جب کرکٹ کے افق پر دھندلا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا، جب شائقین وطن کی آنکھیں انٹرنیشنل ستاروں کی جھلک کو ترس رہی تھیں، تب پاکستان سپر لیگ نہ صرف دنیائے کھیل کو منور کرنے بلکہ قومی افتخارکو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ایک نوری ستارے کی مانند طلوع ہوئی۔

 پی ایس ایل محض ایک کھیل کا مقابلہ نہ تھی بلکہ ایک فکری تحریک، ثقافتی انقلاب اور قومی بیانیہ تھی، جس نے دہشت کے بادلوں کو چیر کر امید کی کرن روشن کی، بلاشبہ پی ایس ایل کراچی کے ساحلوں سے لاہور کے قلعوں تک، پشاور کی جرات سے کوئٹہ کی سادگی تک اور ملتان کی محبت سے لے کر اسلام آباد کی بردباری تک، پاکستان کی ثقافتی و جغرافیائی وحدت کا مظہر ہے، ہر ٹیم ایک شہر کی نمائندہ نہیں، بلکہ ایک مکمل سوچ، ایک مکمل خواب ہے۔

 پی ایس ایل کے میدان صرف کرکٹ کے لیے نہیں سجتے یہ امیدوں کے جشن، یگانگت کے ترانے اور قومی جذبے کے مظاہر بن جاتے ہیں،ان میدانوں میں نہ صرف گیند بیٹ بولتا ہے بلکہ تاریخ، تہذیب اور تمدن بھی ہم کلام ہوتے ہیں،اس لیگ نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان صرف خبروں کا نہیں خوابوں کا بھی مرکز ہے ، پی ایس ایل ان کے حوصلوں کو وہ پر عطا کرتی ہے جن سے وہ زمانے کو تسخیر کر سکتے ہیں۔

شاہد آفریدی کی گرج ہو یا بابر اعظم کا وقار، شاداب خان کی فیلڈنگ ہو یا محمد رضوان کا تدبر، پی ایس ایل نے ہر ہنر کو تراشا اور ہر جوہر کو جگمگانے کی فرصت دی، یہاں صرف گیند اوربیٹ نہیں بولتے بلکہ عوام کا دل، جذبات اور تہذیب بھی گویا ہو جاتی ہے، یہ لیگ وہ پل ہے جس نے کھیل کو سیاست سے بلند کیا، امن کا علم لہرایا اور عالمی ستاروں کو وطن کی مٹی سے آشنا کیا۔ فاف ڈوپلیسی سے لے کر ڈیرن سیمی تک ہر مہمان نے پاکستان کو محض ایک میدان نہیں بلکہ محبت بھرا دیس جانا،اگرپی ایس ایل کو تشبیہ دی جائے تو یہ ایک ایسی غزل ہے جس کے ہر مصرعے میں غیرت قومی کا عکس ملتا ہے۔

 یہ وہ داستاں ہے جو بزدلی کے عہد میں جرات کی نوید بن کر ابھری ، جس نے کرکٹ کے دامن میں وقار، روشنی اور استقامت کے تار باندھے، یہی پاکستان سپر لیگ کی اصل کامیابی ہے کہ اس نے صرف ٹرافیز نہیں دل جیتے ہیں، صرف میچ نہیں تاریخیں رقم کی ہیں اورصرف میدان آباد نہیں کیے بلکہ قوم کی رگوں میں دوڑتی مردہ امیدوں کو زندگی بخشی ہے۔

جب عرب کی ریت پر 2016 کی شبوں میں کرکٹ کی نقرئی چاندنی اتری تو دبئی کی فضاؤں میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے تاریخ کی پہلی سطر رقم کی، مصباح الحق کی خاموش قیادت، عقل و تدبر کی تصویراور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی خواہشوں کو 6 وکٹوں کی ضرب سے کچلتے ہوئے پہلی ٹرافی اپنے نام کی۔پھر آیا 2017 کا سال جب لاہور کے قذافی اسٹیڈیم نے روشنیوں کی قندیلیں جلائیں،پشاور زلمی نے ڈیرن سیمی کی انقلابی قیادت میں کوئٹہ کو 58 رنز سے شکست دے کر ایک خواب کو حقیقت بنایا، یہ وہ لمحہ تھا جب فتح نے پشتو ساز پر رقص کیا۔

2018میں ایک بارپھراسلام آباد یونائیٹڈ نے میدان کرکٹ کو اپنا مقتل بنایا، پشاور زلمی کو تین وکٹ سے زیر کر کے فتح دوسری بار اپنے نام کی اور پی ایس ایل کی تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ میں لکھوایا۔2019 کی ہوا میں ایک بار پھر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی للکار گونجی اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں سرفراز احمد کی ولولہ انگیز قیادت نے پشاور کے ارمانوں کو راکھ کیا،اس بار کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکے تاج پر پی ایس ایل کی چوتھی ٹرافی جگمگائی۔2020 کا سورج جب نیشنل اسٹیڈیم کراچی پر چمکا تو لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کا پہلا فائنل ہجومِ شوق سے بپا ہوا۔

عماد وسیم کی ٹھنڈی عقل اور گرم جوشی نے 5 وکٹ سے میدان مارا، کراچی کنگز نے پہلی بار چیمپئن کہلوانے کا اعزاز پایا۔2021 کی شفق جب ابوظہبی کے شیخ زید اسٹیڈیم پر پھیلی تو ملتان سلطانز نے پشاور زلمی کے عزائم کو 47 رنز سے روند ڈالا۔ ایک نئی طاقت، نیا عہد، ملتان کا عروج کرکٹ کے فلک پر جگمگانے لگا۔2022 اور 2023 کی قلندری داستانیں ایسے معلوم ہوئیں جیسے بابا بلھے شاہ کی سرزمین نے کرکٹ کو تصوف کے رنگ میں رنگ دیا ہو۔

 لاہور قلندرز نے نہ صرف بدنامی کا داغ دھویا بلکہ تاریخ میں اپنا نام روشنائی سے نہیں آگ سے لکھا۔ 2023ء میں صرف 1 رن سے جیتنا محض فتح نہیں بلکہ حریف ملتان سلطانز کے دل پر نقش ایک ناقابل فراموش زخم تھا۔2024 میں ایک بار پھر نیشنل اسٹیڈیم کراچی نے فائنل کی میزبانی کی۔ اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطانز کے درمیان مقابلہ ہوا، جہاں 2 وکٹوں سے فتح کا تارا اسلام آبادیونائیٹڈ کی پیشانی پر چمکا۔ یوں تیسری بار وہ چیمپئن بنے جو تاریخ کے ماتھے پر نقش بن چکے ہیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ وہ ٹیم ہے جس نے تین بار (2016، 2018، 2024)لیگ کی ٹرافی کا تاج اپنے سرپر سجایا، گویا کامیابی کی پیشانی پر ان کی مہر ثبت ہے،استقلال، تدبر اور فتح کی علامت جو ہر بار بازی پلٹ دینے کا ہنر رکھتے ہیں۔لاہور قلندرز وہ روایت شکن دستہ ہے جس نے 2 بار عروج کی مسند کو چھوا اور ایک بار دل شکستہ لوٹے مگر جذبوں کی سرزمین پر ہمیشہ راج کیا۔ یہ وہ قافلہ ہے جس کی گونج دیوانوں کے نعروں میں سنائی دیتی ہے جو ہار کر بھی دل جیتنے کا ہنر جانتے ہیں۔ملتان سلطانزیہ قسمت کے دریچے پر مسلسل دستک دینے والے وہ مرد میدان ہیں جنھوں نے ایک بار تو سرفرازی پائی، مگر تین بار حریف کے خیمے کے گرد منڈلاتے رہے وہ طوفان جو ہر بار جیت کے قریب آ کر پیچھے رہ گیا مگر امید کی شمع کبھی گل نہ ہوئی۔پشاور زلمی ٹیم شجاعت و ثبات کا وہ استعارہ ہے جو ایک بار کے فاتح، مگر تین بار نصیب کے کٹہرے میں جھولتے رہے۔

 یہ وہ چراغ ہیں جو شبِ تار میں بھی روشنی بانٹتے رہے، شکست کو بھی وقار میں ڈھالنے والے سپاہی جو ہر بار نئے عزم کے ساتھ لوٹے۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز یہ وہ سورما ہیں جو تقدیر کے افق پر تین بار نمودار ہوئے ،ایک بار فتحیاب، 2 بار بس تھوڑے فاصلے پر رہ گئے، گلیڈی ایٹرز کی جستجو، ان کا جنون اور للکار ہر سال ایک نئی امید کے ساتھ جنم لیتی ہے، کراچی کنگز پی ایس ایل کا وہ کارواں ہے جس کی جھولی میں ایک بار بہار اتری اور خزاں کے سناٹوں میں امید کا رنگ بھر گئی۔

بلاشبہ کرکٹ ایک کھیل ہی نہیں تہذیبی آئینہ ہے اور جب یہی کھیل پاکستان کی دھرتی پر امیدوں کی چادر اوڑھ لے تو وہ ’’پاکستان سپر لیگ‘‘ بن جاتا ہے،ایک ایسا جشنِ رنگ و نو جس میں ہر چھکا، ہر چوکا، ہر وکٹ اور ہر لمحہ، جذبوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔پاکستان سپر لیگ محض ایک ٹورنامنٹ نہیں بلکہ فکری انقلاب ہے جو ہر سال دلوں کی دھڑکنوں کو نیا ساز بخشتا ہے۔ یہ وہ روایت ہے جو بدترین حالات میں بھی روشنی برقرار رکھتی ہے، دہشت کے اندھیروں میں جگمگاتی یہ لیگ پاکستان کے لیے حوصلے کا چراغ ہے جو دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم نہ صرف کھیلنا بلکہ دل جیتنا بھی خوب جانتے ہیں۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد یونائیٹڈ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پاکستان سپر لیگ میں ایک بار پشاور زلمی پی ایس ایل تین بار کرکٹ کے

پڑھیں:

سلک روڈ کلچر سینٹر میں ’لائف فار آرٹ-لائف فار غزہ‘ آرٹسٹ کیمپ کا آغاز 30 اپریل سے ہوگا

اسلام آباد میں سلک روڈ کلچر سینٹر (ایس آر سی سی) کے زیراہتمام ’آرٹ فار لائف-آرٹ فار غزہ‘ کے عنوان سے ایک ہفتہ طویل آرٹسٹ کیمپ 30 اپریل تا 7 مئی منعقد کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی کا غزہ کی حمایت کا اعادہ

اس بات کا اعلان ایس آر سی سی نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا۔ اس موقعے پر ایک شاندار تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں فلسطین کے نائب سفیر، غیر ملکی معززین اور کیمپ کے شریک فنکاروں نے شرکت کی۔

ایس آر سی سی کے چیئرمین اور اس اقدام کے پیچھے بصیرت رکھنے والے جمال شاہ نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام غزہ کے لیے کوئی احتجاج نہیں ہے بلکہ یہ ایک ادبی عمل ہے جس کے ذریعے فنکار غزہ اور اس کے باسیوں کی اسپرٹ کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔

غزہ میں بڑھتے ہوئے انسانی المیے اور نسل کشی کے پس منظر میں کثیر الثقافتی و کثیر الجہتی فنکاروں کے اس اجتماع کا مقصد آرٹ کو یکجہتی کی پرامن زبان کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہے۔

’آرٹ فار لائف-آرٹ فار غزہ‘ کی تھیم کے ساتھ اس اقدام کا مقصد سیاسی بیان بازی کے بجائے ایک عکاس ثقافتی اظہار پیش کرنا ہے۔

بریفنگ کے دوران زیجاہ فضلی نے کہا کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں احتجاج اور تنازعات پر کان نہیں دھرے جا رہے یہ اقدام آرٹ کی خاموش مگر طاقتور زبان میں بولے گا۔

مزید پڑھیے: غزہ کا دورہ کرنے والے امریکی ویزا درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھنے کا حکم

مذکورہ پروگرام میں منعقد ہونے والی ورکشاپس میں پینٹنگ اور مجسمہ سازی، خطاطی اور شاعری، مختصر فلمیں، تھیٹر، رقص اور موسیقی، اور تنصیبات اور انٹرایکٹو آرٹ شامل ہوں گے۔ ورکشاپس کے دوران تیار کردہ تمام تخلیقی کام انسانی وقار، یادداشت اور امید کے اصولوں کو برقرار رکھیں گے۔

ورکشاپس کے اختتام پر ایک خصوصی پبلک آرٹ فیسٹیول اور چیریٹی نیلامی کا انعقاد کیا جائے گا جس سے حاصل ہونے والی 100 فیصد آمدنی غزہ میں بچوں اور کمزور کمیونٹیز کی مدد کے لیے استعمال ہوگی۔

تقریب میں وفاقی وزرا، سفارت کاروں، ثقافتی سفیروں، کارپوریٹ اور ترقیاتی شعبے کے نمائندوں کے علاوہ طلبا اور سول سوسائٹی کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔

اپنے اختتامی کلمات میں جمال شاہ نے میڈیا سے پارٹنر کے طور پر کام کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم میڈیا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ صرف اس کہانی کو رپورٹ نہ کریں بلکہ اس کا حصہ بنیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے پیغام کو نشر کرنے میں مدد کریں جو تنازعات سے بالاتر ایک ایسا پیغام ہو جو شافع ثابت ہو۔

مزید برآں تقریب میں شامل فنکاروں اور مقررین نے اشارہ کیا کہ اس کیمپ میں تیار کیے گئے کاموں میں خون، تشدد یا سیاسی تبصروں کی عکاسی نہیں ہوگی بلکہ وقار، ورثہ، لچک اور امید پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے خاتمہ پر اسرائیلی کارروائیوں میں ابتک 5 لاکھ لوگ بے گھر

شریک فنکاروں میں سے ایک ثمینہ شاہ نے اس خیال کا خلاصہ کچھ اس طرح کیا کہ ’ آرٹ کے ذریعے ہم دور نہیں دیکھتے بلکہ گہرائی سے دیکھتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ 30 اپریل سے شروع ہونے والا یہ پروگرام میں مصوری اور مجسمہ سازی، تھیٹر، رقص و موسیقی، شاعری، خطاطی اور مختصر فلموں سے مزین ہوگا۔ اس موقعے پر لائف اسٹریمنگ کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

’آرٹ فار لائف-آرٹ فار غزہ‘ اسلام اباد سلک روڈ کلچر سینٹر غزہ غزہ نسل کشی

متعلقہ مضامین

  • کینیڈا الیکشن؛ 50 سے زائد پاکستانی بھی میدان میں
  • کینیڈا الیکشن،50سے زائد پاکستانی بھی میدان میں اتر گئے
  • کینیڈا الیکشن؛ 50 سے زائد پاکستانی بھی میدان میں اتر گئے
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • سابق آسٹریلوی کرکٹر انتقال کر گئے
  • سلک روڈ کلچر سینٹر میں ’لائف فار آرٹ-لائف فار غزہ‘ آرٹسٹ کیمپ کا آغاز 30 اپریل سے ہوگا
  • عمران خان سے ملاقاتیں روکنا ناقابلِ برداشت ہے، حلیم عادل شیخ
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟
  • مانتے ہیں ہمارا مڈل آرڈر زیادہ مضبوط نہیں: روی بوپارہ