روس ایران معاہدہ ایک نئی پیشرفت
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دونوں ممالک اسوقت مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں اور ان پابندیوں نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لایا ہے، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اقتصادی اور تجارتی مراحل آسانی سے طے ہو جائیں گے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ ایران روس جامع معاہدے کے نفاذ میں درپیش چیلنجوں کے باوجود دونوں ممالک کیجانب سے تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کا عزم پایا جاتا ہے اور دوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشین اکنامک یونین اور بریکس جیسے علاقائی اتحادوں میں تہران اور ماسکو کی رکنیت، اس معاہدے کے نفاذ میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ تحریر: رضا عمادی
روسی پارلیمنٹ ڈوما نے منگل (8 اپریل) کو روس اور ایران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کا جائزہ لینے کے بعد اس کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ ماسکو اور تہران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کی منظوری کا بل روسی صدر ولادیمیر پوتن نے 27 مارچ کو ڈوما میں پیش کیا تھا۔ اس معاہدے پر دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان گزشتہ موسم سرما میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ماسکو کے دورے کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کے تعلقات متعدد اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ ملکی طور پر ایران اور روس دو پڑوسی ممالک ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران اور روس کے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے دونوں ممالک کے اندر منفی خیالات موجود ہیں، تاہم حکومتیں ہمیشہ تعلقات کو وسعت دینے کے لئے کوشاں رہی ہیں۔
موجودہ غیر منصفانہ عالمی نظام کے بارے میں ماسکو اور تہران کا نظریہ اور ساتھ ہی ساتھ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ سے درپیش مشترکہ خطرات نے دونوں کو اس بات پر تیار کیا ہے کہ وہ باہمی تعلقات کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ بہرحال دونوں ممالک مغربی دباؤ بالخصوص امریکی پابندیوں کے تناظر میں باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔ ماسکو اور تہران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کو مغربی پابندیوں اور اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے جواب کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں ممالک کی مشترکہ چیلنجوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے پر آمادگی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
ماسکو اور تہران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدہ دیگر کئی پہلوؤں کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اس معاہدے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایران توانائی، صنعت اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں روسی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف روس ایران کے قدرتی وسائل اور مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایران روس جامع معاہدہ اپنی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کے ساتھ ساتھ فوجی اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ یہ معاہدہ ایران اور روس کے درمیان فوجی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس تعاون میں معلومات کا تبادلہ، فوجی تربیت اور حتیٰ ہتھیاروں کی فروخت کو بھی شامل کرسکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کو دہشت گرد گروپوں کے مشترکہ خطرات کے ساتھ ساتھ مغرب کے فوجی دباؤ کا سامنا ہے، یہ تعاون دونوں ممالک کی قومی سلامتی کو مستحکم بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ روسی پارلیمنٹ کی جانب سے معاہدے کی منظوری اور اس کے نفاذ کے لیے زمینی تیاری کے باوجود ابھی آگے بڑھنے کے راستے میں کئی چیلنجز موجود ہیں۔ ایک اہم چیلنج دونوں ممالک کی معیشتوں میں مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کے معاشی ڈھانچے زیادہ اوورلیپ نہیں ہوتے، کیونکہ دونوں ممالک تیل برآمد کرنے والے اور جدید ٹیکنالوجی کے درآمد کنندگان ہیں۔
دونوں ممالک کی متعلقہ برآمدی منڈیوں میں توانائی اور خام مال درآمد کرنے والے ممالک شامل ہیں۔ دونوں ممالک اس وقت مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں اور ان پابندیوں نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اقتصادی اور تجارتی مراحل آسانی سے طے ہو جائیں گے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ ایران روس جامع معاہدے کے نفاذ میں درپیش چیلنجوں کے باوجود دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کا عزم پایا جاتا ہے اور دوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشین اکنامک یونین اور بریکس جیسے علاقائی اتحادوں میں تہران اور ماسکو کی رکنیت، اس معاہدے کے نفاذ میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کے نفاذ میں ماسکو اور تہران دونوں ممالک کی دونوں ممالک کے ایران اور روس اس معاہدے تعلقات کو کے باوجود کو مضبوط یہ ہے کہ سکتا ہے
پڑھیں:
پاکستان کے بھارت کو 4 خط ؟ ؟؟؟؟بھارتی میڈیا پھر بے بنیاد دعوے کرنے لگا
جگ ہنسائی کے باوجود بھارتی میڈیا نے فیک نیوز کا دھندا بند نہ کیا اور پھر بے بنیاد دعوے کرنے لگا۔
بھارتی میڈیا نے بے بنیاد دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے پہلگام واقعے کے دو ماہ بعد نئی دلی کو چار خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
تاہم وزارت پانی کے ذرائع نے جیونیوز کو تصدیق کی ہے کہ یہ یکسر فیک نیوز ہے جس کا مقصد جنگ میں ہوئی بھارت کو عبرتناک شکست سے بھارتی عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے صرف دو خطوط لکھے ہیں اور وہ بھی محض بھارت کے خطوط کا جواب ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طورپر معطل کیا ہی نہیں جاسکتا اور بھارت کو ہرصورت اس پر عمل کرنا ہوگا۔