد کو ہلاک کیا تو ان کے حالات تبدیل نہیں کئے نہ طاقت کا توازن بگاڑا بلکہ اس وقت ہلاک کیا جب وہ کہتے تھے’’ من اشد منا قو‘‘ کوئی ہے جو ہم سے طاقتور ہو جب قوم ثمود کو ہلاک کیا تو اس وقت کیا کہ ’’جابوا الصخر بالواد‘‘ پتھروں کو کھود کر وادیاں بناتے تھے یعنی طاقت اور انجینئرنگ کے کمال پر تھے جب احزاب کو شکست سے دوچار کیا تو مومنین کی حالت ایسی تھی کہ ’’ضاقت علیہم الارض بما رحبت و بلغت القلوب الحناجر‘‘کہ زمین تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہو گئی اور دل اچھل کر حلق تک آگئے، ایسے سخت حالات میں خطہ کی سب سے بڑی فوج کو اللہ کے حکم سے شکست ہوئی اب آتے ہیں غزہ کی جنگ کی طرف جب غزہ کی جنگ شروع ہوئی تو میرا گمان تھا کہ پہلی جنگوں کی طرح یہ بھی چند گھنٹوں میں ختم ہو جائے گی لیکن اب میرا یقین ہے کہ یہ آاخری معرکہ ہے اور موجودہ صورتحال باقی نہیں رہے گی یقینا احزاب کی ہوائیں جلد آئیں گی یاد رکھو اللہ کی ہوائوں کی ہزاروں شکلیں اور کیفیات ہیں فرمان خداوندی ہے:
’’وما یعلم جنود ربک الا ھو‘‘کہ اللہ کے لشکروں کو صرف وہ خود ہی جانتا ہے اب جبکہ بظاہر اس جنگ کی انتہا ہو رہی ہے تو یقینا اللہ کے لشکر کی حرکت میں آنے کی ابتدا ہونے والی ہے میرا یقین ہے کہ یہ غزہ کی جنگ ایک عرصے سے ہمارے اور دشمن کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے اور اللہ کا ہاتھ اسے چلا رہا ہے یہ بات عقل اور اسباب کے لحاظ سے اگرچہ ناقابل یقین ہے لیکن جو بھی ہونے والا ہے وہ عقل کے پیمانوں کے خلاف ہونے والا ہے اگرچہ اسباب اس کے برعکس ہیں لیکن قرآنی واقعات نشاندہی کر رہے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں اس ظلم اور بمباری کے نیچے اپنا وجود کھونے والی ہیں غور کیجئے کہ ایسا خطہ جو کسی بھی مسلمان ملک کے دارالحکومت سے بھی چھوٹا ہے کیسے ثابت قدم ہے اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مزاحمت کرنے والے خطہ کے پاس نہ تو پہاڑ ہیں نہ وادیاں نہ جنگلات ہیں نہ بحری فضائی اور بری فوج ہے اور اس پر وہ دشمن حملہ آور ہے جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بحری فضائی اور بری طاقت ہے اگر ہم اسرائیل اور عربوں کی سابقہ جنگوں پر غور کریں جو ہماری منظم فوجوں کے ساتھ اسرائیل نے لڑیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جنگ بھی چند گھنٹے سے زیادہ جاری نہ رہ سکی جبکہ موجودہ غزہ کی جنگ چھوٹی سی مجاہدین کی جماعت نے بغیر بحری فضائی اور بری فوج کے چھوٹے سے خطے کے اندر پچھلے 17 ماہ سے جاری رکھی ہے تو ایمان کی طاقت نکھر کر سامنے آتی ہے کرئہ ارض پر قرآنی واقعات میں مذکور طاقتوں کے زوال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی طاقت کے آگے کبھی کسی قابض حکمران کی حکومت قائم نہیں رہ سکی۔
اس ثابت شدہ حقیقت سے کوئی قرآن کا ادنی طالب علم بھی انکار نہیں کر سکتا مادی وسائل کی بجائے ایمان کی نظر سے دیکھنے والے اس بات کو سمجھتے اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’’کل احتلال زائل‘‘کہ ہر قابض حکومت نے مٹ جانا ہے یہی ہمیں تاریخ بتاتی ہے جب بھی مزاحمت کرنے والے اہل ایمان اپنی پوری قوت جھونک دیں تو قابض جابر سلطنتیں تباہ ہو جاتی ہیں جلد ہوں یا بدیر غزہ کے مجاہدین اور عوام کی محیر العقول اور اپنی بساط کی آخری حد تک مزاحمت کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہے کہ حملہ اور طاقتوں کا زوال اب اللہ کے غیبی لشکروں کا سامنا کرنے والا ہے جس کے بعد فرعون نمرود اور عاد و ثمود اور احزاب کی طرح غزہ اسرائیل کا معرکہ آخری معرکہ ثابت ہوگا اور زمینی خدائوں کا وجود خدائی عذاب کے کوڑے کے سامنے پارہ پارہ ہو کر تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: غزہ کی جنگ اللہ کے کے ساتھ اللہ نے ہوتا ہے ہیں کہ کیا جب ہے اور
پڑھیں:
خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
زمانہ قدیم سے ہی سلطنتوں کی عظمت کا دارومدار ان کے زیرِزمین خزانوں اورتجارتی شاہراہوں پررہا ہے۔ آج بھی جب چین اورامریکا جیسے عظیم اقتصادی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے،تواس کامرکزصرف محصولات تک محدودنہیں رہتابلکہ یہ جنگ اب ان نایاب معدنیات تک پھیل چکی ہے جوجدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں ۔ چین نے حال ہی میں ان معدنیات کی برآمد پرپابندیوں کااعلان کرکے امریکاکوایک ایسے میدان میں للکاراہے جہاں اس کی کمزوریاں عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکااور چین کے درمیان ایک دوسرے کی اشیاء پرٹیرف اورجوابی ٹیرف لگانے کی اس تجارتی جنگ کاپس منظرنہ تونیاہے اورنہ ہی اچانک سامنے آیاہے۔
عالمی سیاسی منظرنامہ گزشتہ چنددہائیوں سے جس کروٹ پرہے،اس میں معیشت اورٹیکنالوجی کا امتزاج طاقت کے نئے پیمانے متعین کررہاہے۔یہ دور میدانِ جنگ میں گولیوں کی گونج سے زیادہ،معدنی وسائل کی تقسیم پرمبنی پالیسیوں کی گونج سن رہاہے۔چینی دانشورڈینگ شیوپنگ کایہ جملہ آج تاریخ کی سچائی بن چکاہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے پاس تیل ہے،ہمارے پاس نایاب معدنیات ہیں۔
چین اورامریکاکے مابین جاری تجارتی جنگ اس وقت نہایت ہی نازک موڑپرآپہنچی ہے۔ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے پربھاری محصولات (ٹیرف)عائدکرکے معاشی ضربیں لگارہے ہیں، تو دوسری طرف چین نے اپنی سب سے بڑی طاقت نایاب معدنیات کوبطورہتھیارا ستعمال کرناشروع کردیا ہے۔ ان معدنیات کی برآمدپرپابندی کے احکامات جاری کرنا امریکاکے لئے ایساہی ہے جیسے کسی زندہ جسم سے سانس کی ڈورکھینچ لی جائے۔
امریکاکاان نایاب معدنیات پرانحصار بے حد زیادہ ہے۔ سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم اور دیگر ریئرارتھ عناصرجدید ٹیکنالوجی کے بنیادی ستون ہیں۔میزائل سازی،جیٹ طیارے ،موبائل فونز،ریڈار،الیکٹرک گاڑیاں،اورحتیٰ کہ سبزتوانائی کی مصنوعات میں ان کا استعمال لازم ہے۔ان معدنیات کو’’نایاب ‘‘اس لئے کہاجاتاہے کہ یہ زمین میں قلیل مقدارمیں پائے جاتے ہیں،اور انہیں علیحدہ کرنا،صاف کرنااورپروسیس کرنا انتہائی مہنگااورماحول دشمن عمل ہے۔
دنیامیں سب سے زیادہ ذخائرآسٹریلیا، چین،امریکا،برازیل اورروس میں پائے جاتے ہیں،مگر پروسیسنگ کا92فیصدحصہ صرف چین کے پاس ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق،چین اس وقت عالمی سطح پر61 فیصدتک نایاب معدنیات پیداکرتاہے اور92 فیصدتک ان کی ریفائننگ چین کے ہاتھ میں ہے۔اس یکطرفہ اجارہ داری نے چین کواس شعبے کابلاشبہ شہنشاہ بنادیاہے۔
یہ معدنیات نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ماحولیاتی طورپرمہلک بھی ہیں۔ان کی کان کنی میں تابکاری عناصرشامل ہوتے ہیں، جوماحول اورانسانی صحت کے لئے خطرناک ہیں۔یہی سبب ہے کہ یورپ اوردیگر مغربی اقوام نے اس میدان سے راہِ فرار اختیارکی اور چین نے اس خلاکوکئی دہائیوں کی جامع منصوبہ بندی سے پرکر دیا ۔ چین نے سات اہم نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی لگادی ہے،جن میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جوامریکی دفاعی صنعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف امریکاکی دفاعی تیاریوں میں خلل پڑا،بلکہ عالمی منڈی میں بے چینی بھی بڑھ گئی ہے۔
چین نے اپریل سے برآمدات کے لئے سپیشل لائسنس لازمی قراردے دیاہے،جوکہ’’دوہری استعمال‘‘ کے معاہدات کے تحت ایک جائزقدم ہے۔یہ معدنیات جنگی اورغیر جنگی، دونوں ٹیکنالوجیزمیں استعمال ہوتی ہیں، جس سے ان کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سینٹرآف سٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل سٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق، ایف 35 جیٹس، ٹوموہاک میزائل اوردیگرہائی ٹیک دفاعی آلات کا انحصارانہی معدنیات پرہے۔چین کی موجودگی نہ ہوتوامریکاکے لئے یہ دفاعی سلسلہ تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
امریکاکے پاس بھی محدودمقدارمیں ذخائر ہیں، مگرپروسیسنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے معاہدے کی کوشش کی تاکہ چین پرانحصارکم کیاجاسکے۔ بدقسمتی سے،یوکرین کے وہ علاقے جہاں یہ معدنیات ہیں،روسی قبضے میں آچکے ہیں۔دراصل یوکرین کی جنگ میں امریکا اوریورپ کی دلچسپی انہی معدنیات کی وجہ سے ہے لیکن ناکامی کی وجہ سے اب ٹرمپ کی پالیسی کایوٹرن انہی مفادکے لئے ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کوکھلی دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی اوراس سے براہِ راست ان معدنیات کے حصول کامطالبہ کیاتھا جوابھی تک پور انہیں ہوسکا۔
گرین لینڈکوامریکاخریدنے کی پیشکش کرچکا ہے۔ معدنیات سے مالامال یہ خطہ،ڈنمارک کی مالی امدادپرانحصارکرتاہے،مگرٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی نے اس تجویزکوعالمی سطح پرمزاح کانشانہ بنادیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوازن فیصلوں نے امریکاکودوہری مشکل میں ڈال دیاہے۔نہ صرف اس نے چین جیسے اجارہ دار کو ناراض کردیاہے بلکہ یورپ جیسے اتحادی بھی اس کے اقدامات سے نالاں ہیں۔یہ جنگ محض تجارتی یااقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے نئے مراکزکاتعین کررہی ہے۔اگرامریکا نے وقت پرکوئی نیا راستہ نہ چنائوتوممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ میدانِ جنگ میں موجودتو ہو،مگراس کے پاس جنگ جیتنے کے لئے ہتھیار نہ ہوں۔یوں بھی تاریخ سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ امریکااب تک36سے زائدممالک میں جارحیت کا مرتکب ہوچکاہے اورہرجنگ کا مقدررسواکن شکست اور فرار پر مبنی ہے۔آئیے!چین اورامریکا میں موجودہ تناؤکو سمجھنے کے لئے اس تنازعہ کا شواہدکے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں طاقت کے مراکز کس کے ہاتھ میں ہوگا؟
دراصل اس کشیدگی کی بنیادٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں2018ء میں چین پرٹیکنالوجی چوری، غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں،اورذہین ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرتے ہوئے250 ارب ڈالرمالیت کی چینی مصنوعات پر ٹیرف لگاکررکھی تھی جس کے جواب میں چین نے اپنے ردعمل میں 110ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات(سویا بین،الیکٹرانکس، پٹرولیم) پر ٹیرف کاجواب دیاتھا۔2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائدہوچکے تھے۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، امریکا کو 2023ء تک0.5 فیصد جی ڈی پی کانقصان،جبکہ چین کو1.2 فیصد جی ڈی پی کااقتصادی دھچکالگا۔گویاامریکااورچین کے درمیان یہی نایاب معدنیات کامحاذایک مرتبہ پھر ایک خوفناک جن کی صورت میں عالمی تجارتی منڈی میں آن پہنچاہے۔
نایاب زمینی معدنیات وہ17کیمیائی عناصر ہیں جن کے بغیرآج کی ٹیکنالوجی چاہے وہ اسمارٹ فونزہوں،الیکٹرک گاڑیاں یاجنگی میزائل سسٹم ،ناممکن ہیں۔ سکینڈیئم سے لے کر لٹیٹیئم تک،یہ تمام عناصرایسے ہیں جوزمین کی گودمیں تووافرمقدارمیں موجودہیں، مگران کانکالنااورصاف کرناانتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہے۔تاریخی طورپر،ان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بیسویں صدی میں یورینیم کے بعدیہی وہ دوسرے خاموش ہتھیارہیں جونہ صرف عالمی طاقتوں کی جنگی اوراقتصادی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ نایاب معدنیات جدید تہذیب کامضبوط ستون بن کر مستقبل فاتح قوم کااستعارہ بن گئی ہیں۔
گزشتہ دوعشروں میں چین نے نہ ان معدنیات کی کان کنی اوران کی پروسیسنگ میں بھی دنیاپرغلبہ حاصل کرلیاہے۔کان کنی سے پروسیسنگ تک چین کی بالادستی نے امریکاکی صنعتی اورمعاشی دنیا پرلرزہ طاری کردیا ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمارکے مطابق، چین اس وقت دنیا بھر میں61 فیصد نایاب معدنیات پیداکرتاہے، جبکہ ان کی پروسیسنگ کا 92 فیصد حصہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بالادستی محض اتفاق نہیں،بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے۔1980ء کی دہائی میں جب مغربی ممالک نے ماحولیاتی تحفظ کے نام پرکان کنی کے سخت قوانین بنائے،توچین نے اس موقع کوغنیمت جانا۔اس نے کم لاگت،کم مزدوری ، اورماحولیاتی پابندیوں میں نرمی کے ذریعے دنیابھرکی صنعت کواپنی جانب متوجہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے صوبے انرمونگولیا اورجیانگشی میں واقع کانیں دنیا کی ٹیکنالوجی کوسہارا دے رہی ہیں۔
(جاری ہے)