واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لئے امریکا میں پی ٹی آئی سے وابستہ افراد اپنی ذاتی حیثیت میں اس بات پر قائل ہیں کہ انگیجمنٹ کے سوا کوئی راستہ نہیں، معاملہ بلآخر مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوگا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے عالمی امور عاطف خان نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'پارٹی میں شامل بعض ایسے لیڈر جو انگیجمنٹ کے مخالف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ خان رہا ہو۔ انہیں اپنی سیاسی دکان بند ہونے اور سوشل میڈیا پر ویوز ختم ہونے کا ڈر ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شعلہ بیانی سے درجہ حرارت کم ہونے نہیں دے رہے۔'
عاطف خان نے کہا کہ وہ خود پاکستان آکر انگیجمنٹ بڑھانے کے لئے تیار ہیں اور بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے ڈاکٹر منیر، ڈاکٹر سائرہ بلال اور عثمان ملک کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ برف پگھلانے کے لئے کردار ادا کریں۔عاطف خان پی ٹی آئی کے وہ ینگ لیڈر ہیں جنہوں نے بچپن میں شوکت خانم ہسپتال کیلئے کام کیا۔18برس کی عمر میں مانسہرہ میں عمران خان، عارف علوی اور دیگر کی اپنے گھر میں میزبانی کی اور مسلم لیگ سے دیرینہ وابستہ اپنے گھرانے کو پی ٹی آئی میں شامل کرایا۔عاطف خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی آرگنائزیشن آف انٹرنیشنل چیپٹرز کے سیکرٹری سجاد برکی نے انہیں ابتدا میں خبردار کیا تھا کہ ڈاکٹروں کا وفد پاکستان بھیجنا مناسب نہیں اور یہ بڑی ذمہ داری ہوگی تاہم ڈاکٹروں کے واپس آنے کے بعد سجاد برکی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ درست اقدام تھا اور بحثیت دوست وہ اس معاملے پر ساتھ کھڑے ہیں۔ اس نمائندے نے سجاد برکی سے اس کی تصدیق چاہی تورابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔
پی ٹی آئی امریکا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کے وفد کو پاکستان بھیجنے میں اہم کردار ادا کرنیوالے امریکن پاکستانی کاروباری شخصیت تنویر احمد نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام صلح اور نیکی کا درس دیتا ہے اور ان کا یہ اقدام نیک نیتی پر مبنی تھا۔ بتایا کہ وفد میں شریک ہر شخص کی یہ اپنے طور پر بھی خواہش تھی کہ معاملات بہتری کی جانب بڑھیں۔پی ٹی آئی امریکاذرائع کے مطابق پاکستان جانیوالے ڈاکٹروں کو خود پی ٹی آئی ہی کے ایک اہم لیڈر نے بھی روکنے کی کوشش کی تھی اور خدیجہ شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ وہ ون وے ٹکٹ کٹوا رہے ہیں۔ وفد اس شخص کی بات خاطرمیں تو نہیں لایا مگر ان میں سے بعض کے چہروں پر پریشانی کے آثار اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ وہ پاکستان سے امریکا واپسی کی کنیکٹنگ پرواز سے دوحہ ا±تر نہیں گئے تھے۔
تنویر احمد نے کہا کہ اصل معاملہ پی ٹی آئی کے نام نہاد حامی سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے بگاڑا۔انہیں یقین ہوگیا تھا کہ وفد کی ملاقاتیں نتیجہ خیز ہوئیں تو انکے تجزیوں اور تبصروں سے مرچ مصالحہ غائب ہوجائےگا اور وہ ہزاروں ڈالرز روزانہ چھاپنے سے محروم ہوجائیں گے۔تنویر احمد نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو،عمران خان کو ضمانت پر رہائی مل جائے تو سب سے بڑا نقصان انہی یوٹیوبرز کا ہوگا اور یہ اس کے لئے پاکستان کی ساکھ داو پر لگائے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ خطرناک رجحان ہے کہ چیزیں درست سمت میں جارہی ہوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اثر ڈال کر ر±خ موڑ دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر بے پر کی اس وقت بھی اڑائی گئی جب بانی پی ٹی آئی کی تین بہنوں علیمہ خان، عظمیٰ خان اور نورین خان کوحراست میں لے کر شادی ہال منتقل کیا گیا تھا۔ ویوز کی دوڑ میں سنسنی خیزی پھیلائی گئی کہ تینوں بہنیں گرفتارکرلی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک ڈونر نے دعویٰ کیا کہ کپتان جب تک جیل میں ہے،بعض پارٹی رہنماﺅں کی آمدنی کا اہم ذریعہ چندہ ہے جو وہ مختلف مد میں جمع کررہے ہیں۔ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ پارٹی کے ڈی چوک پر جلسے میں لوگوں کو لانے لیجانے اور دیگر انتظامات کے نام پر امریکا میں پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے تین لاکھ ڈالر جمع کئے تھے جو وزیراعلیٰ گنڈا پور کو دیے جانے تھے تاہم وہ گنڈاپور تک نہیں پہنچے۔رقم کہاں گئی،کچھ پتہ نہ چلا۔اسی ڈونر کا کہنا تھاکہ امریکا کے صدارتی اور کانگریشنل الیکشن کے دوران بھی چندے کی یہ مہم جاری تھی جس میں مختلف امیدواروں کی میزبانی کے نام پر رقم جمع کرکے جیبیں گرم کی گئیں۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہری جھنڈی دکھائے جانے پراب یہ افراد بغلیں جھانکتے نظرآتے ہیں۔
امریکا میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما کے بقول ذاتی مفاد کی چھری پارٹی مفاد کے گلے پر پھیری جارہی ہے جس سے پی ٹی آئی کے اوورسیز حامی بد دل ہورہے ہیں۔ممکن ہے اسی صورتحال کے سبب شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی رہنماوں سے اپیل کی ہے کہ اتفاق رکھئے اور جیل والوں کیلئے کچھ کریں۔

سرگودھا، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل  راشن چوری کے الزام میں معطل  کردیاگیا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے کہا کہ کے ایک کے لئے

پڑھیں:

پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-6

 

متین فکری

بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔

بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔

اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔

متین فکری

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • بھارتی طبی گولیوں کی بڑی کھیپ کراچی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
  • ہماری کوشش ہے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی
  • امریکا: دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • امریکا, دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
  • ہماری کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی کا شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد بیان