اسلام آباد ہائیکورٹ کا کیس سنگل سے ڈویژن بینچ منتقل نہ کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
--- فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ بغیر قانونی جواز کے کیس سنگل سے ڈویژن بینچ ٹرانسفر کرنے سے روک دیا۔
ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ ٹرانسفر یا مارکنگ کرتے ہوئے عدالتی گائیڈ لائنز مدنظر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدلت نے قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈویژن بینچ میں مقرر کردہ کیسز دوبارہ واپس مختلف بینچز میں بھیجنے کا بھی حکم دیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے 12 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا۔
فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جب تک فل کورٹ ہائی کورٹ رولز پر مزید رائے نہ دے انہی گائیڈ لائنز پر عمل کریں، ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل تمام کیسز متعلقہ بینچ میں بھیج دیں۔
جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق بھی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔ لارجر بینچ نے 6 مارچ کو آخری سماعت کی، آئندہ 10 اپریل سماعت کی تاریخ مقرر تھی۔
فیصلے کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کیس سنگل بینچ سے ڈویژن بینچ بھیجنے کا اختیار بغیر قانونی جواز استعمال نہ کریں، قانون کی تشریح ہو یا ایک ہی طرح کے کیسز ہوں جو قانونی جواز دیں پھر ہی اختیار استعمال ہو سکتا ہے۔
فیصلے میں کہاگیا ہے کہ ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق سنگل یا ڈویژن بینچز کیسز فکس کرنے کا اختیار ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا ہے، رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق چیف جسٹس کا اختیار روسٹر کی منظوری کا ہے، رولز واضح ہیں کیسز مارکنگ اور فکس کرنا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا اختیار ہے، ڈپٹی رجسٹرار کو کیس واپس لینے یا کسی اور بینچ کے سامنے مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔
عدالت نے کہا فیصلے میں کہا ہے کہ آصف زرداری کیس میں طے ہو چکا کہ جج نے خود طے کرنا ہے کہ کیس سنے گا یا نہیں، اس کیس میں نہ تو جج نے معذرت کی اور نہ ہی جانبداری کا کیس ہے، انتظامی سائیڈ پر قائم مقام چیف جسٹس کی مناسب انداز میں آفس نے معاونت نہیں کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس عجیب صورتِ حال نے اس عدالت کو شرمندگی کی صورتِ حال میں ڈالا ہے، چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے حوالے سے رولز واضح ہیں کہ یہ اختیار انتظامی کمیٹی کا ہے، کیسز فکس کرنا جوڈیشل بزنس ہے اس کو انتظامی اختیارات کے برابر نہیں دیکھ سکتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اگر سمجھے کیس کسی اور بینچ میں جانا چاہیے تو اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے جج کے ریڈر سے رابطہ کرے، جو جج بینچ میں سینئر ہو ٹرانسفر ہونے والا کیس اس کے سامنے رکھا جائے۔
فیصلے کے مطابق ایک بینچ نے لکھا ہے کہ ٹیکس اور کچھ اور کیسز ان کے سامنے مقرر نہ کیے جائیں، قائم مقام چیف جسٹس نے یہ تمام کیسز ڈویژن بینچ ٹو میں ٹرانسفر کر دیے اور کہا ہے کہ کوئی لسٹ نہیں جس سے معلوم ہو اس نوعیت کا کوئی کیس ہمارے سامنے پہلے زیرِ التواء ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے بینچ میں 16 تاریخوں سے ایک کیس زیرِ التواء ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس کیس کی کافی کارروائی سنگل بینچ میں ہو چکی، قائم مقام چیف جسٹس کے انتظامی آرڈر میں نہ کوئی وجہ نہ ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈرز کا کوئی حوالہ ہے، ٹیریان کیس میں لارجر بینچ طے کر چکا کہ چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتا ہے لیکن دوبارہ تشکیل یا ترمیم نہیں کر سکتا، صرف اسی صورت بینچ دوبارہ تشکیل ہو سکتا ہے جب بینچ معذرت کر کے یا وجوہات کے ساتھ دوبارہ تشکیل کرنے کا کہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: قائم مقام چیف جسٹس رولز اینڈ آرڈرز اسلام آباد ہائی ہائی کورٹ رولز فیصلے میں کہا لارجر بینچ ڈویژن بینچ کا اختیار کہا ہے کہ کے مطابق کرنے کا
پڑھیں:
پشاور ہائیکورٹ میں 2016 تا 2025 سولہ ہزار سے زائد کیس زیر التوا
پشاور ہائیکورٹ میں برسوں سے زیر التوا مقدمات کی تعداد خطرناک حد تک پہنچتے ہوئے 16 ہزار 40 ہو گئی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سنگل بنچ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 8 ہزار 404 ہے اور ڈویژن بنچ میں 7 ہزار 635 مقدمات تاحال فیصلے کے منتظر ہیں، رٹ پٹیشنز کی تعداد 5 ہزار 342 ہے جن پر تاحال سماعت نہیں ہوسکی۔سول ریویژن کے 2 ہزار 767 مقدمات التوا کا شکار ہیں، توہین عدالت کے 500 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، بریت کے 972 کیسز اور عمر قید کے 255 کیسز بھی ابھی تک حل طلب ہیں۔ سزائے موت کی 34 اپیلیں اور راہداری ضمانت کی 102 درخواستیں کئی سالوں سے زیر التوا ہیں، الیکشن سے متعلق 4 اپیلیں اور 14 درخواستیں بھی سماعت کی منتظر ہیں۔دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 2015 تک زیر التوا مقدمات کی تعداد صرف 438 تھی تاہم 2016 سے 2025 کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 15 ہزار 602 ہو گئی۔