Daily Ausaf:
2025-11-03@10:33:27 GMT

آخری معرکہ! مایوس ہیں نہ محروم ہیں ہم

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اے ایمان والو!ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب وہ سفر میں یا جہادمیں گئے کہ اگریہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے ۔ (سورہ آل عمران: 156) لیکن اصل بات یہ ہے کہ : کرِہ اللہ انبِعاثہم فثبطہم و قِیل اقعدوا مع القعِدِین اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، اس لئے انہیں سست پڑا رہنے دیا اور کہہ دیا گیا کہ جو (اپاہج ہونے کی وجہ سے) بیٹھے ہیں، ان کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔ (سورہ توبہ: 46) خدا ہمیں ایسی بیوقوفانہ ’’دانشمندی‘‘سے بچائے اور جب تک جسم میں جان ہے، اہل حق کے ساتھ کھڑا ہونے، ان کی مدد کرنے، ان کے لئے آواز بننے اور (بوقت مجبوری)ان کے غم میں رونے کی توفیق بخشے ۔ آمین
مشہور عرب تجزیہ نگار ادھم الشرقاوی اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ اسرائیل کے وجود کا خاتمہ قرآنی حقیقت اور نبوی وعدہ سے ثابت ہے اس لئے سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کا زوال ہوگا یا نہیں بلکہ سوال صرف یہ ہے کہ اسرائیل کا زوال کب ہوگا میرا یہ مذہب نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزات کا انتظار کیا جائے بلکہ میرا ایمان ہے کہ معجزات اسی وقت ظہور پذیر ہوتے ہیں جب اہل ایمان اپنی حتی الوسع جدوجہد کر لیں جب مومن پوری قوت کے ساتھ باطل پر جھپٹتا ہے آخری حد تک جاتا ہے حق پر ڈٹ جاتا ہے اور جب وہ شکست کے بالکل دھانے پر ہوتا ہے تب معجزہ رونما ہوتا ہے قرآن کریم سے یہ حقیقت ثابت ہے کہ مادی وسائل کی جنگ عقیدے کی جنگ سے مختلف ہوتی ہے وسائل کی جنگ میں جس کی قوت زیادہ ہو وہی غالب آتا ہے لیکن عقیدہ کی جنگ میں ضروری نہیں کہ سامان ضرب و حرب برابر ہوں نہ ہی اسباب کا موازنہ کیا جاتا ہے جتنے بھی سرکشوں کو اللہ نے تباہ کیا انہیں ان کی قوت اور جبر کے عروج کے وقت میں کیا جب اللہ نے فرعون کو ہلاک کیا تو اس کی قوت کم کرکے ہلاک نہیں کیا بلکہ ایسے وقت میں ہلاک کیا جب وہ طاقت کے نشے میں اعلان کر رہا تھا ’’انا ربکم الاعلی‘‘ کہ میں تمہارا بڑا رب ہوں، اس وقت جب اس کی طاقت کا عروج اور اس کی بہت بڑی فوج کا دبدبہ تھا اسے غرق کیا اللہ نے جب نمرود کو ہلاک کیا تو اسے کمزوری کے حالات میں ہلاک نہیں کیا بلکہ اس وقت ہلاک کیا جب وہ اپنی طاقت اور سلطنت کے گھمنڈ میں ’’انا احی و امیت ‘‘کا دعویٰ کر رہا تھا کہ موت اور زندگی کا مالک میں ہوںجب اللہ نے قوم عاد کو ہلاک کیا تو ان کے حالات تبدیل نہیں کئے نہ طاقت کا توازن بگاڑا بلکہ اس وقت ہلاک کیا جب وہ کہتے تھے’’ من اشد منا قو‘‘ کوئی ہے جو ہم سے طاقتور ہو جب قوم ثمود کو ہلاک کیا تو اس وقت کیا کہ ’’جابوا الصخر بالواد‘‘ پتھروں کو کھود کر وادیاں بناتے تھے یعنی طاقت اور انجینئرنگ کے کمال پر تھے جب احزاب کو شکست سے دوچار کیا تو مومنین کی حالت ایسی تھی کہ ’’ضاقت علیہم الارض بما رحبت و بلغت القلوب الحناجر‘‘کہ زمین تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہو گئی اور دل اچھل کر حلق تک آگئے، ایسے سخت حالات میں خطہ کی سب سے بڑی فوج کو اللہ کے حکم سے شکست ہوئی اب آتے ہیں غزہ کی جنگ کی طرف جب غزہ کی جنگ شروع ہوئی تو میرا گمان تھا کہ پہلی جنگوں کی طرح یہ بھی چند گھنٹوں میں ختم ہو جائے گی لیکن اب میرا یقین ہے کہ یہ آاخری معرکہ ہے اور موجودہ صورتحال باقی نہیں رہے گی یقینا احزاب کی ہوائیں جلد آئیں گی یاد رکھو اللہ کی ہوائوں کی ہزاروں شکلیں اور کیفیات ہیں فرمان خداوندی ہے:
’’وما یعلم جنود ربک الا ھو‘‘کہ اللہ کے لشکروں کو صرف وہ خود ہی جانتا ہے اب جبکہ بظاہر اس جنگ کی انتہا ہو رہی ہے تو یقینا اللہ کے لشکر کی حرکت میں آنے کی ابتدا ہونے والی ہے میرا یقین ہے کہ یہ غزہ کی جنگ ایک عرصے سے ہمارے اور دشمن کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے اور اللہ کا ہاتھ اسے چلا رہا ہے یہ بات عقل اور اسباب کے لحاظ سے اگرچہ ناقابل یقین ہے لیکن جو بھی ہونے والا ہے وہ عقل کے پیمانوں کے خلاف ہونے والا ہے اگرچہ اسباب اس کے برعکس ہیں لیکن قرآنی واقعات نشاندہی کر رہے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں اس ظلم اور بمباری کے نیچے اپنا وجود کھونے والی ہیں غور کیجئے کہ ایسا خطہ جو کسی بھی مسلمان ملک کے دارالحکومت سے بھی چھوٹا ہے کیسے ثابت قدم ہے اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مزاحمت کرنے والے خطہ کے پاس نہ تو پہاڑ ہیں نہ وادیاں نہ جنگلات ہیں نہ بحری فضائی اور بری فوج ہے اور اس پر وہ دشمن حملہ آور ہے جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بحری فضائی اور بری طاقت ہے اگر ہم اسرائیل اور عربوں کی سابقہ جنگوں پر غور کریں جو ہماری منظم فوجوں کے ساتھ اسرائیل نے لڑیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جنگ بھی چند گھنٹے سے زیادہ جاری نہ رہ سکی جبکہ موجودہ غزہ کی جنگ چھوٹی سی مجاہدین کی جماعت نے بغیر بحری فضائی اور بری فوج کے چھوٹے سے خطے کے اندر پچھلے 17 ماہ سے جاری رکھی ہے تو ایمان کی طاقت نکھر کر سامنے آتی ہے کرئہ ارض پر قرآنی واقعات میں مذکور طاقتوں کے زوال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی طاقت کے آگے کبھی کسی قابض حکمران کی حکومت قائم نہیں رہ سکی۔
اس ثابت شدہ حقیقت سے کوئی قرآن کا ادنی طالب علم بھی انکار نہیں کر سکتا مادی وسائل کی بجائے ایمان کی نظر سے دیکھنے والے اس بات کو سمجھتے اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’’کل احتلال زائل‘‘کہ ہر قابض حکومت نے مٹ جانا ہے یہی ہمیں تاریخ بتاتی ہے جب بھی مزاحمت کرنے والے اہل ایمان اپنی پوری قوت جھونک دیں تو قابض جابر سلطنتیں تباہ ہو جاتی ہیں جلد ہوں یا بدیر غزہ کے مجاہدین اور عوام کی محیر العقول اور اپنی بساط کی آخری حد تک مزاحمت کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہے کہ حملہ اور طاقتوں کا زوال اب اللہ کے غیبی لشکروں کا سامنا کرنے والا ہے جس کے بعد فرعون نمرود اور عاد و ثمود اور احزاب کی طرح غزہ اسرائیل کا معرکہ آخری معرکہ ثابت ہوگا اور زمینی خدائوں کا وجود خدائی عذاب کے کوڑے کے سامنے پارہ پارہ ہو کر تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: غزہ کی جنگ اللہ کے کے ساتھ اللہ نے ہوتا ہے ہیں کہ کیا جب ہے اور

پڑھیں:

دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان

لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے، اسکی بلیک میلنگ و جارحیت میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس امر کے باعث دشمن مزید طلبگار ہو گا اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے ساتھ وابستہ اتحاد "الوفاء للمقاومۃ" کے سربراہ محمد رعد نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ ہم اسلامی مزاحمت میں، اِس وقت مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور دشمن کی ایذا رسانی و خلاف ورزیوں کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر پائیدار ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے موقف و انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ اپنے اور اپنے وطن کے وقار کا دفاع کر سکیں۔ عرب ای مجلے العہد کے مطابق محمد رعد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں اور  خون تک کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور مزاحمت کے انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ دشمن؛ ہم سے ہتھیار ڈلوانے یا ہمیں اپنے معاندانہ منصوبے کے سامنے جھکانے کو آسان نہ سمجھے۔
  سربراہ الوفاء للمقاومہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی لبنان کے اندر سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو قابض دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور لبنان کی خودمختاری سے ہاتھ اٹھا لینے پر اُکسا رہی ہیں درحالیکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے! انہوں نے کہا کہ ان افراد نے انتہائی بے شرمی اور ذلت کے ساتھ ملک کو غیروں کی سرپرستی میں دے دیا ہے جبکہ یہ لوگ، خودمختاری کے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں۔ 

محمد رعد نے تاکید کی کہ انتخاباتی قوانین کے خلاف حملوں کا مقصد مزاحمت اور اس کے حامیوں کی نمائندگی کو کمزور بنانا ہے تاکہ ملک پر قبضہ کرنا مزید آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود، اسلامی مزاحمت اب بھی جنگ بندی پر پوری طرح سے کاربند ہے تاہم دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا، "لبنان پر حملے" کے بہانے کے لئے تشہیری مہم کا سبب ہے اور یہ اقدام، دشمن کی بلیک میلنگ اور جارحیت کو کسی صورت روک نہیں سکتا بلکہ یہ الٹا، اس کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا کہ وہ مزید آگے بڑھے اور بالآخر پورے وطن کو ہی ہم سے چھین لے جائے۔ محمد رعد نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے وہ کم از کم کام کہ جو ہمیں انجام دیا جانا چاہیئے؛ اس دشمن کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت اور اپنے حق خود مختاری کی پاسداری ہے!!

متعلقہ مضامین

  • سرکاری سکیم کے تحت حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی شروع
  • معرکہ 1948، گلگت بلتستان کی آزادی کی داستان شجاعت غازی حوالدار بیکو کی زبانی
  • برطانوی حکومت کا معزول شہزادہ اینڈریو سے آخری فوجی عہدہ واپس لینے کا اعلان
  • تجدید وتجدّْ
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • مجھے اختیارات سے محروم رکھاگیا ہے، عمر عبداللہ کا اعتراف
  •  بینائی سے محروم افراد کے لئے پہلی بار سندھ میں اسکینرز اسٹک تیار
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ