امریکا نے اپنی متعدد جامعات میں زیرتعلیم غیر ملکی طلبا کے ویزے اچانک منسوخ کردیے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا کے متعدد طلبا کے ویزے منسوخ کردیے ہیں۔ ہارورڈ، مشی گن، یو سی ایل اے اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا بھی متاثرین میں شامل ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق ویزا منسوخی ٹرمپ انتظامیہ کے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جبکہ طلبہ کو حراست میں لینے اور ملک بدری کے خطرات بھی موجود ہیں۔ ویزے مختلف وجوہات کی بنا پر منسوخ کیے جا سکتے ہیں، لیکن جامعات اور کالجز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت چپکے سے طلبا کی قانونی رہائش کی حیثیت ختم کر رہی ہے جبکہ طلبا کو نہ ہی تعلیمی اداروں  کو اس بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان طلبا کو ہدف بنایا ہوا ہے جو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے احتجاج یا تقاریر میں ’ملوث‘ پائے گئے ہیں۔ ان میں کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کی قیادت کرنے والے محمود خلیل جیسے گرین کارڈ ہولڈرز بھی شامل ہیں۔

اس تناظر میں کیا امریکا میں مقیم پاکستانی طلبا بھی پریشانیوں سے دوچار ہو رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو ان کی پریشانیوں کی نوعیت کیا ہے؟ کیا امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی پاکستان میں برین ڈرین میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیںبرین ڈرین کی وجوہات کیا ہیں؟

امریکا میں مقیم ایک پاکستانی( جن کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے ہے) اور جو وہاں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ امریکا میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے طلبا کو بہت زیادہ ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’چونکہ زیادہ تر طلبا وفاقی گرانٹ پر پڑھ رہے ہیں، اس وقت عارضی طور پر گرانٹس کو فریز کیا جا چکا ہے، اس سے ممکنہ طور پر انہیں تعلیم جاری رکھنے میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی طلبا کے وظائف میں تعطل ہے، جس کی وجہ سے طلبا کو پریشانی کا سامنا ہے۔ حتی کہ انٹرنیشنل ایڈوائزرز جو طلبا کے مسائل کو ڈیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان بڑی آرگنائزیشن کے بھی بہت سے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ یا پھر عارضی طور پر ان کے کانٹریکٹس کو روک دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بہت سی ایجوکیشنل ایجنسیاں غیر فعال ہو چکی ہیں، اب وہ طلبا کی مدد نہیں کر پائیں گی۔ اس تناظر میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ کیونکہ طلبا کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ انہیں آنے والے مہینوں میں وظیفہ ملے گا بھی یا نہیں۔

ان کہا کہنا تھا کہ اسکالرشپس کا کیا اسٹیٹس رہے گا؟ برقرار رہے گا بھی یا نہیں؟ اس سب کے دوران یونیورسٹیاں انہیں کوئی سہولت فراہم کریں گی یا نہیں، یہ تمام سوالات ہر طالب علم کے ذہن میں اس وقت شدید انزائٹی پیدا کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کی طرح امریکا میں بھی پاکستانی طلبا کے لیے رہائش کا کرایہ بہت زیاد ہوتا ہے، دیگر ضروری اخراجات بھی کافی ہیں۔ اس لیے بغیر وظیفے کے یہاں پر رہنا سب کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کر رہی اور جو ڈونر ایجنسی ہے وہ بھی آپ کو اپنا نہیں رہی تو اس صورتحال میں طلبا وہاں اس اسٹیٹس کے ساتھ کتنا عرصہ رہ سکتے ہیں۔

’یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ہر سال رینیوول ہوتا ہے اور ہر سال ڈاکومنٹیشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ساری صورتحال نے طلبا کو شدید پریشان کن صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے، وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کے شکار ہیں۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں جس طرح طلباء کے ویزے منسوخ کیے گئے ہیں، اس نے امریکا میں موجود غیر ملکی طلباء کی پریشانی کو دگنا کر دیا ہے۔ وظائف، اخراجات اور دیگر پریشانیوں کے ساتھ اب یہ بھی پریشانی سر پر منڈلا رہی ہے کہ کوئی بھی موقع تلاش کر کے انہیں کسی بھی وقت ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس پریشان کن صورت حال سے دوچار  طلبا میں ایک بڑی تعداد ان طلبا کی بھی ہے جو اپنی تمام کشتیاں جلا کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ اب ان افراد کا وطن واپس جانا آسان نہیں ہے۔

’ میں خود بھی اپنا گھر اور دیگر اثاثہ جات بیچ کر امریکا آیا تھا۔ کیونکہ میرا تو اسکالرشپ تھا۔ بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر آیا تھا تاکہ ان کا مستقبل بھی سنور جائے۔ ان حالات میں مجھے واپس وطن جانا پڑا تو مالی طور پر بہت ہی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ پریشانی کھائے جا رہی ہوگی۔ کیونکہ پاکستان میں دوگنی محنت بھی کرلیں تو یہاں کے برابر تنخواہیں نہیں ملتیں۔ اس لیے امریکا سے اگر واپس وطن جانا بھی پڑا تو کسی اور ملک کا انتخاب کر لوں گا۔ کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ جو پاکستان میں کم از کم سیکیورٹی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے فی الحال محفوظ نہیں ہے۔‘

بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لیے مختلف ممالک میں جانے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے والے ایک سینئر کنسلٹنٹ حافظ محمد حماد علی کا بھی کہنا ہے کہ امریکا میں پاکستانیوں کے داخلے پر عائد کی جانے والی قدغنوں کی وجہ سے غیر یقینی کی صورتحال بڑھ رہی ہے۔

ان کے مطابق امریکی یونیورسٹیاں پاکستان کے ہائی اچیورز کو اسکالرشپ دیتی ہے۔ یوں پاکستانی بچے امریکا پڑھنے جاتے ہیں۔ اب کئی بچے اسکالرشپ ملنے کے باوجود بھی امریکا جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

حافظ محمد حماد علی نے بتایا کہ وقتی طور پر اس صورتحال میں پاکستانی بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا لیکن اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ہمارے بچے جاپان اور چین سمیت نئی جگہوں پر اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کر سکیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس صورت حال میں پاکستان سے ہونے والا برین ڈرین رک جائے گا، حافظ محمد حماد علی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ ذہین بچے پاکستان میں رک کر ملک کی ترقی میں حصہ لیں کیونکہ یہاں کا نظام پڑھے لکھے محنتی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں کیا پاکستان سے سارا ٹیلنٹ بیرون ملک چلا گیا؟

ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ برین ڈرین صرف امریکا کی جانب سے طلبا کے ویزے منسوخ کرنے سے ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستانی محنتی طلبا امریکا کے علاوہ بھی بہت سی اسکالرشپس پر یورپ کی اچھی یونیورسٹیوں میں بہ آسانی داخلہ لے سکتے ہیں۔ اب یقیناً امریکا جانے کے خواہشمند طلبا باقی یورپی ممالک کی اچھی یونیورسٹیوں کو اپروچ کریں گے۔ پاکستانی طلباء کا ملک سے باہر جانے کا سلسلہ تھمنا ذرا مشکل ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ان کے لیے نہ اچھی تنخواہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پریکٹیکل اسکلز کا کوئی کانسپٹ ہے۔‘

’ یہ سچ ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک نے طلباء کے لیے امیگریشن پالیسیوں میں کافی حد تک سختی برتی ہے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا اس کی بڑی مثال ہیں لیکن اس سے بھی پاکستانی طلباء کے ملک چھوڑنے میں تو کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ طلباء نے کینیڈا اور آسٹریلیا کے بجائے اٹلی، چین، اسٹونیا، نیدرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ‘

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق تقریباً ہر دوسرے پاکستانی کی خواہش ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کسی بھی دوسرے ملک چلا جائے۔ اس سلسلہ کو اس وقت تک نہیں روکا جا سکتا جب تک ہمارے ملک کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے پاکستانی طلبا کو مکمل طور پر مایوس کر دیا ہے۔

برین ڈرین کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ صنعتوں میں زیادہ سے زیادہ نوکریاں نکالی جائیں۔ طلباء کی ذہانت کو سراہا جائے اور انہیں ان کی اسکلز کے مطابق تنخواہیں دی جائیں۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کے عین مطابق نہ سہی مگر اس کے قریب قریب تنخواہیں لازمی دی جائیں تاکہ مقامی صنعتوں کو فروغ ملے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

برین ڈرین پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان پاکستانی طلبا پاکستان میں امریکا میں کہنا ہے کہ کر دیا ہے کے مطابق رہے ہیں بچوں کو طلبا کو کا کہنا طلبا کے کے ویزے کے لیے رہی ہے یہ بھی

پڑھیں:

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تأثر سامنے آ رہا ہے کہ کچھ لوگ نادانستہ اور کچھ لوگ شعوری طور پر مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غزہ کے معاملے پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہوا اُس میں کہا گیا کہ غزہ کی گورننس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اگر فلسطین کے ملٹری ونگ حماس کو آپ ختم کر دیں گے تو فلسطین کی کوئی دفاعی قوّت نہیں رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر

انہوں نے کہاکہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان یہودی بستیاں آباد ہیں۔ اب نیا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں۔ اگر آپ سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو دفن کیا جا رہا ہے۔

’مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں پاکستان کا کردار قابلِ ستائش ہے‘

سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ ستائش رہا ہے اور ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ پاکستان نے سفارتکاری سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرکے ہوش مندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔

قطر پر حملے سے امریکا کیسے لاعلم تھا؟

قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اِس حملے سے کیسے لاعلم تھا جبکہ امریکا اور اسرائیل دونوں اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں، یعنی موساد اور سی آئی اے ایک دوسرے پر نظر رکھتی ہیں۔

’وہ خطے کے باقی ممالک پر نظر تو رکھتے ہی ہیں لیکن ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ قرین قیاس نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کا امریکا کو چند منٹ پہلے پتا چلا۔‘

انہوں نے کہاکہ یہ حملہ عالم اِسلام کے لیے بالعموم اور عالمِ عرب کے لئے بالخصوص خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے۔ عرب ممالک غزہ اور فلسطین کے معاملے پر بہت محتاط تھے کہ ایک خاص حد سے آگے نہ جائیں کیوں کہ امریکا اُن کی سیکیورٹی کا ضامن تھا۔ لیکن اِس حملے سے جو صورتحال میں بدلاؤ آیا ہے اُس سے لگتا ہے کہ اب اِس خطے میں کوئی قانون نہیں ہوگا۔

کیا عرب ممالک مزاحمت کر سکتے ہیں؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80 کی دہائی میں کوشش کی تھی کہ ہمارے پاس کوئی دفاعی قوّت ہونی چاہیے اور اِس مرتبہ پھر اُنہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا کوئی مشترکہ دفاعی نظام ہونا چاہیے لیکن یہ امریکا کے اِس قدر تابع ہیں کہ یہ ایسا کر نہیں پائیں گے، یہ فیصلہ کرنا اُن کے لئے مُشکل ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ اِس پر یہ روس اور چین کی طرف دیکھیں گے۔ ان دونوں ملکوں کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے معاشی تعلقات تو ہیں لیکن دفاعی تعلقات نہیں۔ اب وہ دیکھیں گے کہ امریکا اگر اُن کو سیکیورٹی مہیّا نہیں کرتا تو اُن کے پاس کیا آپشن ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ یہ خلیجی ممالک کوئی عام ریاستیں نہیں، یہ ہزاروں ارب ڈالر کی دولت رکھنے والے ممالک ہیں۔ انہوں نے تین ٹریلین ڈالر کے ساورن ویلتھ فنڈ کے ذریعے امریکا میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ امریکا ہر سال اِن مُلکوں کو سینکڑوں ارب ڈالر کا اسلحہ بیچتا ہے لیکن اُسے جان بوجھ کر اسرائیل کی استعداد سے کم رکھا جاتا ہے۔

’اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا گریٹر اسرائیل کے لیے آیا خلیجی ممالک کو مکمل تباہ کیا جائے گا یا پھر اِن کی سیکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام کیا جائے گا۔‘

’شہباز ٹرمپ ممکنہ ملاقات کا ایجنڈا ٹرمپ جنرل عاصم ملاقات سے اوپر نہیں جا سکتا‘

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ اِس ملاقات کا ایجنڈا 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات کے ایجنڈے سے اوپر نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہاکہ وہ بڑا جامع ایجنڈا تھا اور اُس کو حتمی شکل اسحاق ڈار اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں دے دی گئی تھی اور اُس کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کے لیے امریکا کے اُسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان میں آپریشن کو جواز بنانا سراسر غلط تھا۔ اُسامہ بن لادن کوئی امریکا کے کہنے پر مذاکرات تو نہیں کر رہا تھا۔

’حماس رہنما خلیل الحیہ قطر میں امریکا کی منشا سے مذاکرات کے لئے آیا تھا، قطر نے بُلایا تھا اور اُس کے ہاتھ میں وہ پرچہ دیا تھا جو امریکا نے دیا تھا کہ یہ شرائط امریکا و اسرائیل دونوں کی طرف سے ہیں۔‘

قطر پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے فوراً دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ قطر کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں وہاں ہمارے بہت سارے پاکستانی کام بھی کرتے ہیں اور بڑے اعلیٰ عہدوں پر بھی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اِس کے علاوہ قطر خطے کا مرکز ہے۔ وہ مشرق مغرب کے درمیان، شمال اور جنوب کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ لہٰذا حملے کے فوراً بعد وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایک اہم فیصلہ تھا۔ وہ گئے اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وہ اِسلامی ملک ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اُنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی اجلاس: مسلم ممالک نے قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی اقدامات کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرادی

’پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے بھارت ہے‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے۔ گزشتہ برس دہشتگردی میں 4 ہزار لوگ مارے گئے جو کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔

اُنہوں نے کہاکہ ملا ہیبت اللہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور ان دہشتگردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews سابق سفارتکار سابق صدر آزاد کشمیر قطر پر اسرائیلی حملہ گریٹر اسرائیل مسئلہ فلسطین مسعود خان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • دبئی:پاکستانیوں کیلئے ترسیلات زرآسان،بوٹم اورجنگل بے میں اشتراک
  • ایشیا کپ: پاکستان ٹیم کی اسٹیڈیم روانگی اچانک روک دی گئی
  • کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟
  • آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • ایشیا کپ: آئی سی سی نے اینڈی پائیکرافٹ کی تبدیلی کا مطالبہ مسترد کردیا، بھارتی میڈیا
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک
  • اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر