Daily Ausaf:
2025-04-25@06:00:55 GMT

قرآن کی برکتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

اللہ وحد ہ، لاشریک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے رسولوں کے ساتھ اپنی کتابیں بھی بھیجیں کہ رسول ان کتابوں کے ذریعہ اپنی اپنی امتوںکو دنیا میں زندگی بسر کر نے کے طریقے سکھائیں۔ ایسے کاموں کے کرنے کا حکم دیں جو خالق انسان کی رضا کا ذریعہ ہو ں اور ان کامو ں سے بچنے کی تاکید کریں جو مالک حقیقی کی مرضی کے خلاف ہو ں ،یعنی خداکی کتابیں ،آسمانی کتابیں ، انسانوں کے لئے دستور العمل ،ضابطہ حیات ، قانون زندگی ہیں،جن کا معلم انبیا ء کرام ورسل عظام علیہم السلام ہیں ۔ رسول صرف ان کتابوں کے پہنچانے والے نہیں بلکہ ان کو سکھانے والے اور عملی طور پر ان کی تعلیم دینے والے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ رسول کی تعلیم و تربیت خود خدائے بالاوبرتر فرماتا ہے۔ رسول نہ تو دنیا کے عالموں سے علم حاصل کر تا ہے اور نہ وہ دنیا کی کتابوںکا محتاج ہو تا ہے ۔ وہ تو خداکی کتاب کا معلم ہوتاہے، لہذا خداہی اس کو ا س منصب کا اہل بناتا ہے ،ایسا علم عطا فرماتا ہے کہ امت کا کوئی فرد اس کے علم کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرپاتا ، رسول کا ہر عمل ، اس کی ہر ادا خداکی کتاب کاعملی نمونہ ہوتی ہے ۔ فرمایا گیا (پ۱۲،الاحزاب۱۲) ترجمہ: ’’بے شک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حضور علیہ السلام کی عادات و اطوار کے متعلق معلوم کر ناچاہا تو آپ نے یہی فرمایا کہ ،ترجمہ’’کردار رسول ﷺ قرآن کے عین مطابق تھا‘‘انسان کی ضرورت کے مطابق ہر دور میں خدانے اپنی کتابیں نازل فرمائیں ۔
حضرت دائود علیہ السلام کو ’’زبور‘‘دی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’تورات‘‘ملی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’انجیل‘‘ لے کر آئے۔ ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ۔ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی کتابیں تھی ،لیکن یہ کتابیں ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ خاص زمانے اور خاص امتوں کے لئے تھیں ،جو رسول یہ کتابیں لے کر آئے ، انہوں نے خود کبھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ ان کی کتا بیں ہر دور سے انسانوں کے لئے دستور العمل ہیں۔ ا نہو ں نے تو یہ بھی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی رسالت عام ہے۔ وہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے رسول ہیں ،بلکہ ان کی کتابوں نے نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر دی ۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ سب کتابیں اللہ ہی کی کتابیں تھیں ،لیکن محدود وقت اور مخصوص قوم کے لئے ،یہی وجہ ہے کہ آج یہ کتابیں اپنی اصل حالت میں کہیں نہیں نہ ان کی تاریخ کا پتہ ہے اور نہ اس کے اصل نسخے کہیں پائے جاتے ہیں ،حتیٰ کہ جس زبان میں یہ کتابیں نازل ہو ئی ،آج دنیا میں ان زبانوں کا بولنے والا ،جاننے والا کوئی نہیں رہا ، پس اب خدا کے بندوں کے پا س خداکی صرف ایک ہی کتا ب ہے ، جوآخری کتاب ہے ، جو خدا کے آخری رسول ، حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی، یہی مسلمانوں کا ضابطہ حیات اور دستور العمل ہے اوریہ آج تک امت مسلمہ کے پا س اصلی حالت میں موجود ہے ،اس کاایک ایک حرف وہی ہے جو خدانے اپنے آخری نبی محمدمصطفی ﷺپر نازل فرمایایہ نبی کریم ﷺکا صدقہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس خداکی کتاب اصل حالت میں موجود ہے ۔ہم بڑے خوش نصیب ہیں ہمیں چاہیے خدا کی اس نعمت کی قدر کر یں ،اس کا ادب کریں ،احترام کریں ، اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ اس کی تاریخ کو جانیں تاکہ اس کی حفاظت کا ہمیں بھی ثواب ملے ۔
قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جو آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ ہمیں ملی۔ آپ کی عمر شریف چالیس سال چھ ماہ کی ہو چکی تھی۔ آپ غار حرا میں اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام خداکا پہلا پیغام آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ یہیں سے قرآن کریم نازل ہونے کی ابتدا ہو ئی اور تیئیس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کو نازل فرمانے والا،خدا وحدہ،لاشریک ،اس کا لانے والافرشتہ بڑی خوبیوں والا معززمحترم اور امانت دار ، حضور علیہ السلام کا جاناپہچانا ، اس کو لینے والے محمد ابن عبداللہ ﷺ نبیوں کے سردار ،آخری نبی (ﷺ) ہیں۔قرآن کریم کی ان آیات پر غور کیجئے ۔ترجمہ:’’فرمادیجئے ، نازل کیا ہے اسے روح القدس نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ ، تاکہ ثابت قدم رکھے انہیں جو ایمان لائے ہیں یہ ہدا یت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے‘‘(پ ۴۱ ،النحل ، ۲۰۱) یہ سورہ نحل کی آیا ت ہے ،دوسرے مقام پر سورہ شعرا میں فرمایا جارہا ہے ، ترجمہ ’’اور بے شک یہ کتاب رب العلمین کی اتاری ہو ئی ہے اسے لے کر روح الامین اترے ہیں (اے محمدﷺ ) آپ کے قلب پر تاکہ آپ لوگوں کو ڈرانے والے ہو جائیں یہ ایسی عربی زبان میں ہیں جو بالکل واضح ہے اوراس کا ذکر پہلے لو گو ں کی کتابوں میں بھی ہے ‘‘ (پ ۹۱ ، الشعرا ،۲۹۱،۶۹۱)سورہ تکویر کی آیا ت سے مزید وضاحت ہو تی ہے ،ترجمہ ’’بے شک یہ(قرآن) معزز قاصد (جبرئیل)کا (لایا) ہو ا قول ہے جو قوت والا مالک عرش کے یہا ں عزت والاہے سب (فرشتوں)کے سردار اور وہاں کا امین ہے اور تمہا را یہ ساتھی (محمد ﷺ) کوئی مجنون تو نہیں ہے اور بلا شبہ اس (رسول)نے اس قاصد (جبرئیل)کو روشن کنارے پر دیکھا ہے اور یہ نبی غیب بتانے میں ذرا بخیل نہیں اور یہ (قرآن)کسی شیطان مردود کا قول نہیں پھر تم کدھر چلے جارہے ہو یہ صرف تمام جہا ںوالو ں کے لئے نصیحت ہے جو تم میں سے سیدھی راہ چلناچاہے ‘‘ (پارہ۰۳ ،التکویر ، ۹۱،۸۲)
بالکل واضح ہو گیا کہ قرآن کریم نازل کر نے والا تمام جہانوں کا پر ور دگار ہے اس کو دنیا میں پہنچانے کا کا م ایک ایسے فرشتے کے سپرد کیا گیا جو روح القدس ہے ،روح الامین ہے ، بڑی قوت والا ہے۔ خدا کے نزدیک اس کی بڑی عزت ہے ، فرشتوں کا سردار اور فرشتوں میں نہایت امانت دار ہے ۔جس پر یہ کتاب نازل ہو ئی اس کو فرشتے سے لینے کی روحانی قوت اور انسانوںکو دینے سکھانے کی مادی صلاحیت سے پو ری طرح نوازاگیا ہے ۔ اس نے زندگی کے چالیس برس اہل مکہ میں بڑی عزت کے ساتھ امین ،صادق کی حیثیت سے بسر کئے ہیں۔ اس کی زندگی دیکھنے والے ذرا بھی انصاف سے کا م لیں تو اس کو مجنوں و دیوانہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: علیہ السلام یہ کتابیں ں کے لئے نازل ہو یہ کتاب نے والا ہے اور

پڑھیں:

اولاد کی تعلیم و تربیت

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔

ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔

اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔

اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)

آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔

اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔

جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔

بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔

اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔

اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)

            اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔

والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟

اس نے عرض کیا: نہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘

اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی عمرانی ہاؤس آمد ، سردار غلام رسول عمرانی کے چچا کے انتقال پر تعزیت و فاتحہ خوانی کی
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول