Daily Ausaf:
2025-09-18@11:51:20 GMT

قرآن کی برکتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

اللہ وحد ہ، لاشریک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے رسولوں کے ساتھ اپنی کتابیں بھی بھیجیں کہ رسول ان کتابوں کے ذریعہ اپنی اپنی امتوںکو دنیا میں زندگی بسر کر نے کے طریقے سکھائیں۔ ایسے کاموں کے کرنے کا حکم دیں جو خالق انسان کی رضا کا ذریعہ ہو ں اور ان کامو ں سے بچنے کی تاکید کریں جو مالک حقیقی کی مرضی کے خلاف ہو ں ،یعنی خداکی کتابیں ،آسمانی کتابیں ، انسانوں کے لئے دستور العمل ،ضابطہ حیات ، قانون زندگی ہیں،جن کا معلم انبیا ء کرام ورسل عظام علیہم السلام ہیں ۔ رسول صرف ان کتابوں کے پہنچانے والے نہیں بلکہ ان کو سکھانے والے اور عملی طور پر ان کی تعلیم دینے والے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ رسول کی تعلیم و تربیت خود خدائے بالاوبرتر فرماتا ہے۔ رسول نہ تو دنیا کے عالموں سے علم حاصل کر تا ہے اور نہ وہ دنیا کی کتابوںکا محتاج ہو تا ہے ۔ وہ تو خداکی کتاب کا معلم ہوتاہے، لہذا خداہی اس کو ا س منصب کا اہل بناتا ہے ،ایسا علم عطا فرماتا ہے کہ امت کا کوئی فرد اس کے علم کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرپاتا ، رسول کا ہر عمل ، اس کی ہر ادا خداکی کتاب کاعملی نمونہ ہوتی ہے ۔ فرمایا گیا (پ۱۲،الاحزاب۱۲) ترجمہ: ’’بے شک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حضور علیہ السلام کی عادات و اطوار کے متعلق معلوم کر ناچاہا تو آپ نے یہی فرمایا کہ ،ترجمہ’’کردار رسول ﷺ قرآن کے عین مطابق تھا‘‘انسان کی ضرورت کے مطابق ہر دور میں خدانے اپنی کتابیں نازل فرمائیں ۔
حضرت دائود علیہ السلام کو ’’زبور‘‘دی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’تورات‘‘ملی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’انجیل‘‘ لے کر آئے۔ ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ۔ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی کتابیں تھی ،لیکن یہ کتابیں ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ خاص زمانے اور خاص امتوں کے لئے تھیں ،جو رسول یہ کتابیں لے کر آئے ، انہوں نے خود کبھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ ان کی کتا بیں ہر دور سے انسانوں کے لئے دستور العمل ہیں۔ ا نہو ں نے تو یہ بھی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی رسالت عام ہے۔ وہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے رسول ہیں ،بلکہ ان کی کتابوں نے نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر دی ۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ سب کتابیں اللہ ہی کی کتابیں تھیں ،لیکن محدود وقت اور مخصوص قوم کے لئے ،یہی وجہ ہے کہ آج یہ کتابیں اپنی اصل حالت میں کہیں نہیں نہ ان کی تاریخ کا پتہ ہے اور نہ اس کے اصل نسخے کہیں پائے جاتے ہیں ،حتیٰ کہ جس زبان میں یہ کتابیں نازل ہو ئی ،آج دنیا میں ان زبانوں کا بولنے والا ،جاننے والا کوئی نہیں رہا ، پس اب خدا کے بندوں کے پا س خداکی صرف ایک ہی کتا ب ہے ، جوآخری کتاب ہے ، جو خدا کے آخری رسول ، حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی، یہی مسلمانوں کا ضابطہ حیات اور دستور العمل ہے اوریہ آج تک امت مسلمہ کے پا س اصلی حالت میں موجود ہے ،اس کاایک ایک حرف وہی ہے جو خدانے اپنے آخری نبی محمدمصطفی ﷺپر نازل فرمایایہ نبی کریم ﷺکا صدقہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس خداکی کتاب اصل حالت میں موجود ہے ۔ہم بڑے خوش نصیب ہیں ہمیں چاہیے خدا کی اس نعمت کی قدر کر یں ،اس کا ادب کریں ،احترام کریں ، اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ اس کی تاریخ کو جانیں تاکہ اس کی حفاظت کا ہمیں بھی ثواب ملے ۔
قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جو آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ ہمیں ملی۔ آپ کی عمر شریف چالیس سال چھ ماہ کی ہو چکی تھی۔ آپ غار حرا میں اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام خداکا پہلا پیغام آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ یہیں سے قرآن کریم نازل ہونے کی ابتدا ہو ئی اور تیئیس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کو نازل فرمانے والا،خدا وحدہ،لاشریک ،اس کا لانے والافرشتہ بڑی خوبیوں والا معززمحترم اور امانت دار ، حضور علیہ السلام کا جاناپہچانا ، اس کو لینے والے محمد ابن عبداللہ ﷺ نبیوں کے سردار ،آخری نبی (ﷺ) ہیں۔قرآن کریم کی ان آیات پر غور کیجئے ۔ترجمہ:’’فرمادیجئے ، نازل کیا ہے اسے روح القدس نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ ، تاکہ ثابت قدم رکھے انہیں جو ایمان لائے ہیں یہ ہدا یت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے‘‘(پ ۴۱ ،النحل ، ۲۰۱) یہ سورہ نحل کی آیا ت ہے ،دوسرے مقام پر سورہ شعرا میں فرمایا جارہا ہے ، ترجمہ ’’اور بے شک یہ کتاب رب العلمین کی اتاری ہو ئی ہے اسے لے کر روح الامین اترے ہیں (اے محمدﷺ ) آپ کے قلب پر تاکہ آپ لوگوں کو ڈرانے والے ہو جائیں یہ ایسی عربی زبان میں ہیں جو بالکل واضح ہے اوراس کا ذکر پہلے لو گو ں کی کتابوں میں بھی ہے ‘‘ (پ ۹۱ ، الشعرا ،۲۹۱،۶۹۱)سورہ تکویر کی آیا ت سے مزید وضاحت ہو تی ہے ،ترجمہ ’’بے شک یہ(قرآن) معزز قاصد (جبرئیل)کا (لایا) ہو ا قول ہے جو قوت والا مالک عرش کے یہا ں عزت والاہے سب (فرشتوں)کے سردار اور وہاں کا امین ہے اور تمہا را یہ ساتھی (محمد ﷺ) کوئی مجنون تو نہیں ہے اور بلا شبہ اس (رسول)نے اس قاصد (جبرئیل)کو روشن کنارے پر دیکھا ہے اور یہ نبی غیب بتانے میں ذرا بخیل نہیں اور یہ (قرآن)کسی شیطان مردود کا قول نہیں پھر تم کدھر چلے جارہے ہو یہ صرف تمام جہا ںوالو ں کے لئے نصیحت ہے جو تم میں سے سیدھی راہ چلناچاہے ‘‘ (پارہ۰۳ ،التکویر ، ۹۱،۸۲)
بالکل واضح ہو گیا کہ قرآن کریم نازل کر نے والا تمام جہانوں کا پر ور دگار ہے اس کو دنیا میں پہنچانے کا کا م ایک ایسے فرشتے کے سپرد کیا گیا جو روح القدس ہے ،روح الامین ہے ، بڑی قوت والا ہے۔ خدا کے نزدیک اس کی بڑی عزت ہے ، فرشتوں کا سردار اور فرشتوں میں نہایت امانت دار ہے ۔جس پر یہ کتاب نازل ہو ئی اس کو فرشتے سے لینے کی روحانی قوت اور انسانوںکو دینے سکھانے کی مادی صلاحیت سے پو ری طرح نوازاگیا ہے ۔ اس نے زندگی کے چالیس برس اہل مکہ میں بڑی عزت کے ساتھ امین ،صادق کی حیثیت سے بسر کئے ہیں۔ اس کی زندگی دیکھنے والے ذرا بھی انصاف سے کا م لیں تو اس کو مجنوں و دیوانہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: علیہ السلام یہ کتابیں ں کے لئے نازل ہو یہ کتاب نے والا ہے اور

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • ایک کیخلاف جارحیت دوسرے پر بھی تصور، پاک فوج حرم شریف، روضہ رسولؐ کی محافظ: پاکستان، سعودی عرب میں تاریخی دفاعی معاہدہ
  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • لازوال عشق
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ